اجودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کا مشورہ

نئی دہلی، 21 مارچ (یو این آئی) سپریم کورٹ نے رام جنم بھومی ۔بابري مسجد ملکیت مقد مہ سے وابستہ فریقون سے اس مسئلے کو مل بیٹھ کر دوستانہ طریقے سے حل کرنے کی صلاح دی ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈر سبرامنیم سوامی نے آج سپریم کورٹ سے رام جنم بھومی ۔بابري مسجد تنازعہ پر جلد سماعت کرنے کی درخواست کی تھی، اس پر چیف جسٹس جے ایس کیہھر نے کہا کہ یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے ، اس لئے بہتر ہوگا کہ اس تنازعہ سے وابستہ تمام فریق اس کو باہمی رضامندی سے حل کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر متعلقہ فریقین چاہیں تو وہ خود اس معاملے میں مداخلت کرنے کو تیار ہیں یا کسی دیگر عدالتی حکام کو بھی وہ اس کے لئے منتخب کر سکتے ہیں۔ مسٹر سبرامنیم سوامی نے بعد میں نامہ نگاروں سے کہا کہ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ معاملے کو باہمی رضامندی سے حل کرنے کے لئے عدالت ہی حکم دے تو مناسب ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس پر چیف جسٹس نے ان سے اس معاملے کو 31 مارچ کو عدالت میں دوبارہ اٹھانے کو کہا ہے ۔سپریم کورٹ کے مشورے کا ایک طرف جہاں مقامی لوگوں نے تہہ دل سے خیر مقدم کیا ہے ، وہیں دوسری جانب اس معاملے سے جڑے فریقوں نے اس پیشکش کو قبول سے انکار کردیا ہے ۔ اسّی کی دہائی سے مندر۔ مسجد تنازعہ کا درد برداشت کرنے والے اجودھیا اور اطراف کے باشندے اس مسئلے کا جلد حل چاہتے ہیں۔ حل چاہے بات چیت سے ہو یا عدالتی فیصلے سے ہو، مگر وہ چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ جلد نمٹ جائے ۔ سال 1990 میں کارسیوکوں پر فائرنگ میں اپنے بیٹے راجندر دھرکار کو کھونے والے رمیش کہتے ہیں کہ “اب بہت ہو چکا۔اس مسئلے کا حل نکلنا ہی چاہئے ۔ اس تنازعہ نے اجودھیا کو کافی پیچھے دھکیل دیا”۔ ادھر، اس مقدمے کے فریق وشو ہندو پریشد، نرموہی اکھاڑہ اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ معاملہ کافی آگے بڑھ گیا ہے ۔ تمام فریقوں کو اعتماد ہے کہ جیت انہی کی ہوگی ، تاہم، وہ صلح و مصالحت کے امکان سے براہ راست انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاملہ اب کافی آگے بڑھ گیا ہے ۔ لہذا یہ معاملہ اب عدالت میں ہی حل ہو سکتا ہے ۔ وشوھندو پریشد اس معاملے کا حل پارلیمنٹ سے قانون بنا کر بھی بتاتے ہیں، لیکن بات چیت سے مسئلے کے حل کے امکان کو سرے سے مسترد کرتے ہیں۔اجودھیا کے مشہور مندر رام ولبھا کنج کے مھنت راجکمار داس کہتے ہیں کہ یہ سمجھوتہ تبھی ممکن ہو گا جب فریقین “دو قدم پیچھے ۔ چار قدم آگے ” ہونے کو تیار ہوں۔ جب اپنی اپنی ضد پر ہی لوگ اڑے رہیں گے تو سمجھوتہ کس طرح ممکن ہے ۔مہنت راجکمار داس نے کہا کہ اس مسئلے کو بات چیت سے حل کرنے کی سنجیدہ کوشش چندر شیکھر کے دور میں ہوئی تھا جب دونوں فریقین معاملے کے حل کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ کر کئی دور کی بات چیت ہوئی۔دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو کاغذات بھی سونپ دیے تھے ۔ حلف نامے کے ذریعے کہہ دیا گیا تھا کہ بات نہیں بننے پر عدالت کا حکم مانیں گے ۔ دونوں فریق آپسی صلح کی طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ بد قسمتی سے چندر شیکھر جی کی حکومت گر گئی اور معاملہ درمیان ہی میں لٹک گیا۔وہ کہتے ہیں کہ اس وقت تحریک کا آغاز تھا۔ معاملہ بہت سنگین نہیں بن پایا تھا۔ متنازعہ ڈھانچہ بھی محفوظ تھا، لیکن ڈھانچہ تباہ ہونے کے بعد حالات بدل گئے ہیں اور اب تمام فریق ہی یہ مان کر چل رہے ہیں کہ فیصلہ انہیں کے حق میں آئے گا، اس لئے آپسی رضامندی سے کیس کے حل کے امکانات نہیں کے برابر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ برانچ کی خصوصی بنچ کے حکم سے تمام فریقین اپنی ہی جیت کے لئے مطمئن ہوگئے ۔ ہائی کورٹ نے متنازعہ اراضی کو تینوں فریقوں سنی سینٹرل وقف بورڈ، رام للا اور نرموہی اکھاڑے میں برابر تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف فریق سپریم کورٹ چلے گئے ۔سپریم کورٹ نے ہاءي کورٹ کے حکم پر روک لگاتے ہوئے اس پر سماعت شروع کر نے کا فیصلہ کیا تھا۔دوسری طرف، سپریم کورٹ کے آج کے مشورے کو وشو ہندو پریشد، سینٹرل سنی وقف بورڈ اور نرموہی اکھاڑے نے سرے سے خارج کردیا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر اور سینٹرل سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے کہا کہ 1990 سے ہی صلح کی کوشش چل رہی ہے ۔ معاملہ آگے بڑھ گیا ہے ۔ آپسی رضامندی سے حل نہیں نکلے گا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس براہ راست مداخلت کریں تو ہو سکتا ہے کچھ بات بن جائے ۔وشو ہندو پریشد کے ترلوکی پانڈے نے کہا کہ رام جنم بھومی مذبی جذبے اور عقیدت کا معاملہ ہے ۔ اس کا حل تبھی ہو سکتا ہے جب دوسرے فریق بھی یہ مان لیں کہ متنازعہ مقام ہی رام جنم بھومی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 1949 سے معاہدے کے کئی دور چلے لیکن نتیجہ صفر رہا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جج پلک باسو نے بھی معاہدے کی کوشش کی تھی۔مسٹر پانڈے نے کہا کہ اس معاملے کا حل عدالت سے یا پارلیمنٹ سے قانون بنا کر نکالا جا سکتا ہے ۔ اکثریتی طبقہ کی خواہش کو بہت برتر رکھنا ہی ہوگا۔ اس کیس کے ایک دوسرے فریق نرموہی اکھاڑہ بھی مانتا ہے کہ معاملے کا حل مندر کی تعمیر سے ہی نکلے گا لیکن معاہدے میں اگر اسے ہی بنیاد بنایا گیا تو سنی سینٹرل وقف بورڈ ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔اس لئے آپسی بات چیت سے حل نکلنے کا امکان نہیں کے برابر ہے ۔