جنوبی ایشیائی موسیقی کا دارالحکومت کہاں ہے؟

گلوکار اور موسیقار عدنان سمیع نے اپنے فن سے پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک میں شہرت حاصل کی لیکن انڈیا کی شہریت حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں بعض حلقوں کی جانب سے ان بہت تنقید ہوئی۔موسیقار عدنان سمیع نے انڈیا کا پاسپورٹ حاصل کیا تو پاکستان میں ان پر بہت تنقید ہوئی۔چند دن پہلے انھوں نے لندن کے ویمبلے ارینا میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ شائقین میں لندن کے میئر صادق خان بھی موجود تھے۔ ان سے سب سے پہلے یہی سوال پوچھا کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں کہ انھوں نے پاکستان کی شہریت ترک کرکے انڈیا کی شہریت اپنا لی۔اس پر عدنان نے کہا: ‘میرا گھر گذشتہ 18 برسوں سے انڈیا کے شہر ممبئی میں ہے۔ وہاں مجھے ایک ایسی جگہ مل گئی جہاں میں مطمئن محسوس کرتا ہوں۔ وہاں پر لوگ مجھ سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ میرا کام ہی کچھ ایسا ہے کہ پوری دنیا میں جاتا ہے۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ میرا تعلق کہاں سے ہے ان کو تو میرے کام سے مطلب ہے۔’انھوں نے کہا 18 برس کوئی چھوٹا وقت نہیں ہے اور اس دوران رشتے بن جاتے ہیں اور اب ممبئی میرا ہوم ٹاؤن ہے۔ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ انھیں پاکستان میں بھی تو بہت پیار ملا تھا تو انڈین شہریت حاصل کرنے سے ایسے بہت سے پاکستانیوں کے دل نہیں ٹوٹے ہوں گے۔ کیا ان کا درد آپ سمجھ سکتے ہیں؟اس پر عدنان نے کہا: ‘دل سے اگر بات کروں تو مجھے اس سے کوئی زحمت نہیں ہے۔ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ میں جہاں بھی رہنے کا انتخاب کروں وہ میرا ذاتی حق ہے۔ اوپر والے نے جب اس دنیا کو بنایا تو ایک ہی دنیا بنائی۔ یہ سرحدیں انسان نے بنائی ہیں۔ یہ پوری دنیا ایک نعمت ہے اور اس دنیا میں انسان کی جہاں مرضی آئے وہاں جا کے رہے۔’عدنان سمیع نے کہا کہ قیامت کے دن خدا امریکیوں کو ایک طرف، پاکستانیوں کو دوسری طرف اور انڈینز کو ایک طرف نہیں کھڑا کرے گا بلکہ خدا تو سب کو ایک نظر سے دیکھے گا اور کہ کون اچھا ہے اور کون برا ہے۔ ‘جہاں میں وہاں رہتا ہوں وہاں مجھے اپنے ہنر کو آگے بڑھانے کا موقع ملیگا۔’عدنان کا کہنا تھا کہ لوگ اپنے پیشے کے لحاظ سے دنیا کے مختلف علاقوں کو ہجرت کر جاتے ہیں۔ ‘میں ایک موسیقار، کمپوزر ہوں اور جنوبی ایشیائی موسیقی پر توجہ دیتا ہوں۔ اس کا دارالحکومت کہاں ہے؟’ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ بھی تو انڈیا میں کام کر رہے تھے تو پھر ایسا کیا ہوا کہ انھیں انڈیا کی شہریت لینی پڑی۔ اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟عدنان سمیع نے بتایا کہ ہوا یہ کہ ان کا پاکستانی پاسپورٹ ایکسپائر ہورہا تھا اور اس کی تجدید کا وقت آیا تو انھوں نے پاکستانی ہائی کمیشن میں اس کی درخواست دی لیکن اس کا کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔ ‘جب میں نے تاخ?ر کی وجہ پوچھی کہ آخر میرا پاسپورٹ کیوں نہیں رینیو کیا جا رہا ہے، تو مجھے آہستہ سے بتایا گیا کہ دیکھیے یہ پاسپورٹ یہاں سے رینیو نہیں ہوگا۔’ان کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے ایک وقت یہ آیا کہ وہ بغیر ریاست کے ہوگئے اور لگا کہ انھیں ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔ ‘پھر میرا رابطہ انڈیا کی وزارت داخلہ سے ہوا۔ انھوں نے مجھے ایک مستقل رہائش کا پرمٹ دے دیا۔ یہ بالکل پناہ لینے جیسا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ صورت حال یہ ہوگئی ہے تو میں نے انڈین شہریت کے لیے درخواست دی اور اس صورت میں مجھے پاکستانی شہریت ترک کرنی پڑی۔’عدنان سمیع کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی عوام کے جذبات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن میرے آخری قدم کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کر رہے ہیں۔ ‘آپ کو سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ اس مقام تک آخر پہنچا کیسے۔ میرا جو پاکستانی عوام کے ساتھ رشتہ ہے، جنھوں نے مجھے بہت پیار دیا ہے، وہ آج بھی برقرار ہے۔ حکومت نے میرے ساتھ جو سلوک کیا وہ اشتعال دلانے والا عمل تھا۔’ان کی گلوکاری اور صوفی موسیقی کے تعلق پر ایک سوال کے جواب میں عدنان نے کہا کہ ان کی زبان موسیقی کی زبان ہے ’میں اسی زبان سے خدا کی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ میرے لیے یہ سب سے بڑی چیز ہے کہ میں خدا سے موسیقی کی زبان میں گفتگو کروں۔‘