مو من مر دو زن کے نمایاں خصوصیات

اسامہ عاقل حافظ عصمت اللہ
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اورمومن عورتیں، فرمابرداری کرنے والے مرد اورفرمابرداری کرنے والی عورتیں،راست باز مرد اور راست باز عورتیں ،صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں،عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرداورخیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اورروزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اورحفاظت کرنے والیاں، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے)لئے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کررکھا ہے ۔(سورة احزاب۔آیت ۵۳)۔
حضرت اسماءبنت عمیسؓ جب اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب کے ساتھ حبشہ سے واپس آئیں تو ازواج مطھرات نبی کریم ﷺسے مل کر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا عورتوں کے بارے میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے ….؟
انہوں نے فرمایا……..نہیں….“
تو حضرت اسماءؓ نے حضورﷺسے عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول !عورتیں بڑے گھاٹے میں ہیں۔ آپنے فرمایا ….کیوں….؟
ان کا ذکر خیر کے ساتھ ہوتا ہی نہیں ۔ جیسا کہ مردوں کا ہوتا ہے ؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔اور ان کے دس مراتب مردوں کے ساتھ ذکر کئے گئے اور ان کے ساتھ انکی مدح فرمائی گئی۔
ان المسلمین والمسلمات:- ان مراتب میں پہلا مرتبہ اسلام ہے ۔ جو اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری ہے۔ یعنی وہ مرد وزن جو اسلام کے اعمال ظاہر ی پرقائم ہوں اور جنہوں نے اسلام کو اپنے لئے ایک ضابطہ ¿حیات کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ۔ اور انکی زندگی اسکی پیروی میں گزربسر ہوتی ہو۔
والمو¿منین والمو¿منات:- دوسرا مرتبہ ان مراتب میں ایمان کا ہے وہ اعتقاد صحیح اور ظاہر وباطن کا موافق ہوناہے۔یعنی وہ مرد وزن جو صحیح عقائد کے پابند ہوں یعنی انکی اپنی اطاعت محض ظاہری نہیں بلکہ وہ دل سے اسلام کی حقانیت پر یقین رکھتے ہیں۔اور اسلام کی رہنمائی کو حق مانتے اور جانتے ہیںکہ اسلام ہی سیدھا راستہ ہے۔
والقانتین والقانتات:- تیسرا مرتبہ ان مراتب میں قنوت یعنی فرماں برداری کا ہے ۔ کہ وہ جوکچھ ہیں براہ تابعداری بلاکسی پس وپیش کے کرتے ہیں ۔ کسی بھی حکم شرعی کی تعمیل میں کوئی دنیاوی مصلحت ان کے لئے سدِّراہ نہیںبنتی۔
والصادقین والصادقات:- یہ چوتھا مرتبہ ہے کہ وہ صدق نیات اور صدق اقوال واعمال ہے۔ یعنی ان کا وہ صدق جامع ہے ۔ صدق قول،صدق اعمال ، صدق نیت ، صدق ایمان ، ہرقسم کے صدق کا یعنی ان کی زبان وہی بولتی ہے جس کی سچائی پر ان کا ضمیر ان کا ایمان گواھی دیتا ہے ۔ اور وہی کرتے ہیں جو راستبازی و صداقت کے مطابق ہوتاہے۔
والصّاَبرین َ والصّاَبرات:- پانچواں مرتبہ ان مراتب میں صبر کا ہے کہ اطاعتوں کی پابندی کرنا اور ممنوعات سے احترام کرنا ۔ خواہ نفس پر کتناہی شاق وگراں ہو۔ محض رضائے الٰہی کے لئے اختیار کیا جائے یعنی کوئی خوف کوئی لالچ اور خواہش نفس کا کوئی تقاضا ان کو راہ حق سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔
والخاشعین والخاشعات :-چھٹا مرتبہ ان مراتب میں خشوع کا ہے ۔ جو طاعتوں اور عبادتوں میں قلوب وجوارح کے ساتھ متواضع ہوتا ہے یہ خشوع شامل ہے ۔عبادات میں توقہ قلبی کو عادات میں تواضع وفروتنی کو یعنی وہ مردوزن جو تکبیرواستکبار اور غیر ور نفس سے خالی ھیں ۔ اس لئے ان کے دل اور جسم دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے رہتے ہیں ۔اور خوف خدا ان کے تمام احوال میں ان پر غالب رہتا ہے ۔ مراد اس خشوع سے یہاں نماز بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ ہے خشیتِ الٰہی کا ۔ جبکہ اسکے بعد ہی صدقے اور روزے کا ذکر آرہاہے۔“
والمتصدقین والمتصدقات:- ساتواں مرتبہ ہے ان مراتب میں تصدق کا یعنی وہ مرد و زن جو اللہ تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے مال ومتاع سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔اور اس تصدق میں زکوٰة و صدقہ و نفل سب ہی آگئے ۔ مراد یہ ہیکہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کھلے دل سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔اور راہ حق میں حسب استطاعت خرچ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتے ۔اور اللہ کے دین کو سربلند رکھنے کے لئے کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹتے۔
والصّائمین والصّائمات :- یہ آٹھواں مرتبہ صوم کا ہے ۔اور اس میںفرض ونفل دونوں قسم کے روزے شامل ہیں۔ منقول ہے کہ جس نے ہر ہفتہ ایک درہم صدقہ کیا ۔وہ متصدقین میں سے ہے ۔ اورجس نے ہر مہینہ تین روزے رکھے ، وہ صائمین میں شمار کیا جاتاہے۔
والحافظین فروجھم والحافظات:-یہ بیان ہے عفت وعصمت کا اور وہ یہ ھیکہ مردوزن اپنی پارسائی کی حفاظت کریں ۔اور جو جلال نہیں ہے اس سے بچتے رہیں ۔ یعنی زِنا سے پرھیز کریں۔
دوسرا مفہوم اپنی پارسائی پر نگاہ رکھنے کایہ بھی ہےکہ وہ برھنگی اور عریانی سے اجتناب کریں اور برھنگی وعریانی صرف اسی چیز کانام نہیں کہ آدمی کسی طرح کے لباس کے بغیر بالکل مادرزادننگا ہوجائے ۔ بلکہ ایسالباس پہننا بھی برھنگی ہے جو اتنا باریک ہو کہ اس میں جسم جھلکتا ہو ۔یا اتنا چست ہو کہ جسم کی ساخت اوراسکے نشیب وفرازسب اس میں سے نمایاں نظر آتے ہوں حدیث شریف میں ایسے لباس کو ننگا لباس فرمایاگیا۔
آیت شریفہ میں مردوں کے لئے الحافظین فروجھم (اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ) فرمایاگیا ۔اور عورتوں کو کے لئے صرف الحافظات نگاہ رکھنے والیاں فرمایا گیا۔ گویا عورتوں کو اشاروں کنا یوں میں یہ بات سمجھا ئی جارہی ہے کہ مردوں کے لئے چند اعضائے مخصوص کا تحفظ کنا یت کرتا ہے بر خلاف عورتوں کے ۔ ان کےلئے صرف اتناہی کا فی نہیں ۔بلکہ عورت کی ہر چیز عورت ہوتی ہے ۔اسے اپنی پارسائی کی حفاظت کے لئے اپنی رفتار وگفتار، لباس وآواز ااور طورطریقے میں،ہر چیز میں ،ہر وقت احتیاط لازمی ہے۔
والذّٰکرین اللہ کثیراًوّالذّٰکرٰت:- سب سے آخیر میں دسویں مرتبے یعنی کثرت ذکر کا بیان ہے۔اور اس کثرت ذکر میں تسلیم و تہلیل (لاالہٰ الااللہ کا ورد کرنا )تکبیر (اللہ اکبرکہنا)تلاوت قرآن کریم ۔قرا¿ت حدیث شریف اور علم دین کا پڑھنا پڑھانا ۔ نماز ، وعظ ونصیحت سب داخل ہیں ۔کہا گیا ہے کہ بندہ ذاکر ین میں اس وقت شمار ہوتا ہے جب وہ کھڑے ،بیٹھے ، لیٹے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے ۔ ذکر الٰہی وہ نعمت الٰہی ہے جس کا حکم دیا گیا ہے ۔ حکیم مطلق بھی مقید بھی ، غفلت ونسیا نِ ذکر نہیں فرمائی گئی ۔ فلاح ونجات کو کثرت ذکر پر معلق فرمایا گیا ۔ اہل ذکر کی مدح وثناءفرمائی گئی ۔
اس نعمت سے غفلت برتنے والوں کے خسران و نقصان کو بیان فرمایا گیا اسی ذکر کو جملہ اعمال صالحہ سے افضل واعلیٰ فرمایا گیا کہ یہی روح اعمال ہے ۔ذاکرین کو ہی صاحب عقل وہوش فرمایا گیا ۔ یا د الٰہی میں مشغول رہنے والوں ہی کو زندگی سے بہرہ ورفرمایا گیا ۔
نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے :(یقول اللہ تعالیٰ:ا¿ناعندظَنّ عبدی بی ،و ا¿نامعہ اءذاذکرنی، فاءن ذکرنی فی نفسہ ©©©©©ذکر تُہُ فی نفسی ،واءن ذکرنی فی ملاٍذکرتہ¾ فی ملاٍءخیر منھم ….)”اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتاہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتاہے تو میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں۔ اور اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتاہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یا دکرتا ہوں۔اگر وہ کسی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتاہوں ۔”(البخاری ،للتوحید باب قول اللہ “ویحذکم اللہ نفسة۵۰۴۷ مسلم کتاب الذکر والدعا”التوبة، باب الحث علیٰ ذکراللہ تعالیٰ:۵۷۶۲)
ذکر خدا سے متعلق یہ ایک آیت کی طرف غور کیجئے۔ تُسَبِّح لَہُالسَّمٰوٰتُ السَّب±عُ والارض ومن فِیھ±ِنَّ:-اسکی پاکی بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین ۔ اور جو کوئی ان میں ہیں اور کوئی چیز نہیں اسے سراھتی ہوئی اسکی پاکی نہ بیان کرے ۔ ہا ں تم اسکی تسبیح نہیں سمجھتے یہ کلیة عامہ تمام اشیائے عالم کو شامل ہے۔
ذی روح ہوں یا بے روح کہ وہ اجسام محسنہ بھی جن کے ساتھ کوئی روح نباتاتی بھی قائم نہیں ۔وہ بھی دائم التسبیح ہیں کہ اِن مِّن شَئی کے دائرے سے خارج نہیں ۔مگر انکی تسبیح بے منصب ولایت نہ مسموع ہے کے سننے میں آئے نہ مفہوم ہے کہ عقل میں سمائے اور اجسام جنس روح ایسی یا حیی یا ملکی یا حیوانی یا نبا تاتی متعلق ہے ۔انکی دو تسبیحیں ہیں ۔ ایک تسبیح جسم کے اس روح کے متعلق کے اختیاری نہیں۔ وہ اسی دن اِن من شئی ٍ کے عموم ہیں۔اس کی اپنی ذاتی تسبیح ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ ہر مخلوق اپنے خالق کی الوہیت ، شان حاکمیت اور شان قدوسیت کا اعلان اپنے مرتبے وجود کے متناسب و مطابق برابر کرتی رہتی ہے خواہ زبان حال سے ہو کہ ان کے وجود صانع کی قدرت و حکمت پر دلالت کرتے ہیںاور موجودات عالم کا ذرہ ذرہ اپنے حدویت وامکان کی بنا پر صانع مطلق کے نہ صرف وجوب وجود کی بلکہ اسکی یکتائی اور صناعی قدرت کی بھی شہادتیں دے رہا ہے۔خواہ زبان حال سے، خواہ زبان قال سے ، اور یہی صحیح ہے ۔ احادیث کثیرہ اس پر دلالت کرتیں ہیں اور سلف سے یہی منقول ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ذکرکرنے والا سات خوش نصیبوں میں سے ایک ہے جنہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا۔ جب کہ ارشاد نبوی ﷺ ہے ۔ (سبعة یظلھم اللہ فی ظلہ یوم لا ظل الا ظلہ!….ورجل ذکرھتہ خالیا ففاضت عیناہ)(متفق علیہ صحیح البخاری۰۶۶،صحیح المسلم ۱۳۰۱)
سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے (عرش کے) سائے میں جگہ دیگا اور اس د ن اسکے( عرش)کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا !…. ان میں سے ایک شخص وہ ہے جس نے علیحد گی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھو ں سے آنسو بہ نکلے۔
ذکر اللہ دلِ مومن کو زندگی بخشتا ہے ۔
نبی ﷺنے فرمایا!( مثل الذی یذکر ربہ والذی لایذکرہ مثل الحیّ والمیت)اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتارہتاہے ایسے جیسے ایک زندہ شخص ہو ۔اور اس شخص کی مثال جو اسکی یاد سے غافل ہے ایسے ہیں جیسے ایک مردہ شخص ہو ۔(صحیح البخاری ۷۰۴۶)
ان تمام احادیث سے تسبیح وتحلیل کی فضیلت نیز مومنین کی خصوصیات نمایا ہوتا ہے ۔ مبارک ہے وہ انسان جسے ذکر ربا نی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے ۔مبارک ہے وہ صاحب ایمان جس نے فنا ئے عالم کا سبق بقائے رب انعام سے سیکھ لیا ہے ۔
یاد رکھنا چاہئے کہ ذکر ہی اہل ِایمان کا زاد راہ ہے جیسے لیکر وہ صفر کرتے ہیں ۔ ذکر ہی وہ منشور ہے جس کی بدولت وہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ذکر ہی دلوں کی زندگی ہے جس کے بغیر اجسام بمنزلہ¿ گور رہجاتے ہیں ۔ ذکر ہی وہ ہتھیار ہے جس سے رہزنوں اور دشمنوں کو ہٹایا جاتاہے ۔ذکر ہی وہ پانی ہے جس سے دل کی آگ بجھائی جاتی ہے۔ذکر ہی وہ دوا ہے جس سے باطن کا روگ دور کیا جاتاہے ۔
مذکورہ تمام مراتبوں کے بیانات و مفاہم سے واضح ہو تاہے کہ ایک مسلمان مرد اور ایک مسلمان عورت کن کن صفات سے متصف ہو ناچاہئے او ر انہیں اپنی پوری زندگی کو کون کون اعمال سے لیس کرنا چاہئے کہ وہ مسلمان مردوزن بحیثیت ایمان باقی ودائم رہ سکتا ہے ۔
Address: Raghonagar,Bhawara,Ward,No;28,
Madhubani 847212
٭٭٭٭