کان بجنا بیماری نہیں

ستاون سالہ جسٹس (JUSTUS ) کے جب ہاتھ کانپنے لگے،غالباََ عصبی کھچاؤ کی وجہ سے تو اس کے معالج نے مشورہ دیا کہ وہ اسپتال جا کر اپنے ٹیسٹ کرائے۔اس نے اندازہ لگایا تھا کہ اس کے دماغ میں رسولی ہے،کیوں کہ اسے اپنے کانوں میں طرح طرح کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔کئی ٹیسٹ ہونے پر کوئی غیر معمولی چیز ظاہر نہیں ہوئی،البتہ حیرت انگیز انکشاف ہوا،جس کی تفصیل ذیل میں درج کی جارہی ہے۔
جسٹس نے یاد کرتے ہوئے کہا:’’مجھے ایسا معلوم ہوتاتھا،جیسے کوئی فولادی گولے ہتھوڑے برسا رہا ہو۔‘‘ وہ اپنی کیفیت بیان ہی کررہا تھا کہ اس کے بائیں کان میں درد ہونے لگا۔اس کے بعد تیز آواز آنے لگی جیسے کوئی چیخ رہا ہو۔مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ آواز گھر کے کسی حصے سے نہیں آرہی تھی۔یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔
وہ آواز جو کہیں سے نہیں آتی ،مگر ایسا لگتا ہے کہ کہیں سے آرہی ہے،اسے کانوں کا بجنا کہتے ہیں۔یہ شور چندگھنٹوں تک بھی ہوسکتا ہے۔دنیا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداداس پریشانی میں مبتلا ہے۔انھیں اپنی سماعت میں گھنٹیوں کی آوازیں،چہچہاہٹ،کلک کلک اور بھنبھناہٹ محسوس ہوتی ہے،جب کہ آواز آنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
اس وقت دنیا میں تیس کڑور افراد کان بجنے کی پریشانی میں مبتلا ہیں،جو آبادی کا 10 فیصد ہیں۔بوڑھے افراد کو یہ شکایت زیادہ ہوتی ہے۔
کانوں کا بجنا وقفے وقفے سے ہوسکتا ہے اور مستقل بھی۔کان بجنا تیز بھی ہو سکتا ہے اور دھیما بھی۔بعض اوقات آواز اتنی تیز ہوتی ہے کہ یہ تک سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس چیز کی آواز ہے۔ٹیلے ویڑن پر کوئی پروگرام آرہا ہوتو آواز واضح طور پر سمجھ میں نہیں آتی۔اس پریشانی میں مبتلا شخص ذہنی طور پر جھنجلاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر مائیکل سیڈ مین جو ڈیٹرائٹ(مشی گن) کے ایک اسپتال میں ماہر ہیں،وہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا ہے کہ اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی اپنی بیویوں سے علاحدگی ہوجاتی ہے۔کچھ افراد ایسے ہیں، جو اس پریشانی میں مبتلا ہونے کے بعد کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے اور دن بہ دن کمزور ہوتے جاتے ہیں۔
آخر یہ آوازیں کیوں آتی ہیں؟انھیں دھیما کیسے کیا جاسکتا ہے؟
نوٹنگھم یونی ورسٹی میں سماعت کے پروفیسر ڈیبوعا کہتے ہیں کہ کانوں کا بجنا کوئی بیماری نہیں،البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مختلف بیماریوں کے بعد ایسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔کان بجنے کی بہت سی وجوہ ہیں،جن میں تیزآواز سننے کی عادت،سماعت کا ختم ہونا،کوئی چوٹ لگنا،دواؤں کا غلط اثر،موروثیت اور کان میں میل جمنا تک شامل ہیں۔بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی وجہ کا پتا نہیں چلتا۔
پورٹ لیند کے ایک کلینک میں کان بجنے کی پریشانی میں مبتلا ایسے افراد زیر علاج ہیں،جن میں سے 90 فی صد کی یاداشتیں تقریباََ ختم ہوچکی ہیں۔کان بجنے کا کوئی علاج نہیں ہے،اس کے باوجود معالج ایسی ادویہ دیتے ہیں،جنھیں کھانے سے تکلیف میں کمی ہوجاتی ہے۔طبی رپورٹوں کا مطالعہ اور اس پریشانی میں مبتلا ہونے والوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد معالجین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ متاثرہ افراد کے جسموں میں حیاتین ب ۲۱ (وٹامن بی ۲۱)کی کمی ہوجاتی ہے،لہٰذا جب انھیں اس حیاتین کے ضمیے دیے گئے تو ان کی حالت قدرے بہتر ہوگئی۔اس کے علاوہ اگر ایسے افراد جست(ZINC)کے ضمیمے کھائیں،تب بھی افاقہ ہوتا ہے۔ان ضمیموں کو کھاتے وقت معالج سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔اس سلسلے میں چین کی ایک جڑی بوٹی’’ GINGKO BILOBA ‘‘ بھی فائدہ دیتی ہے۔ نیوروٹرانسمیٹر (NEUROTRANSMITTER ) یعنی عصبی مرسل جو کانوں سے اشارے (سگنلز) دماغ تک منتقل کرتا ہے،اگر اس کا بھی علاج کیا جائے تو کان بجنا کم ہوجاتے ہیں۔وہ افراد جنھیں کم سنائی دیتا ہے اور یہ پریشانی بھی ہوجاتی ہے،ان کے لیے آلہ سماعت لگانا بہتر ہوتا ہے۔ اس سے کان بجنا بند نہیں ہوتے لیکن آواز بہتر سنائی دینے لگتی ہے۔