روزہ اور ترک گناہ

اسامہ عاقل حافظ عصمت اللہ، مدھوبنی (بہار ) 9534677175
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”اے ایمان والو! روزہ تم پر فرض کیاگیاہے جیسے کے پہلی امتوں پر فرض کیاگیاتھاتاکہ تقویٰ حاصل کر سکو(سورة بقرة : ۳۸۱)
اور اسی ماہ رمضان میں ایک رات بڑی اہم ہے جیسے لیلة القدر(قدر کی رات) کہاجاتاہے اور یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں(۱۲،۳۲،۵۲،۷۲،۹۲)میں سے ایک رات ہے۔ اور حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیںپرے ۲۱ مہینوں میںرمضان المبارک یہ ایک بابرکت مہینہ ہے جس میںجنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیںاور شیاطین قید کر دئے جاتے ہیں (صحیح بخاری و مسلم)یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے ، دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے ،اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔
جو لوگ روزہ رکھ کر اور تراویح پڑھ کر بھی گناہوں اور جرائم سے باز نہیں آتے اور توبہ استغفار سے محروم رہتے ہیں وہ بڑے بدقسمت روزہ دار ہیں کہ روزہ اور تہجد کے باوجود ثواب سے محروم ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں آپﷺ کا ارشاد ہے”کتنے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں انکے روزہ سے بھوک و پیاس کے سواکچھ نہیں ملتا، اور کتنے تہجد گزار ایسے ہیں جن کے تہجد سے انکو شب بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا(مسند دارمی) ایسے بے عمل روزہ داروں کا روزہ بے کار ہے ۔ حدیث قدسی میں ہے کہ رحمت عالم ﷺ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان عالی شان سناتے ہیں۔خدا وند قدوس نے ارشاد فرمایا : روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کا بدلہ دونگا۔ یعنی روزہ بندہ میرے لئے رکھتا ہے تو اسکی جزا خد دونگا(بخاری شریف)حضور اکرم ﷺ روزہ دار کے حق میں ارشاد فرماتے ہیں ” جس شخص نے قول باطل اور اس پر عمل ترک نہیں کیاتو اللہ کو اس کے بھوکے اور پیاسے رہنے کی کوئی پرواہ نہیں ہے (بخاری) جب رمجان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو عام طور پر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ نوجوان جن کو اللہ نے جسمانی طور پر کافی قوت و طاقت دے رکھی ہے یعنی دیکھنے میں بالکل صحت مند اورتندرست ہوتے ہیں، موٹے اور فربے نظر آتے ہیں مگر وہ روزے سے بالکل لاپرواہ ہوتے ہیں ، تو ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ایک فرض روزہ بلا عذر ترک کرنے کا کفارہ ساری عمر کے روزے بھی نہیں بن سکتے (صحیح بخاری) اس ماہ مبارک میں جھوٹ ،بہتان، غیبت ، حرام خوری اور دیگر تمام آلودگیوں سے پوری طرح پرہیز کرنا چاہئے۔ روزے کی حالت میں کان ،آنکھ ، پیٹ ستر گاہ اور دیگر تمام اعزا کی حفاظت لازمی ہے جو روزے دار روزے کی حالت میں بھی ان چیزوں کی حفاظت نہ کر سکے تو ایسے روزے داروں کے بارے میں نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایاہے ”بہت سے روزے دار ایسے ہیں جن کو بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا “
روزے کی حالت میں جہاں گناہوں سے پرہیز لازم ہے وہیں بے فائدہ اور لایعنی مشاغل سے اجتناب کرنا بھی بے حد ضروری ہے ۔ کیوںکہ بے مقصد کے مشغلے انسان کو اصل مقصد سے ہٹادیتاہے ۔بہت سے لوگ ایسے ہیں جو روزہ کی اہمیت نہیں دیتے ہیں بلکہ کھیل کود ، شطرنج ،تفریح ، تماشہ ،ٹیلی ویژن ،اور فلم بینی میں اپنا قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں دلوں کی صفائی بہت ضروری ہے جس دل میں بغض و حسد ،کینہ او ر عداوت ہو وہ دل اس مبارک ماہ کی برکتوں اور سعادتوں سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے اس لئے بہتر ہے کہ آپس میں جو رنجش ہو اس سے دل کو پاک و صاف کر لیا جائے اور کسی سے آپس میں عداوت اور کینہ نہ رکھا جائے ۔اس ماہ مبارک کا دل و زبان اور عمل سے احترام کیا جائے ۔کھلے عام کھانا پینا روزے داروں میں طنز کرنا بہت ہی گستاخی ہے ایسا کرنے سے ایمان کے فقدان ہونے کا اندیشہ ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : جس روزہ دار نے جھوٹ بولنا، جھوٹ پر عمل کرنااور نادانی کا کام نہ چھوڑا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسا شخص خواہ مخواہ روزے کے نام پر اپنا کھانا پینا چھوڑے(بخاری)
روزے کے ضروری آداب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جس طرح کھانے پینے سے منہ بند رکھتے ہیں اسی طرح دوسرے گناہوں کو بالکل ترک کردیں۔بری عجیب سی بات ہے کہ لوگ روزے کی حالت میں کھانے پینے اور صحبت کے ترک کو تو بہت ضروری سمجھتے ہیں لیکن گناہ کے ترک کو ضروری نہیں سمجھتے۔ حالانکہ وہ تینوں کام ایسے ہیں کہ دوسرے ایام میںحلال بھی تھے او ر رمضان المبارک میں بھی افطار کے بعد سے سحری تک جائز ہے ۔ جب روزے کی وجہ سے بعض حلال کام بھی حرام ہو گئے تو جو اعمال ہروقت حرام ہے ان کا ترک کرنا روزہ میں کیوں ضروری نہ ہوگا ؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” پھر جس نے ذرّہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لیگااور جس نے ذرّہ برابر بھی برائی کی ہوگی وہ اسکو دیکھ لیگا (سورة زلزال)نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”اگرتم گناہوں سے نہ بچے تو کھانا پینا چھوڑنے کا کیا فائدہ؟“ اس حدیث پاک کے مقصود پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ یعنیٰ یہ کہ گناہ کے ترک کا اہتمام بلخصوص روزے میں بہت ضروری ہے ۔ یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ گناہ ایک بری چیز ہے تو کم سے کم ایک مہینے کے لئے گناہ چھوڑ دیں ۔مگر اس کا مطلب ہرگز بھی یہ نہیں کہ اس کے ایک مہینے کے بعد گناہ کرنے کی اجا زت ہوگی۔ کیوں کہ نفس سے وعدہ مشابہت شکل ہے اس لئے میں نے یہ کہاکہ ایک مہینے کے لئے گناہ نہ کرنے کا عہد کرلو اس میں آسانی ہوگی اور ہمیشہ کے لئے تنبیہ (نصیحت )ہوجاتی ہے۔پس نفس سے کہہ دو رمضان تک کوئی گناہ نہ کرے اورصرف ایک مہینے کا عہد اس سے لو ،پھر اس کے بعد مجھے یقین ہے کہ انشاءاللہ تعالیٰ رمضان المبارک تقویٰ کی حالت میں گذر گیا ،تو پھر یہ تقویٰ انشاءاللہ باقی رہے گا۔
غرض اس مبارک ماہ کے لئے تمام گناہوں کو ترک کر دو ، زبان کے گناہ بھی جیسے بلاوجہ گالیاں بکنا ، غیبت کرنا ،دوسروں کی شکایتیں کرنا ، قصداًکسی گندے مضمون کا مطا لعہ کرناوغیرہ۔ کان کے گناہ بھی جیسے گانے بجانے سننا، گالیاں سننا ، لغو باتوں کو سننا وغیرہ ۔ہاتھ کے گناہ جیسے کسی پر بے جا ظلم کرنا ، اپنے سے کمزور کو مارنا پیٹنا ، سودی مضمون کا لکھناوغیرہ۔اسی طرح پیروں (قدموں ) کے گناہ بھی جیسے ناچ گانوں کی محفلوں میں جانا ،جھوٹے مقدموں کی پیڑوی کے لئے جانا، جھوٹی شہادت کے لئے جانا،کہیں چوڑی کی نیت سے جاناوغیرہ۔اور سب سے بڑھ کر پیٹ کے گناہ جیسے رشوت ، سود ، اور غصب کے مال کھاناوغیرہ۔غرض کہ رمضان المبارک میں ہر قسم کہ گناہ خواہ وہ کبیرہ ہو یا صغیرہ ہمیں ترک کردینے چاہئے۔پھر ہمارا روزہ صحیح معنیٰ میں ایک مبارک روزہ ہوگ،اور پھر یہی روزہ یوم حشر میں ہماری شفاعت کرے گا۔ایسے ہی روزے کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ” میں خود اسکا بدلہ دیتا ہوں“اور اگر ہم گناہ ترک نہ کئے تو روزہ تو ہوگا لیکن ایسا ہوگا جیسے تم اپنے کسی دوست سے کہو کہ وہ تم کو ایک آدمی لادے اور وہ تم کو ایک ایسا آدمی لاد جس کے کان بھی نہ ہوں ، آنکھ بھی نہ ہوں، لنگڑا ،لولہابھی ہو ں ،بات بھی نہ کرسکتاہوتویہ شخص آدمی تو ضرور ہے لیکن بیکار، صرف سانس چل رہا ہے۔ اسی طرح گناہوں میں لپٹا ہوا روزہ بھی ایسا ہی ہے کہ اسے زمین دفن کر دیا جائے۔خلاصئہ کلام : – یہ کہ شریعت نے ہمیں جن چیزوں کے کرنے پر کار بند بنائیں ہیں انہیں بجا لائیں۔اور جن کے اجتناب سے تنبیہ کیا ہے ان کو بالکلیہ ترک کر دیں۔
تبھی ہمارا روزہ اسلامی روزہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو رمضان المبارک کے مہینہ میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے اوربرے کاموں سے بچنے کی توفیق عنایت فرمایے(آمین تقبل یارب العالمین)
(ےو اےن اےن)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭