اردو اکادمی کا دو روزہ ورکشاپ کامیابی سے اختتام پذیر موقر صحافیوں کا اظہار خیال‘ اخباری نمائندوں کی عملی تربیت وتقسیم اسناد

پٹنہ23جو لائی ( پریس ریلیز)صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے۔ آج کے عہد میں خاص طور سے ہمیں قلم کی قوت کو سمجھنے اور اپنے اندر خوداعتمادی لانے کی ضروری ہے۔ ہمارا قلم‘ ہمارے ہاتھوں میں امانت ہے اور ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم جب بھی لکھیں سماجی مفادات کے لئے ہی لکھیں۔صلاحیتیں باہر سے نہیں ڈالی جاسکتیںیہ تو اندر سے نکلتی ہیں اور ہمارے پروگرام کا مقصد یہی ہے کہ آپ کی صلاحیتیں صیقل ہوتی رہیں۔ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سکریٹری بہار اردو اکادمی مشتاق احمد نوری نے کہا کہ اردو اخبارات میں سہولتوں کی کمی ضرور ہے‘ لیکن اعلیٰ صلاحیتوں والے کارکنوں کی کمی نہیں۔ جناب نوری 23 جولائی کو اکادمی سیمینار ہال میں منعقدہ صحافتی ورکشاپ کے دوسرے دن کے پروگرام میں افتتاحی تقریر کر رہے تھے۔ انہوں نے صحافت میں اخلاقیات کی قوت وضرورت‘ عصری مقصدیت کے فوائد‘ شخصیت شناسی کے فلسفے‘ خبر سازی‘ فیچر نگاری‘ خبروں میں زبان کی صحت پر توجہ‘ اسلوب کے حسن‘ سرخیاں لگانے کے فن اور بیٹس اور سائیکلو فیکسی کے تعلق سے بعض اہم تجربات ونکات بتائے اور نظامت کی ذمہ داریاں نہایت عمدگی سے انجام دیتے ہوئے صحافت کے بارے میں کئی دیگر پہلو کی طرف بھی اشارے کئے۔
اس موقع پر جناب احمد رضا ہاشمی نے اردو صحافت کے فروغ پر مدلل تجزایتی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صحافت کا فروغ اصلاً صحافیوں کے فروغ پر منحصر ہے اور اس کے لئے مینجمنٹ کا شکوہ فضول ہی نہیں نقصاندہ بھی ہے۔ جناب ہاشمی نے کہا کہ ہم صحافیوں کو سب سے پہلے یہ غور کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اس میدان میں کیوں قدم رکھا ہے اور ہمارے اصل اہداف کیا ہیں۔ اس دور میں اردو صحافت‘ دوسری زبانوں کی صحافت سے یقینا پیچھے ہوتی جارہی ہے۔ اس کے مختلف وجوہات میں منصوبہ بندی‘ ویژن‘ سماجی سروکار‘ تربیت ومعلومات اور خود اعتمادی کی کمی شامل ہے۔ اگر ہم اپنے قارئین کی ضرورت اور اپنی مقصدی ذمہ داری کو سمجھیں‘ اپنا محاسبہ کرتے رہیں‘ لکھنے سے پہلے سوچنے اور صحافتی کلینڈر بناکر کام کرنے کی عادت رکھیں تو اس سے بہت سارے فائدے یقینی ہیں۔ عوامی مسائل پر توجہ‘ سماجی مسائل کی ترجیح‘ معمر افراد اور خواتین کے مسائل پر نظر اور کسی شخصی فائدے کے لئے خبر کو جگہ دینے سے پرہیز ضروری ہے۔ اگر پریس نوٹ کی ایڈیٹنگ اور اہمیت سمجھی جائے‘ کارکن صحافی بریکنگ نیوز کا اہتمام رکھیں‘ لائیو رپورٹنگ اور خبروں کے انتخاب وترتیب اور ان کی ترجیح پر شعوری توجہ دیں‘ خبروں کے متن پر نظر ثانی ہو اور خصوصی رپورٹنگ‘ بائی لائن رپورٹنگ‘ ایڈیٹوریل میٹنگ‘ خبروں کے لئے اضافی متعلقات ‘ انوسٹی گیٹنگ رپورٹنگ اور تاثراتی اسٹوری کا اردو صحافت میں اہتمام ہوتا رہے اور ان چیزوں کو بڑھاوا دیا جائے تو کم سے کم وقتوں میں اردو صحافت کا معیار زیادہ سے زیادہ بلند ہوسکتا ہے۔ ہمارے پاس بہترین صلاحیت والے افراد ہیں اور ہم لاسمتیت اور لامقصدیت سے بچ کر صحافت کے کارواں کو تھوڑی سی محنت اور محبت کے ساتھ بہت آگے بڑھا سکتے ہیں۔
انفرادی قوت سے استفادہ پر زور دیتے ہوئے جناب اسفر فریدی نے کہا کہ اخباری دنیا میں رپورٹنگ کی بڑی اہمیت ہے۔ انہوں نے فیلڈ رپورٹنگ کے اصولوں پر توجہ دلائی اور بتایا کہ غیر ضرورت حساسیت سے بچتے ہوئے اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ذرائع سے رابطہ بناکر‘ بنیادی حقائق کے تحفظ‘ احتیاط‘ تازہ کاری‘ غیر متعلقہ مواد کی تخفیف‘ جیسے امور کا خیال رکھتے ہوئے بہترین رپورٹنگ ہوسکتی ہے۔ اس کام میں ہمیں اپنی ذات کو بہرحال الگ رکھنا ضروری ہے اور یہ بھی کہ ہم بعض جزوی باتوں مثلاً ریاستوں کے سرکاری ناموں کے صحیح استعمال پر دھیان دیتے رہیں اور آج کے نازک حالات میں پوری ہوشیاری سے رپورٹنگ کریں۔)

جناب خورشید ہاشمی نے پروپگنڈہ خبروں سے بچنے اور بحیثیت کل وقتی صحافی‘ ہمیشہ ہی ہنگامی حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنے کی ضرورت واہمیت بتائی اور خبروں کے انتخاب میں چوکسی برتنے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ مطلوب خبروں‘ قاری کی زندگی کےلئے اثر انداز خبروں اور عوامی سروکار اور عام دلچسپی کی خبروں کے بالترتیب استعمال کے بعد جو کچھ بچ رہے اس کی اشاعت اور عدم اشاعت سے اصولاً کوئی فرق نہیں پڑتا۔ رپورٹنگ میں عوامی اور قومی وملکی مفادات کے تحفظ پر ہمیشہ نظر رہنی چاہئے۔
سید شہباز عالم نے ایڈیٹنگ کے تعلق سے اپنے خطاب میں سرخی نویسی کے فن کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ فسادات اور بدعنوانی کی خبروں کو احتیاط سے دیکھنا ضروری ہے تاکہ مزید معاشرقی وقومی نقصان کا امکان پیدا نہ ہو اور اخبار کے سامنے کوئی قانونی الجھن نہ آئے۔ انہوں نے سرخی میں کم الفاظ کے استعمال اور دلچسپی کے الفاظ وعناصر کی شمولیت پر توجہ دلائی اور بتایا کہ خبر کا اہم حصہ شروع میں رہنا چاہئے اور جملوں کی ساخت میں طوالت اور کجی نہیں آنی چاہئے۔
جناب احمد جاوید نے خبر اور اداریہ کے کالم میں اشتہارات ڈالے جانے کے رجحان کو ایک بڑی غلطی اور کمی بتاتے ہوئے‘ اداریہ نویسی کے فنی اصول ولوازمات پر روشنی ڈالی اور اداریہ کو خبر کی اعلیٰ تین سطح بتاتے ہوئے‘ تقابلی انداز میں‘ مراسلات‘ کالم نویسی‘ فیچر نگاری وغیرہ سے اداریہ نگاری کا فرق واضح کیا اور بتایا کہ اداریہ اور خبروں میں ایک خاص قسم کا تال میں ہونا چاہئے۔ انہوں نے ادارتی کلینڈر بنانے‘ منصوبہ بندی پر توجہ دینے اور مناسب وخوبصورت زبان سے کام لینے پر توجہ دلائی اور یہ کہا کہ اگر اخبارات وکتب کے مطالعہ‘ تعلقات کی حفاظت کے ہنراپنے کام میں جنون وشوق اور اچھے صحافیوں کی پیروی سے صحافتی میدان میں ترقی کے امکانات یقینی بن سکتے ہیں۔
جناب ارشاد الحق نے‘ موجودہ ہندی صحافت کی موجودہ ذہنی پسماندگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لائیو رپورٹنگ کی اخلاقیات پر توجہ دلائی اور کہا کہ اس میں نظر ثانی کا موقع نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے یہ یک گونہ خطرناک بھی ہے اور خاص احتیاط بھی چاہتی ہے۔ یہاں قومی وقار کا خیال اور الفاظ پر مناسب قدرت رکھنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اردو اخبارات ورسائل کو زیادہ سے زیادہ انٹرنیٹ پر لانے‘ نئے نوجوان قاری بنانے اور نئے زمانے کے ساتھ مناسب تکنیکی تبدیلی کے لئے مسلسل محنت کی جائے۔
جناب راشد احمد نے ”کالم نگاری“ کے تعلق سے بتایا کہ یہاں موضوع کے انتخاب میں قاری کا لحاظ ضروری ہے۔ یہاں اگرچہ کچھ موضوع کھینچ کر بھی لائے جاتے ہیں اور اہم بن جاتے ہیں‘ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب کالم نگاری کی مقصدیت اور طرز پیش کش کی اہمیت پر پوری نظر رکھی جائے اور مکالمہ کی زبان‘ موضوع اور قاری کے ذہن سے مطابقت رکھنے والی زبان کا استعمال کی جائے۔ کالم نگاری میں اختصار سے خوبصورتی اور تاثیر آتی ہے۔
جناب عبدالواحد رحمانی نے فیچر نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے لئے منصوبہ بندی اور خبر کے عناصر کی شمولیت کو ضروری قرار دیا اور اداریہ اور فیچر کا فرق بتاتے ہوئے کہا کہ فیچر اچھی زبان اور اچھی پیش کش اور عمدہ ابتدائیہ واختتامیہ سے اپنی افرادیت بناتا ہے ‘ اس سے اخبار کی مقبولیت بھی بڑھتی ہے اور دور رس اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔
جناب ریاض عظیم آبادی نے صحافت کی اخلاقیات اور اس کی عصری ضرورت ومعنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آئین کی رو سے پریس کی آزادی بھی کچھ حد بندیوں کے ساتھ ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہم ان حدود کا خیال رکھیں۔ کسی کی کردار کشی نہ کریں‘ دلآزار مواد نہ چھاپیں‘ اور صحافت کے سبھی شعبے میں سنجیدگی اور تہذیب کا خیال رکھیں‘ فسادات کی خبریں بناتے ہوئے خصوصی احتیاط برتیں‘ جرائم کی رپورٹ میں تحقیق سے کام لیں اور لیگل رپورٹنگ میں پوری ہوشیاری برتیں۔ جناب ریاض عظیم آبادی نے رپورٹنگ کے بعض دیگر پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ صحافت میں انٹرویو نگاری کی بھی اپنی اہمیت ہے اور مجموعی لحاظ سے کارکن صحافیوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ انہوں نے جناب مشتاق احمد نوری کو اکادمی کے زیر اہتمام اس صحافتی ورکشاپ کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد دیتے ہوئے ایک اہم قدم بتایا۔
وقفہ طعام کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس میں ”راشٹریہ سہارا‘ تاثیر‘ عوامی نیوز‘ سنگم‘ پیاری اردو اور فاروقی تنظیم “ کے صحافیوں نے حصہ لیا۔ مختلف اخبارات کے ان تمام مدعو کارکن صحافیوں سے‘ کئی گروپ بناکر عملی ورکشاپ کے طور پر رپورٹنگ تیار کرنے کے لئے کہا گیا اور ان کی کارکردگی کا عملی تجزیہ کرتے ہوئے جناب احمد جاوید اور جناب مشتاق احمد نوری نے کئی اہم نکات کی طرف توجہ دلائی۔ جناب نوری نے منفی طرز فکر سے بچنے پر زور دیا اور جناب احمد جاوید نے فنی نزاکتوں کے حوالے سے بعض کمی کی طرف اشارے کئے۔ اس موقع پر پروگرام میں شامل اخباری نمائندوں کو سکریٹری محترم کے دست مبارک سے سند دی گئی اور انہیں زادراہ بھی دیا گیا۔ سکریٹری اکادمی کے شکریہ پر اس پروگرام کا اختتام ہوا۔