مصائب اور مشکلات کا قرآنی حل

مولانا رضوان احمد ندوی
انسانی زندگی مےں عموماً دو طرح کے حالات کا سامنا ہوتا ہے ، کبھی انسان خوشی و مسرت کے خوشگوار لمحات سے دو چار ہوتا ہے اور کبھی اس پر رنج و غم ، بے چینی اور مایوسی کی کیفیت طاری ہوتی ہے….زندگی کی ان نازک گھڑیوں مےں اسلام مسلمان کو اعتدال او رمیانہ روی کی تعلیم دیتا ہے کہ خوشحالی اور فراوانی مےں قلب و دماغ کو شکرو احسان سے معمور رکھو اور مصائب و مشکلات مےں صبر و استقامت اور ہمت و حوصلہ سے کام لو ، اور یقین رکھو کہ جب وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے خود ان مصیبتوں کو دور فرما دیں گے …. گویا اسلام مسلمانوں کو خدا کے سہارے جینے کی تعلیم دیتا ہے وہ مسلمانوں کو مشکل سے مشکل اوقات مےں بھی نا امید بنا کر بے سہارا نہیں چھوڑتا ،(۱) یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمة اللہ ( سورہ الزھر ) اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر آپ ظلم کیا ہے تم خدا کی رحمت سے نا امید مت بنو …. قرآن نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے جو ہر قسم کی تکلیف اٹھا کر اپنی جگہ ثابت قدم رہتے ہیں ۔ و اصبر علی ما اصابک ان ذالک من عزم الامور ( سورہ لقمان ) جومصیبت پیش آئے ، اس کو برداشت کرو ۔ یہ بڑی پختہ باتوں میں سے ہے …. حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ نے سیرت النبی ﷺ مےں لکھا ہے کہ قوموں کی زندگی مےں سب سے نازک موقع وہ آتا ہے ، جب وہ کسی بڑی کامیابی یا ناکامی سے دو چار ہو تی ہے ، اس وقت نفس پر قابو رکھنا ، اور ضبط سے کام لینا مشکل ہوتاہے ، مگر یہی ضبط نفس کا اصلی موقع ہوتا ہے اور اسی سے اشخاص اور قوموں مےں سنجیدگی ، متانت ، وقار اور کیریکٹر کی مضبوطی پیدا ہو تی ہے ۔ ( سیرة النبیﷺ ج ۵۱۴۲)
ہر حال مےں اللہ کے حکم اور اس کے فیصلوں پر جمے رہنا او رکامیابی کے لئے وقت کا انتظار کرنا مومن کی سب سے بڑی پہچان ہے ، اس لئے کہ دنیا مےں مصیبتیں گناہوں کے لئے کفارہ اور آخرت مےں نجات کا سبب ہو تی ہے ۔ لھم البشریٰ فی الحیاة الدنیا و فی الاخرة، ا ن کے لئے دینوی زندگی مےں بھی بشارت ہے اور آخرت مےں بھی، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا مےں انسانوں پر جو مصیبتیں آتی ہےں وہ خود ان کی نا عاقبت اندیشی اور خدا نا شناسی کے نتیجہ مےں آتی ہے ۔ وما اصا بکم من مصیبة فبما کسبت اید یکم و پعفواعن کثیر ۔ ( سورہ شوریٰ ) تم پر جو کچھ مصیبت پہونچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کئے ہوئے اعمال و افعال کے سبب پہنچتی ہے ، ذرا غور کیجئے کہ ہم مصنوعی زندگی ، تکلفات اور تعیشات کے کس قدر عادی ہو چکے ہےں سادہ او رفطری زندگی گزارنا کتنا دشوارہوگیا ہے زندگی اور زندگی کے مطالبات نے الجھا کر رکھ دیا ہے ، ہر وقت خورہشات نفس کی تسکین کے لئے پریشان او رپرا گندہ رہتے ہےں ، لیکن حقیقی سکون اور اطمینان قلب میسر نہےں آتا ، قرآن پاک مےں ارشاد ربانی ہے و اما من خاف مقام ربّہ و نھی النفس عن الھوی فان الجنتہ ھی الماویٰ ( سورہ نا زعات ) جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو غلط خواہش سے بچا لیا وہ جنت مےں آرام پائے گا ۔ ایک صاحب عزم مسلمان کا فرض ہے کہ وہ خواہشات نفس کو بے لگام نہ چھوڑے تاکہ پر فریب نظام زندگی سے محفوظ رہ سکے ایک شاعر نے زندگی کی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے ۔
وہی زند ہ رہنے کا فن جانتے ہےں، جو آداب دار و رسن جانتے ہیں
قرآن پاک نے متعدد مقاما ت پر نفس کی بے جا خواہشات پر روک لگایا ہے تاکہ انسان زندگی کی قدروں سے محروم نہ ہو جائے ، کیونکہ جب کوئی قوم اخلاقی قدروں سے محروم ہو جاتی ہے تو اس کی زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے اور ضمیر مردہ ہو جاتا ہے اس پر فکر و آلام کے سیاہ بادل چھا جاتے ہےں اس سے معلوم ہو اکہ شاخ اپنے مرکز سے وابستہ رہ کر ہی سر سبز و شاداب اور ترو تازہ رہ سکتی ہے اللہ کی ذات مرکز ہے پس ہر دل اس مرکز سے حقیقی تعلق باقی رکھ کرہی امن و سکون حاصل کر سکتا ہے ۔ الا بذ کر اللہ تطمئن القلوب ۔ ( سورہ الرعد ) اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے …. دنیا مےں وہی قوم زندہ ، طاقت ور اور عزت و سر بلند رہ سکتی ہے ، جس نے اپنی زندگی مےں استقلال اور صبر و استقامت کی مثال قائم کی ہو ، حالات ناساز گار ہوں ۔ ہوا کا رخ مخالف ہو ، پھر بھی جبیں پر ابر شکن نہ پڑے ، کیونکہ بعض وقت مصیبتیں آزمائش و امتحان کے لئے آتی ہےں ، قرآن پاک مےں فرمایا گیا ۔
لنبلو نکم بشی من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الا نفس و الشمرات و بشر الصابرین ، الذین اذا اصا تبھم مصیبة قالو انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ( سورہ بقرہ ) ہم تم کو آزمائےں گے ، کبھی جان کا نقصان ہوگا ، کسی قدر مال کا گھاٹا ہوگا ، فاقے کا سامنا ہوگا ،خوف و خطرے سے واسطہ پڑے گا ، اور پیداوار مےں کمی ہو گی ، ان ساری آزمائشوں مےں جو ثابت قدم رہیں گے ۔ ان حالات مےں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبتیں پہنچے تو کہیں کہ ہم تو اللہ ہی کے ہےں اور ہم سب اللہ ہی کے پاس جانے والے ہےں ، ایسے ہی لوگوں پر اللہ کی عنایتیں ہےں اور ایسے لوگ راست رو ہیں …. گویا اس آیت مےں مصائب و مشکلات کو خطاﺅں کی معافی او رترقی درجات کا ذریعہ بتایا گیا ہے ۔ کیونکہ مایوسی اور احساس بے چارگی نظام فکر کو متاثر اور ہمت و حوصلہ کو پست کرتی ہے او راسلامی نظام عقائد مےں نہ مایوسی کی گنجائش ہے اور نہ احسا س بے چارگی کی …. یہ مصیبتیں اور بلائےں عارضی اور فانی ہےں ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ تحریر فرماتے ہےں کہ …. دنیا مےں جو کچھ مصیبتیں یا راحت خوشی یا غم انسان کو پیش آتا ہے وہ سب حق تعالیٰ نے لوح محفوظ مےں انسان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لکھ دیا ہے ،اس کی اطلاع تمہےں اس لئے دی گئی ہے تاکہ تم دنیا کے اچھے یا برے حالات پر زیادہ دھیان مت دو ۔ نہ یہاں کی تکلیف و مصیبت یا نقصان و فقدان کچھ زیادہ حسرت و افسوس کرنے کی چیز ہے اور نہ یہاں کی راحت و عیش یا مال و متاع اتنا زیادہ خوش و مسرت ہونے کی چیز ہے ، جس مےں مشغول ہو کر اللہ کی یاد اور آخرت سے غافل ہو جاﺅ ( معارف القرآن ج ۸۹۱۳)…. عشق و محبت کی راہ مےں مصائب و مشکلات کی تلخیاں ایسی ہو جاتی ہےں جیسے کہ مرچوں کو کھانے والے کے ظاہر مےں آنکھوں سے آنسو جاری ہے ، مگر مزے لے لے کر کھا رہا ہے اگر ایک طرف عشق دینوی مےں مجنوں و لیلیٰ فنائیت کی حد تک پہونچ سکتے ہےں او رمشکلات راہ کو دیبا و مخمل کے فرش سے زیادہ نرم و گداز تصور کر سکتے ہےں تو غور کیجئے کہ عشق الٰہی اور محبت حقیقی کا ذوق کتنا لذت آشنا ہوگا ۔
عشق مولیٰ کے کم از کم لیلیٰ بود
گوئے گشتن بہر او او لی بود
یہی وہ عشق و محبوبیت کا مقام ہے جہاں سے شان عبدیت نمایاں ہوتی ہے ، انبیاءعلیہم الصلٰوة و السلام کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں خود جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی مشکلات او رپریشانیوں مےں گھری ہوئی تھی ، ہر طرف سے عداوت و دشمنی کے مظاہرے ہو رہے تھے اس وقت تسلی کا یہ پیغام آیا کہ اضطراب او ر گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ، خدا آپ کا نگہبا ن ہے و اصبر لحکم ربک فا نک با عیننا ( سورہ طور)اے رسول ، اپنے پروردگار کے فیصلہ پر ثابت قدم رہئے کیوں کہ آپ ہماری نگاہوں کے سامنے ہےں ، صحابی رسول حضرت خبیب ؓ کو پھانسی کے تختہ پر چڑھایا گیا ، حضرت بلال حبشیؓ کو عرب کے ریگستانی علاقوں مےں گھسیٹا گیا ، مگر ان نفوس قدسیہ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا ۔ پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ عرب کی سر کش قوم ان کے قدموں پر گرنے لگی ان کی زندگی مےں ا نقلاب برپا ہو گیا ۔
انسانیت کی تاریخ بتلاتی ہے کہ کامیابی او رقربت خدا وندی ، ابتلاءو آزمائش کے بعد ہی حاصل ہو تی ہے ، جو لوگ انسانی زندگی سے بے زار ہو کر موت کی تمنا کرتے ہےں د ر حقیقت اپنی نا عاقبت اندیشی اور کو تاہ چشمی کا ثبوت پیش کرتے ہےں ، یہ جان اللہ کی امانت ہے او رہم اس کے اتلاف تو در کنار اس کے کسی بے جا استعمال کے بھی مجاز نہےں ۔ الا ان ﷲ من فی السموات و الارض ۔ آگاہ رہو جو کچھ بھی زمین و آسمان مےں ہے وہ سب اللہ کے ملکیت ہے …. مورخین نے لکھا ہے کہ یونان کے فلسفیوں مےں دو گروہ گزرے ہےں ایک کو رونے والے فلسفی اور دوسرے کو ہنسنے والے فلسفی کہتے ہےں ، پہلے گروہ کی تعلیم یہ تھی کہ مصائب و مشکلات مےں ….موت کی صورت بنا لو کہ دنیا کی آخری منزل یہی ہے اور دوسرے کا نظریہ یہ تھا کہ کھا ﺅ ،پیو مزے اڑاﺅ او رکل کے غم کی فکر نہ کرو ، اسلام کی تعلیم کی شاہراہ ان دونوں گلیوں کے بیچ سے نکلی ہے کہ وہ ہر حال مےں انسان کو پر امید رہنے کی تر غیب دیتا ہے ۔ انہ لا ییئس من روح اللہ الا القوم الکافرون ( سورہ یوسف ) اللہ کے فیض سے نا امید مت ہو کیونکہ اس کے فیض سے وہی لوگ نا امید ہوتے ہےں جو اللہ کے منکر ہےں ۔ مو منانہ شان یہ ہے کہ صبر آزما حالا ت مےں بھی خندہ پیشانی سے تکا لیف کو برداشت کیا جائے ، تاکہ یہ دنیا و آخرت مےں مراتب کی بلندی کا باعث ہو سکے ۔ فا صبر ان العاقبة للمتقین ، صبر سے کام لو ، انجام کار خدا ترسوں کے لئے ہے ۔ دعاءہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مشکلات راہ مےں ثبات قدمی کی توفیق عطا کرے اور ان کی دینی و ملی مسائل کو آسان فرمائے ۔