امریکی ڈالرکی ہو س نے کمزور کر دیا ماں اور بیٹے کا رشتہ برسو ں بعد بیٹا لوٹا تو ماں کی جگہ گھر میں ملا ماں کا کنکال

ممبئی 9 اگست ( تاثیر نیوز سروس) ایک طرف80 سالہ بیماراور اکیلی ماں نے ایک اپارٹمنٹ کی 10 ویں منزل پر واقع فلیٹ کے ایک کمرے میں بھوک اور پیاس سے لڑ تے ہوئے دم توڑ دیا۔ دوسری طرف اسکا اکلوتا بیٹا امریکی ڈالر کمانے میں اس طر ح مصروف رہا کہ اسے اپنی ماں کی یاد بھولے سے بھی نہیں آسکی ۔اس دور کے مزا ج کوآئینہ دکھا تی یہ اندوہناک خبر بڑی تیزی کے ساتھ سوشل میڈیا کے تو سط سے پوری دنیا میں گشت کررہی ہے۔ماں کی موت کب ہوئی یہ کسی کو پتہ نہیں لیکن جب اس کا اکلوتا لڑکا امریکہ سے گزشتہ 6 اگست کوکسی ٹور ٹائم پرو گرام کے تحت ممبئی آکر اپنی ماں پر احسان کرنے کی نیت سے اندھیری واقع اس اپارٹمنٹ کی 10 ویں منزل کے فلیٹ میں پہنچاتب اسے ماںسے نہیں بلکہ اپنی ماں کے کنکال سے ملاقات ہوئی ۔
خبر کے مطابق بوڑھی اور بیمار آشا سہنی کے شوہرکی موت چار سال قبل ہوگئی ۔بیٹا ریتو راج ماںباپ کے پیسے سے پڑھ لکھ کر سوفٹ ویئر انجینئر بن گیا اورپھر امریکہ چلاگیا۔ماں ممبئی میں اکیلی رہ گئی ۔بیٹے کو اس کی مصروفیت اتنا موقع نہیںدیتی تھی کہ وہ اپنی ماں کے بارے میں کچھ سوچے ۔ اس کے رویہ سے یہ محسوس ہو تا تھاکہ ماں اس کے سر پر کسی بوجھ سے کم نہیں ہے ۔
بتا یا جاتاہے کہ بیٹے نے آخر ی بار گزشتہ سال 23 اپریل کو بذریعہ فون اپنی ماں سے بات چیت کی تھی۔تب ماں نے اس سے کہاتھاکہ اب اکیلے میں گھر میں نہیں رہ پاﺅںگی۔ مجھے امریکہ بلا لو ۔ اگر وہاں نہیں لے جاسکتے ہو تو کم ازکم او لڈ ایج ہوم میں ہی مجھے رکھ دو ۔ریتو راج نے کہاکہ وہ بہت جلد انڈیا آرہاہے ۔ بات آئی گئی ہو گئی ۔ ایک برس بیت گیا۔ ریتو راج ڈالر کمانے میں مصروف رہا۔جانکار بتا تے ہیں کہ ریتو راج کو اپنی ماں سے صرف اس حدتک لگاﺅتھاکہ اس کے مر نے کے بعد ماں کے نام کے دو مہنگے فلیٹ اسے حاصل ہو جائیں ۔ یہی وجہ تھی کہ ازراہ مصلحت وہ اپنی ماںسے سال دوسال پر بذریعہ فون بات کر لیاکرتاتھا۔چونکہ اس سال اگست ماہ میں اسے کسی دفتر ی ضرورت کے تحت ممبئی آنا تھا اس لئے 23 اپریل 2016کے بعد اس نے کبھی ماںسے بات کر نے کی ضرورت نہیں محسوس کی ۔بغیر کسی اطلاع کے وہ 6 اگست کو اپنی ماںکے فلیٹ پر پہنچا۔دروازے کی بیل بجائی ۔جب کوئی آواز نہیں آئی تو یہ سمجھا کہ ماں سوگئی ہے ۔جبکہ ایک گھنٹے تک سناٹا طاری رہا تو پڑو س کے لوگو ں کو بلا یا ۔معلوم ہو نے کے بعد پولس بھی آگئی ۔ فلیٹ کا دروازہ کھلا تومنظر دیکھ کر سب کے پاﺅ ں کے نیچے کی زمین کھسک گئی ۔ بیڈ کے نیچے ماں آشا سہنی کی جگہ اس کا کنکال پڑا ہواتھا۔جسم پوری طر ح گل چکا تھا ۔ کنکال بھی پرا نا ہو چکا تھا۔جانچ میں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ آشا سہنی کی موت 8-10 مہینے پہلے ہی ہوگئی تھی ۔لوگ یہ اندازہ لگارہے ہیں کہ بوڑھی اور بیمار آشا سہنی موت سے پہلے خود کو گھسٹتے ہوئے در وازے تک لائی ہوگی ۔پھر دروازہ کھولنے کی کو شش کی ہو گئی ۔مگر دروزہ نہیں کھل پا یا ہو گا ۔مو ت کے کئی ماہ بعد بھی اس کے جسم سے بدبو نہیں اٹھنے کی وجہ سے یہ بتائی جارہی ہے کہ کمرہ بند رہنے کی وجہ سے بدبو باہر نہیںآسکے۔یہ حادثہ پورے علاقہ میں بحث کا مو ضوع بنا ہواہے ۔لوگ طر ح طرح کی قیاس آرائیاں کررہے ہیں ۔حساس لوگ اس صورت حال کو اپنے ڈھنگ سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔کچھ لوگوںکا یہ بھی خیال ہے کہ آشا سہنی اپنے بیٹے سے بیزار ہو کر اپارٹمنٹ کے پڑوسیوں اور دیگر رشتہ داروںسے بھی ملنا جلنا،گفتگو کرناچھوڑ دیاتھا۔جب وہ اپنے بیٹے کیلئے ہی بوجھ تھی تو باقی کیوں ان کی پر واہ کریںگے۔آشا سہنی مرگئیں انہیں آخری سفر بھی نصیب نہیں ہو سکا۔
وائرل ہورہی مذکورہ خبر کے حوالے سے اب یہی کہاجارہاہے کہ آشاسہنی کی کہانی سے سب کو ڈر نا چاہئے ۔ جو آج آشا سہنی کے بیٹو ں کے رول میں ہیں، وہ بھی ڈریں۔ کیونکہ کل ان کی حالت بھی آشا سہنی جیسی ہوسکتی ہے ۔لہذا اگر آپ اپنے پاس پڑوس کی کسی آشا سہنی کو جانتے ہیں تو انہیں بے موت مرنے سے بچانے کی کوشش کریں ۔
گزشتہ دنوں ’اکنامسٹ ‘میگزن میں ایک کووراسٹوری شائع ہوئی تھی ۔اس کے مطابق اس صدی کاسب سے بڑا لمیہ اور سب سے بڑا کرب موت کے انتظار کی شکل میں سامنے آرہاہے ۔اس کے اعدادو شمار سے یہ معلوم ہو تاکہ کس طرح یورپ ، امریکہ جیسے ممالک میں موت کاانتظار زندگی سب سے بڑا المیہ بن رہاہے ۔دواعلاج اور دو سرے طریقوں سے انسان کی اوسط عمر تو بڑھ گئی مگر زندگی سے اکیلے لڑنے کی صلاحیت بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہورہی ہے ۔موت کاانتظار آشا سہنی جیسے لوگو ں کیلئے کتنا کرب ناک ہے اسے آسانی کے ساتھ محسو س کیا جاسکتاہے ۔زندگی کے حقائق تو سائیکل کے مانند ہیں۔آج ہماری تو کل تمہاری باری ہے ۔آشا سہنی کے بے موت مرجانے کا حادثہ تو اس کامقدر ہے مگر یہ مادی ترقی اور عیش و عشرت کی ہوس میں اور لگاتار ٹوٹ رہے رشتوں کے نتائج کا آئینہ بھی ہے ۔ہمارے سماج کے اکثر لوگو ںکو یہ لگتا ہے کہ وقت ان کیلئے ہمیشہ وہیں رہے گا جس میں وہ جی رہے ہیں۔ مگر حقیقت تو کچھ اور ہے۔