بجلی بحران علاقائی افسران کی لاپروائی کانتیجہ

سہارنپور،۰۲ اگست، موسم گرما میں بجلی کی کٹوتی نے عام آدمی کو ہلا کر رکھ دیا ہے کل ۵۱ گھنٹے ہی بجلی سپلائی مل رہی ہے جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی کےلئے بھی بہت مشکل ہوتی جارہی ہے مگر سخت گرمی کے دنوں میں لگاتار بجلی کی کٹوتی اور پینے کے پانی کی سپلائی میں رکاوٹ سے جہاں عوام کا گزشتہ چار دنوں سے برا حال ہے ۔وہیں اتنا سب کچھ جانتے ہوئے بھی افسران تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ عام طور سے یوگی جی کے اقتدار میں آجانی کے بعد سے جہاں سرمایہ دار طبقہ مطمئن ہوابیٹھاہے وہیں ان دنوں پاور کارپوریشن کے ملازمین کمزور طبقہ کے افراد کو دو سے آٹھ ہزار تک کی بقایا بجلی کے بل کی رقم کےلئے لگاتار تنگ و پریشان کر رہے ہیں جبکہ اسٹاف اور افسران کی ملی بھگت سے بے خوف ہوکر مین مارکیٹ اور پاش کالونیوں میں نمبردو کی لائٹ کھلے عام ہر ماہ موٹی رشوت کے عوض استعمال کرنے والوں کے خلاف پچھلے دس سالوں سے کوئی بھی سخت کاروائی نہیں کی گئی ہے محکمہ صرف اور صرف کمزوروں ، اقلیتوں، بچھڑوں اور مزدوروں کا استحصال کرناہی اپنی بڑی ذمہ داری سمجھتا آرہاہے گزشتہ تین سرکاری دور اقتدار (دس سالوں)سے لگاتار چلنے والا یہ بجلی کی مسلسل نمبر دو کی سپلائی کا افسوسناک تماشہ سینئر افسران اور سیاسی نمائندے بھی اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتے رہتے ہیں مگر کمزوروں کا کوئی پرسان حال نہیں کمزور اگر شکایت کرتاہے یا آواز بلند کرتاہے تو اسی کی لائن کاٹ کر اسی کو بجلی چوری کرنے کا ذمہ دار قرار دے دیا جاتاہے ۔
اس موقع پر پولیس افسران بھی بغیر جانچ پڑتال کئے مظلوم کوہی جیل رسید کردیتے ہیں یہی تماشہ یہاں ضلع میں لداتار برسوں سے جاری ہے سرکار کسی کی بھی ہو سرکاری افسران ہمیشہ سرمایہ داروں کی حمایت کرتے ہیں اور غریبوں پر آفت ٹوٹتی رہتی ہے ؟ محکمہ بجلی کی کارکردگی سے عام آدمی عاجز آ چکا ہے محکمہ کے لو گ اوور لوڈنگ ، میٹر خراب اور بجلی چور ی کے نام پر عوام کا آزادانہ طور پر استحصال کرنے پر بضد ہےں ضلع کے سیاست داں اتر پردیش پاور کارپوریشن کے ریاستی ذمہ دار چند مقامی بد عنوان افسران اور ملازمین کے اس نازیبا رویہ کو دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہیں محکمہ کے جونیئر انجینئرس، ایس ڈی او کے علاوہ پرائیویٹ اسٹاف جس کی تعداد تین سو ملازمین پر مشتمل ہے وہ بھی جس چاہے گھر پر اچانک حملہ آور ہو جاتے ہیں ۔ویڈیو گرافی کرتے ہوئے بجلی سپلائی لائن چیکنگ اور تار میں کٹ ہونی کے نام پرموٹی رقم کی مانگ کرتے ہیں اگر چہ گھر کے افراد رقم ادا کرنے کے قابل ہیں تو معاملہ پیسے لے دیکر رفع کر دیا جا تا ہے اور اگر لاچار، مجبور ، پریشان اور تنگی سے گزر بسر کرنیوالا کنزیومرس پیسہ دینے میں آنا کانی کرتا ہے تو اسکے خلاف فوری طورپر جونیئر اسٹاف کے ذریعہ تھانہ میں بجلی چوری کی رپورٹ درج کرا دی جاتی ہے۔ پھر شروع ہوجاہے پولیس کے ذریعہ ملزمان کی گرفتاری کیلئے دبش کا سلسلہ تنگ حال کنزیومر اپنی جان بچانے اور گرفتاری سے بچنے کے لئے محکمہ کو کم سے کم ۰۱ ہزار روپیہ کی رقم ایک مشت جمع کراتا ہے جب کہیں جا کر اسکی جان بچتی ہے اس طرح رشوت دیکر وہ خود کو گرفتاری سے بچانے میں کامیاب رہتا ہے ایسے حالات گزشتہ دس سالوں سے غریب،دلت، مزدور، پچھڑے اور مسلم علاقوں میں کثرت کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں صوبائی سرکار غر یب،دلت، مزدور، پچھڑے اور اقلیتی طبقہ کی ہمدرہونے کا زور شور سے دعویٰ پیش کرتی ہیں مگر سچائی یہ ہے کہ محکمہ بجلی کا عملہ گزشتہ چھ دس سالوں سے غر یب،دلت، مزدور، پچھڑے اور اقلیتی فرقہ کو ہی بری طرح لوٹتا اور کھسوٹتا آرہا ہے اور کوئی پوچھ تاچھ کرنے اور انصاف کرنیوالا نہیں ہے ہر جانب ہاہاکار مچی ہے۔
ان د نوں لگاتار مسلم اور دلت علاقوں میں چھہ چھہ گھنٹہ سپلائی ٹھپ رہتی ہے نصیر کالونی اے ون کا لونی اور حاکم شاہ میں سپلائی مسلسل سات سات روز تک بند رہتی ہے محکمہ کے افسران حاکم رائے کا ٹرانسفارمر بدلنا تک پسند نہیں کرتے وہیں اے ون کالونی ، نصیر کالونی اور ایکتا کالومنی کہ جہاں دس ہزار کی مسلم آبادی مقیم ہے وہاں آج تک صاف پانی کی سپلائی ، بجلی کی سپلائی اور سڑکیں تک نہیں ہے برساتی پانی یہاں چار چار فٹ ہمیشہ جمع رہتاہے پانی کی نکاسی کےلئے نالیاں ہی نہی ہیں کل ملاکر مقامی افسران جو چاہتے ہیں، پاور کارپوریشن اور مقامی پولیس بھی وہی کرتی ہے عام آدمی کی کوئی بھی سنوائی نہیں ہے! دلت اور اقلیتی فرقوں کے لوگ بجلی اور رہائش کے نام پر ان ملازمین کو غیر ضروری طور پر رشوت دینے کے لئے مجبور ہیں اگر ان تمام سنگین معاملات کی جانچ کسی ایماندار افسر سے کرائی جائے تو گزشتہ دس سالوں سے ان علاقوں میں ہونے والے ان ناجائز سرکاری زور وجبر کے معاملوں کی سچائی حکومت اور عوام کے سامنے صاف طور سے آسکتی ہے ہمارے قابل کمشنر اور قابل ضلع مجسٹریٹ سب کچھ جانتے اور دیکھتے ہوئے بھی خاموش بنے ہوئے ہیں سوشل ورکر بھائی اے نظامی، ایم کاشف، ارسلان احمد، نفیس احمد اور امیر احمد نے ایسے ہی کچھ کیسیز میں، منڈی سمیتی بجلی گھر ، جین باغ بجلی گھر کے علاوہ انبالہ روڑ واقع بجلی گھر کے درجن بھر ملازمین دو جے ای وغیرہ کے خلاف چیف انجینئر کو ایک شکایت پیش کی ہے مگر کئی ماہ گزر چکے ہیں ابھی تک چیف تو دور مقامی ایس ڈی او صاحب نے بھی اس عوامی شکایت کا کوئی جواب نظامی ، ارسلان اورچودھری امیر احمد کو نہیں بھیجا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ کسی بھی شکایت کو اعلیٰ حکام سنجیدگی سے نہ لیکر ٹال مٹول کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں جس وجہ سے عوام میں غم و غصہ پھیلا ہوا ہے عوامی مفاد میں ان تمام معاملات کی آزادنہ جانچ اشد ضروری ہے ۔