حیدرآباد۔۳۲اگست(پریس نوٹ)ہندوستان کی تاریخ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ طلاق ثلاثہ پر مسلمانوں میں کرب وبے چینی کی کیفیت جہاں پیدا کردی ہیں کہ ہرسیاسی جماعتوں نے اور طلاق کے لئے جنگ جیتنے والی خواتین اور ہندی ، انگریزی میڈیا ہاو¿س چینلس نے 24 گھنٹے سے بحث ومباحثہ ، خواتین کی بڑی تعداد ، اینکرس دن رات اس پروگرام کا مکمل احاطہ کرنے کے لئے سارے ہندوستان میں جیسے متعین کردیے گئے ۔ فیصلہ کے آتے ہی وزیر اعظم نے ٹوئٹ کرکے مسلم خواتین برابری کا درجہ اور حق وانصاف کی جیت سے تعبیر کیے۔امت شاہ ، ارون جیٹلی، بی جے پی کے تمام اور تمام سیاسی جماعت کے لوگوں نے بحث میں حصہ لیا۔ مسلمانوں کے اور بھی اتنے مسائل ہیں اس پر بحث نہیں کرکے سیاسی جنگ جیت کا جیسے جشن منایاگیا۔ اللہ کے نزدیک طلاق ناپسندیدہ عمل ہے جس پر بیک وقت تین طلاق دینے پر سپریم کورٹ نے کلعدم قرار دیا، اس پر خود مسلمانوں میں اتفاق تھاکہ اس عمل کو جلد ختم کیا جائے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیر مقدم کیاگیا۔ مگر مسلمانوں کے مسائل پر سیاست ہونے لگی ہے۔طلاق بدعت کے بعد حلالہ اور چارشادیاں پھر دیگر مسائل مسلمانوں کی پسماندگی، بے روزگاری، ریزرویشن، ناانصافیاں دیگر ے اہم مسائل پر حکومت توجہ دے۔ جس طرح سے مسلم خواتین کے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے کر وزیراعظم اورپارٹی نے رائے عامہ اور بیک وقت ہمدردی اور فیصلہ کا خیرمقدم کیا۔ ایسے خواتین کے مسائل کے حل بھی ڈھونڈے جائیں، عدلیہ پر سبھی کو یقین ہے، حکومت فلا ح وبہبود کے لئے جو بھی قانون بنانا چاہتی ہے اعتماد میں مسلم دانشوروں اور بورڈ کو لے کر بنائے تاکہ اسی فیصلے پر ہندوستان کے 25 کروڑ مسلمان کرب وبے چینی کے شکار نہ ہوں۔ مگر ڈاکٹر مختار احمد فردین کا تجزیہ یہ ہے کہ ہندی، انگریزی تمام چینلس نے مسلم مسائل پر سالوں سال سے گفتگو اور بحث کی ہے۔ٹھیک اسی طرح سے مسلمانوں کے تمام مسائل پر ان کی تعلیمی پسماندگی، بے روزگاری، ریزرویشن، ناانصافیوں اور ڈھیروں مسائل پر بھی بحث ومباحثہ کرایا جائے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ سبھی کے لئے قابل احترام ہے۔ جس کا ہم بھی خیرمقدم کرتے ہیں۔مسلم پرسنل لاءبورڈ اس پر خصوصی توجہ دے اور بہتر رہبری کے لئے ملک وقوم کے لئے آگے آئیں۔