حج کیوں ضروری ہے؟

ترتیب: عبدالعزیز
جو لوگ اللہ رسول کو دل سے مانتے ہیں ان کےلئے یہی جواب کافی ہے کہ اللہ کا حکم ہے رسول کا فرمان ہے۔اس لئے حج کرنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ کا حکم:
وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ ال±بَی±تِ مَنِ اس±تَطَاعَ اِلَی±ہِ سَبِی±لاًo وَمَن± کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیّµ عَنِ ال±عَالَمِی±نَ(سورہ آل عمران، ۷۹)
اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جس نے کفر کیا تواللہ تمام دنیاوالوں سے بے نیاز ہے۔
فرمان رسول:
”جو شخص زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکتا ہو، اور پھر حج نہ کرے تو اس کا اس حالت پر مرنا اور یہودی و نصرانی ہوکر مرنایکساں ہے۔“(جامع ترمذی)
”جس کو نہ کسی صریح حاجت نے حج سے روکا ہو، نہ کسی ظالم سلطان نے، نہ کسی روکنے والے مرض نے، اور پھر اس نے حج نہ کیا ہو اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو اسے اختیار ہے خواہ یہودی بن کر مرے یا نصرانی بن کر۔“
اور اسی کی تفسیر حضرت عمرؓ نے کی جب کہا کہ ”جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جز یہ لگادوں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں۔“
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان اور رسول و خلیفہ¿ رسول کی اس تشریح سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ فرض ایسا فرض نہیں ہے کہ جی چاہے تو ادا کیجئے اور نہ چاہے تو ٹال دیجئے؛ بلکہ یہ ایک ایسا فرض ہے، کہ ہر اس مسلمان کو جو کعبے تک جانے آنے کا خرچ رکھتا ہو، اور ہاتھ پاو¿ں سے معذور نہ ہو، عمر میں ایک مرتبہ اسے لازماً ادا کرنا چاہئے۔ خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہو، اور خواہ اس کے اوپر بال بچوں کی اور اپنے کاروبار یا ملازمت وغیرہ کی ذمہ داریاں ہوں۔ جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج کو ٹالتے رہتے ہیں اور ہزاروں مصروفیتوں کے بہانے کر کرکے سال پر سال یونہی گزارتے چلے جاتے ہیں، ان کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہئے۔ رہے وہ لوگ جن کو عمر بھر کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمہ ہے۔ دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں۔ کعبہ¿ یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزرجاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چندگھنٹوں کی مسافت پر ہے، اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا، وہ قطعاً مسلمان نہیں ہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ اور قرآن سے جاہل ہے جو انہیں مسلمان سمجھتا ہے۔ ان کے دل میں اگر مسلمانوں کا درد اٹھتا ہے تو اٹھا کرے، اللہ کی اطاعت اور اس کے حکم پر ایمان کا جذبہ تو بہر حال ان کے دل میں نہیں ہے۔ (خطبات: فریضہ¿ حج)
تجدید عہد:پیروی اسلام کا عہد کرلینے کے بعد ہم خدا کے ہاتھ بک جاتے ہیں، اور اسی عہد کی تجدید کےلئے ہم اس کے آستانہ پر حاضر ہوتے ہیں اور حجر اسود کو ہاتھ لگاکر اس عہد کو از سر نو تازہ کرتے ہیں۔ یہ ابراہیمؑ و اسمٰعیل علیہما السلام کے عہد کی ہماری طرف سے توثیق اور اللہ کی راہ میں قربان ہونے کےلئے ہماری طرف سے اقرار ہوتا ہے۔
پھر حج کا اجتماع میدان حشر میں ہمارے کھڑے ہونے کی بھی تصویرہے۔ اس پہلو سے نماز، حج اور قربانی، ان تینوں کو معاد سے نہایت قریبی نسبت ہے۔
صبر:اللہ کا بندہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اللہ کے عہد پر قائم رہنا، اس پر پورا بھروسہ کرنا، اس کی راہ میں مصائب جھیلنا اور انجام کار کی کامیابی کا منتظر رہنا کتنی کٹھن راہ ہے اور اس میں ہر قدم پر صبر و ثبات کی کتنی ضرورت پیش آتی ہے۔
یہی حال قربانی کا بھی ہے۔ یہ اس عظیم الشان صبر کی تعلیم پر مبنی ہے جس کا نمونہ ابراہیم خلیل ؑ نے پیش کیا۔ بڑھاپے تک خدا نے ان کو کوئی اولاد نہیں بخشی، لیکن جب بخشی اور ایسی اولاد بخشی جس کے حسن باطن اور حسن ظاہر نے ان کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ تو اسی اولاد کو خدا نے اپنی راہ میں قربان کرنے کا حکم دے دیا۔ غور کیجئے، کتنا کٹھن امتحان تھا، لیکن حضرت ابراہیم ؑ کے پائے ثبات کو ذرا بھی لغزش نہیں ہوئی، بلکہ وہ خدا کے شکر گزار ہوئے کہ اس نے ان سے وہ چیز مانگی جو ان کو تمام دنیا میں سب سے زیادہ عزیز و محبوب تھی۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز پر ہمارا صبر، اسی طرح کا صبر ہے جس طرح کا صبر ہم مصائب کو برداشت کرتے وقت کرتے ہیں۔ نماز اور خدا کی جانی و مالی آزمائشوں کے وقت صبر میں جوتعلق ہے اس کو اس آیت ذیل بے نقاب کررہی ہے۔
اس آیت میں مروہ کا بھی تذکرہ ہے اور اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ یہی وہ جگہ جہاں حضرت ابراہیم ؑ نے بیٹے کی قربانی کی تھی۔ غور کیجئے اس آیت میں نماز، صبر، جہاد، مصائب اور مقام قربانی کا تذکرہ ایک ساتھ ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس وجہ سے کہ ایک جامع حقیقت نے ان سب کا رشتہ ایک ساتھ جوڑ دیا ہے۔
ان دونوں میں اس امر کا اقرار و اعتراف ہے کہ ہر چیز خدا ہی کی ملکیت ہے اور تمام نعمتیں اسی کی بخشی ہوئی ہےں۔ نماز میں تو یہ حقیقت بالکل ظاہر ہی ہے کہ اس کی بنیاد ہی شکر اور اقرار ربوبیت پر ہے۔ غور کرنے سے یہی بات قربانی میں بھی معلوم ہوتی ہے، یہ بھی زبان حال سے گویا اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ ہم قربانی کرکے گویا اقرار کرتے ہیں کہ ہر چیز خدا ہی کی ملکیت ہے، تمام نعمتیں اسی کی بخشی ہوئی ہیں۔ ہماری جانیں اور ہمارے مال سب اللہ کے خزانہ¿ جود و فیض ہی سے ہم کو نصیب ہوئے، اس وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو خدا ہی کے حوالہ کریں اور اسی کی اطاعت و بندگی کی راہ میں ان کو استعمال کریں۔ یہ ہم کو اسی لئے بخشے گئے ہیں کہ ہم اس کے فضل و احسان کا شکر ادا کریں اور جہاں اس کی مرضی ہو وہاں ان کو قربان کردیں، اس کا کوئی ساجھی نہیں ہے، اس وجہ سے ہم صرف اسی کی بندگی کرتے ہیں اور اسی کے حضور سجدہ کرتے ہیں اور جو کچھ اس کا بخشا ہوا ہے اسی کے دربار میں پیش کرتے ہیں۔ وہی پیدا کرنے والا اور وہی بخشنے والا ہے۔ اسی نے ہماری زبانوں پر اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَی±ہِ رَاجِعُو±نَ کا اقرار جاری کیا۔ یعنی ہم اور ہماری تمام ملکیت خدا ہی کےلئے ہیں۔ حکومت اور احسان صرف اسی کی صفت ہے، ہمارے لئے صرف اطاعت اور شکر گزاری ہے۔ جس طرح ملکیت صرف مالک کی طرف لوٹتی ہے، اسی طرح ہم کو بالآخر خدا ہی کی طرف لوٹنا ہے۔
قربانی اور حج:قربانی تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے یہ بالکل واضح ہے۔ قربانی کرنے والا اپنی قربانی ایسی جگہ لاتا ہے، جو اس کے خیال میں خدا کی طرف سے اس عبادت کےلئے مخصوص اور مقدس ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے قربانی کےلئے ایک مخصوص و متعین جگہ قرار پائی۔ یہود کے یہاں بیت المقدس کے سوا کسی دوسری جگہ قربانی جائز نہیں۔ لیکن مسلمانوں کےلئے جس طرح تمام روئے زمین کو مسجد ہونے کا شرف حاصل ہوا، اسی طرح قربانی بھی ان کےلئے ہر جگہ جائز ہوئی۔ تاہم جس طرح مسجد کی نماز کو فضیلت حاصل ہے اسی طرح قربان گاہ پر قربانی کرنا بھی افضل ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی کےلئے اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ متعین فرمائی تھی۔ یہی جگہ ہمارے لئے بھی مخصوص ہوئی۔ چنانچہ جس طرح ہم ان کی تعمیر کی ہوئی مسجد کےلئے سفر کرتے ہیں۔ اسی طرح اپنے قربانی کے جانوروں کو بھی ان کی قربان گاہ پر لے جاتے ہیں۔ ان باتوں کا مقصد ہمارے دل میں اعتقاد راسخ کرنا ہے کہ ہماری حیثیت خدا کے غلاموں اور چاکروں کی ہے جو لبیک کہتے ہوئے آقا کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنی بندگی کے اقرار کےلئے اپنی قربانیاں اس کے حضور میں پیش کرتے ہیں۔ پس جس حقیقت کو پیش نظر رکھ کر صلوٰة کو صلوٰة کہا گیا ہے، اسی حقیقت کی رعایت سے قربانی کےلئے قربانی کا لفظ اختیار کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ استشرفواضحایاکم فانھا علی الصراط مطایاکم
عازم حج کو سب سے پہلے نیت خالص کرنا ضروری ہے حج کا محرک خوشنودی¿ رب اور فلاح آخرت کے سوا کچھ نہیں رہا ہے۔ دنیا کی عزت اور نام و نمود یا تجارتی فوائد حج میں داخل نہ ہونے دیں پھر اگر بفضل خدا کچھ دنیوی فوائد حاصل ہوجائیں تو اس کا مضائقہ نہیں حدیث کے مطابق دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں مگر اپنی نیت کو ان میں ملوث نہ کریں۔
انسان جیسے جیسے نیک ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے وہ دنیا کےلئے اور دنیا اس کے لئے بہتر اور مفید ہوتی جاتی ہے۔ جو تمام عیوب سے پاک اور تمام آفات حج سے بچ کر حج کرتا ہے وہ اللہ اور رسول کے ارشادات کے مطابق ایسے بے گناہ اور معصوم ہوجاتا ہے جیسے بچہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور معصوم اور بے گناہ ہوتا ہے۔ کسی کا اس قدر اچھا ہوجانا جس طرح معصوم بچہ ہوتا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا دنیاوی فائدہ ہوسکتا ہے جس طرح بچہ سب کےلئے پیارا ہوتا ہے اسی طرح بے گناہ شخص بھی سب کےلئے پیارا اور ہر دلعزیز ہوجاتا ہے۔ اس سے انسان کو ایک نئی زندگی مل جاتی ہے جو لوگ اس سے کٹ رہے ہوتے ہیں جڑ جاتے ہیں اور وہ شخص خود جو لوگوں سے نفرت کرتا تھا وہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے اس کی طاقت اور عزت کئی گنا بڑھ جاتی ہے وہ جو دنیا کےلئے لائق نہیں تھا دنیا کےلئے لائق ہوجاتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ ”خیر الناس ینفع الناس“وہ سب سے اچھا انسان ہوتا ہے جو لوگوں کےلئے سب سے زیادہ منافع بخش ہوتا ہے اگر کسی دہریہ اور ناستک کو بھی ان سارے فوائد کو گنایا جائے تو حج کے دنیوی فوائد سے ہر گز وہ انکار نہیں کرسکتا۔ یہ فوائد کسی اور ذرائع اور وسیلے یا تعلیم و تربیت سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ جو حج کرنے کے بعد اپنے آپ کو دنیا والوں کےلئے مفید یا نفع بخش نہیں بنا پاتا۔ دنیا والے اس سے پہلے کی طرح دور رہتے ہیں اس سے کٹے پھرتے ہیں تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس نے حج تو کیا مگر نہ اسے فائدہ ہوا نہ ہی دنیا والوں کو اس کی ذات سے فائدہ پہنچ سکا۔
موبائل: 9831439068 azizabdul03@gmail.com