بہار اردو اکادمی میںسہ روزہ قومی خواتین کانفرنس کا شاندار انعقاد

پٹنہ23 ستمبر ( پریس ریلیز)نسائی ادب خواتین قلم کاروں کے ذریعہ لکھا جانے والا ادب ہے۔ عورتوں کی نفسیات مردوں سے علیحدہ بھی ہے اور پیچیدہ بھی ان کے پاس اپنی زبان کا مخصوص نظام ہے اور وہ اب کو نرم روی کے ساتھ داخلیت کا حصہ بناتی ہیں۔ اکیسویں صدی کے نسائی ادب میں بے باکی، برجستگی اور عصری حسیت سے واقفیت بڑھی ہے اور غور و فکر کی نئی منزلوں تک اس کی رسائی ہوئی ہے۔ آج کی خواتین مرد کو اور خود کو بھی انسان سمجھ کر لکھ رہی ہیں آج کے نسائی ادب میں نئی بیداریاں بھی ہیں اور علاقائیت کی خوبو بھی اور سفاکانہ نظریہ کی زبردست کاٹ بھی۔ خواتین قلم سے مقابلہ کا شعور پیدا کر رہی ہیں اور صرف شکوہ نہیں بلکہ بہادری ، مساوات کااحساس بھی دلا رہی ہیں۔ خواتین قلم کاروں کے نزدیک حقوق کی پاسداری اہم ہے اور ان کا ادب ان کی جرات کا آئینہ دار ہے۔ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے محترمہ ثروت خان نے مزید کہا کہ نسائی ادب پختہ اور بے باک تحریروں کی طرف گامزن ہے اور ہمت و حوصلہ سے بھرا ہے۔ محترمہ ثروت ، آج 23 ستمبر کو بہار اردو اکادمی کے زیر اہتمام ”اکیسویں صدی کا نسائی ادب :نوعیت اور اہمیت“ کے موضوع پر منعقدہ سہ روزہ قومی خواتین کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میںاپنا پر مغز کلیدی خطبہ پیش کر رہی تھیں۔ انہوں نے موضوع کی اہمیت و افادیت اور اس کے تعلق سے بہت سارے تاریخی اورسماجی نکات کی طرف اشارے کئے اور کئی اہم فکری و فنی سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عناصر اردو ادب میںنسائی شعور کی فراوانی اور اہمیت کو نہیں سمجھ رہے ہیں اور اپنے تعصب بھرے رویہ پر قائم ہیں جو بہر حال افسوس کی بات ہے اور آج کے حالات میں خواتین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پورے حوصلے اور بے خوفی کے ساتھ ادب کی تشنگی دور کریں۔ صحافت میں بھی آگے بڑھیں اور فیس بک پر اظہار سے ڈرنے کی بجائے عقل و شعور سے حوصلہ لیں اور ایسا ماحول بنائیں کہ انسانیت اور انسیت کا متوازن منظرنامہ ہر جگہ نظر آئے۔
اس کانفرنس کا افتتاح محترمہ بانو سرتاج اور محترمہ ثروت خان کے ہاتھوں شمع افروزی سے ہوا اور اس موقع پر سکریٹری اکادمی مشتاق احمد نوری نے اپنے مختصر استقبالیہ خطاب میں اس کانفرنس کو بالغ نظر اور تعلیم یافتہ خواتین کا اجتماع بتاتے ہوئے کہا کہ عورتیں علم و ادب اور صحافت کے میدان میں یقینا مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ ان میں بڑی صلاحیتیں ہیں اور آج کے حالات نے ان پر کل سے کہیں زیادہ ذمہ داریاں ڈال رکھی ہیں جنہیں پورا کرنے میں وہ سنجیدگی سے لگی ہوئی ہیں۔ سکریٹری موصوف نے سہ روزہ خواتین کانفرنس کے انعقاد کی غرض و غایت اور اس کے فکری منظر و پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ بہار نتیش کمار نے جو بہار اردو اکادمی کے صدر بھی ہیں، وزارت عالیہ کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے خواتین کے لئے فلاحی منصوبوں پر توجہ دی اورلڑکیوں کی تعلیم میں سہولت کے لئے پوشاک اور سائیکل منصوبے بروئے عمل لائے گئے، اتنا ہی نہیں بلکہ بلدیاتی انتخاب میں 50 فیصد اور سرکاری ملازمت میں 25 فیصد کی حصہ داری بھی ان کے لئے مختص ہوئی، لہذا ان کی فکر سے مثبت اثر لیتے ہوئے گزشتہ سال بھی خواتین کا سہ روزہ کنونشن ہوا تھا اور امسال بھی یہ کانفرنس ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ ہم اپنے تمام مہمانوں کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ آج کی کانفرنس کے سبھی اجلاس کی نظامت کے فرائض محترمہ تسنیم کوثر نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دئے اور دوران نظامت نسائی ادب کی نوعیت و اہمیت اور کلیدی خطبہ کے اہداف و مفاہیم کو پوری طرح سمجھنے پر توجہ دلائی۔
محترمہ بانو سرتاج نے اپنے مختصر لیکن نہایت ہی بلیغ افتتاحیہ خطاب میں کہا کہ آج بھی عورتوں کو پوری طرح ان کے حقوق نہیں مل سکتے ہیں۔ آج کی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سدھاریں تاکہ پوری قوم سدھرنے لگے۔ انہوں نے مختلف برجستہ اشعارو اقوال اور واقعات و حوالہ جاتی اشارات سے اپنے خطاب کومرصع و مدلل بناتے ہوئے واضح لفظوں میںبتایا کہ سائنسی ترقی ، سچ مچ ترقی نہیں ہے بلکہ اصل ترقی یہ ہے کہ ہمیں زمین پر انسان کی طرح چلنا آجائے بلا شبہ دیش کی ترقی کے لئے دیش کے بچوں کی تربیت ضروری ہے۔
پروفیسر اعجاز علی ارشد نے اپنے مختصر صدارتی خطاب میںمحترمہ ثروت خان کے کلیدی خطبہ کو نہایت جامع بتاتے ہوئے کہا کہ اکادمی کے زیر اہتمام اس خواتین کانفرنس سے بہترین اور ٹھوس نتائج سامنے آنا یقینی ہے۔ نسائی ادب وہی ہے جو خواتین نے لکھا ہوا اور اکیسویں صدی کے نسائی ادب میں بیسویں صدی کے ذہن کی واضح صورت دیکھی جاسکتی ہے۔ اب مرد حضرات بھی خواتین قلم کاروں کی ہمنوائی میں آرہے ہیں اور زبانی ہمدردی کا جذبہ عمل کے روپ میں ڈھل رہا ہے۔ پروفیسر موصوف نے برسبیل تذکرہ اس صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا کہ آج اردو دنیا میںسپاہی کی جگہ سپہ سالاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے ، پتوں پر چھڑکاﺅ ہورہا ہے مگر جڑیں سوکھ رہی ہیں اور کتابیں تو بڑی تعداد میں آرہی ہیں مگر کتابوں کے متن ومواد میں گراوٹ بڑھ رہی ہے۔ اردو کے قاری اور لکھاری کا صحیح تناسب نہیں ہے اور اردو کی خدمت کرنے والے کم ہوتے جارہے ہیں ۔ اس افتتاحی اجلاس کا اختتام مشتاق احمد نوری سکریٹری اکادمی کے شکریہ کی تجویز پر ہوا۔
افتتاحی اجلاس کے فورا بعد ہی محترمہ نکہت فاروق اور محترمہ نگار عظیم کی صدارت میں آج کے ”پہلے اجلاس“ کا آغاز ہوا۔ اس اجلاس میں محترمہ بانو سرتاج نے اپنے مقالے میں خواتین قلم کاروں کے حوالے سے متنوع اصناف و موضوعات کی نشاندہی کے ساتھ ادب اطفال کا مبسوط و جامع تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی میں نسائی ادب کا فروغ اطمینان بخش ہے۔ آج نسائی ادب میں ہلچل ہے اور یہ اچھی بات ہے کہ اس کے تئیں تعصب کم ہوا ہے اور منظرنامہ بدلا ہے۔ انہوں نے خصوصیت کے ساتھ ادب اطفال کی اہمیت و افادیت اور ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے ادب اطفال کے لازمی تقاضوں کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ بچوں کا سچا ادب وہی ہے۔ (باقی صفحہ 7 پر)
جوبچوں کی پسند دیکھتے ہوئے آموزشی مقصد کے تحت لکھا جائے۔ ادب اطفال کی تخلیق کے لئے بچوں کی نفسیات کا علم ، ان سے لگاﺅ ، ان کی نگاہوں کی زبان سے آگہی اور ان کی فہم ، عمر اور طبقے کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ محترمہ بانو سرتاج نے زور دے کر کہا کہ جب ہم بچوں سے محبت کرتے ہیں تو ہم عورتوں کو ان کے لئے اچھا ادب لکھنے کی طرف مسلسل اور خصوصی توجہ رکھنی چاہئے اور صرف رسائل کے مدیران کی فرمائش پر لکھنے کی حدتک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ انہوں نے بچوں کے لئے ناول کی کمی کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ ہمیں کتابیں پڑھنے اور کتابیں خریدنے کے معاملہ میںبچوں کی بر وقت رہنمائی اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
اس اجلاس میںمحترمہ شفقت نوری نے اپنا افسانہ ”اک ٹھکانا کہاں مستقل میرا“ پیش کیا اور محترمہ صادقہ نواب سحر نے اپنے خطاب میںکہا کہ آج اردو میڈیم سے تعلیم اور خواتین کی قرار واقعی آزادی پر توجہ کی ضرورت ہے۔ خواتین میں اپنی ذات کے آس پاس رہتے ہوئے لکھنے کی ہمت آنی چاہئے۔ ایسا نہیں کہ مردوں پر بندھن نہیں ہے، لیکن خواتین سے جس طرح بہر صورت انتہائی عمدہ تحریر پیش کرنے کا جبریہ حد تک مطالبہ کیا جاتا ہے وہ بہر حال معقول و مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیس بک آج کے دور میں خواتین کے استحصال اور کردار کشی کا بہت بڑا ذریعہ بنتا جارہا ہے اور آج کے حالات میں خواتین کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ ذہنی اور جسمانی استحصال کو سمجھیں اور پوری ذہانت اور احتیاط و متانت سے نسائی ادب کو فروغ دیں۔
محترمہ شبنم عشائی نے ”عصمت چغتائی کے افسانوں میں عورت “ کے عنوان پر اپنا مبسوط مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعہ عورت کو چادر اور چہار دیواری سے باہر نکالا، اور نہایت سلیقہ اور ہمت سے عورت اور مرد میں جذبے کی برابری کا سوال اٹھایا۔ انہوں نے ممنوعہ سرحدوں سے آگے کے افسانے لکھے اور ”لحاف“ کے توسط سے عورتوں کے جنسی استحصال کے خلاف کا میاب احتجاج کیا۔ انہوں نے عورت کے جذبہ انا کو آواز دی اور بلا شبہ ان کے افسانوں سے عورت کو ہمہ جہت انقلابی تحریک ملی۔
محترمہ نگار عظیم نے اپنے صدارتی خطاب میں اظہار مسرت اور تشکر کے ساتھ ، محترمہ بانو سرتاج کے مقالے کی گہری تاثیر کا ذکر کیا اور کہا کہ بے شک ان کا یہ جامع مقالہ ہمیںنفسیاتی خوف سے نکالتا ہے۔ انہوں نے محترمہ صادقہ نواب سحر کے خطاب کو عمدہ نکات سے پر بتایا اور کہا کہ جہاں شبنم عشائی کامقالے اپنے موضوع پر نہایت کامیاب ہے، وہیں محترمہ شفقت نوری کے افسانے کی بنت نہایت عمدہ ہے۔ انہوںنے برسبیل تذکرہ یہ بھی کہا کہ آج طرح طرح کے جو جرائم پھیل رہے ہیں ، اس کے لئے ماﺅں کی بنیادی تربیت میںکمی کے امکانات پر بہر حال غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کئی کئی دہائیوں سے لکھنے میں مصروف خواتین کو بھی ”نئی خواتین“ کہنے کی روایت کو بدلنے کی ضرورت پر زور دیا۔
وقفہ طعام کے بعد، محترمہ عذرا نقوی اور محترمہ شیریں دلوی کی مشترکہ صدارت میں آج کے ”دوسرے اجلاس“ کا آغاز ہوا جس میں محترمہ الفیہ نوری نے اپنے مقالہ میں ذکیہ مشہدی کے افسانہ ”ہری بول“ کا نفسیاتی تجزییہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس افسانہ میں جزئیات نگاری اپنے عروج پر ہے اور بحیثیت مجموعی فکری و فنی لحاظ سے یہ بہت ہی کامیاب اور موثر افسانہ ہے۔ محترمہ نکہت فاروق نے ”جموں و کشمیر کی اردو خواتین افسانہ نگار“ کے موضوع پر اپنے پر مغز مقالہ میں نفس موضوع کا جامع تجزیہ پیش کیا اور کئی اہم اختصاصی پہلو اجاگر کئے۔ اس اجلاس میں محترمہ غزالہ قمر اعجاز نے اپنا افسانہ ”پہچان“ اور محترمہ افشاں ملک نے اپنا افسانہ ”افتادہ اراضی“ پیش کیا اور محترمہ ایمن عبید نے ”اکیسویں صدی کا چمکتا ستارہ: شائستہ فاخری“ کے عنوان سے اپنا مقالہ نذر سامعین کرتے ہوئے ان کہانیوں کے خصائص اور ان کے اسلوب کی خوبیوں کا متوازن تجزیہ کیا۔
محترمہ عذرا نقوی نے اپنے صدارتی خطاب میں اس اجلاس کو ہر لحاظ سے کامیاب بتاتے ہوئے۔ اس میں پڑھے گئے مقالوں اور افسانوں کا تجزیہ کیا اور برسبیل تذکرہ کہاکہ محترمہ ذکیہ مشہدی کا افسانہ ”ہری بول“ نہایت عمدہ تخلیق ہے اور مقالہ نگار نے بہت اچھے انداز سے اس کا تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے محترمہ نکہت فاروق کے مقالے میں کامیاب معروضی انداز کی تعریف کی اور افسانہ ”پہچان“ کو ضمیر کو جگانے والی کہانی قرار دیتے ہوئے افسانہ ”افتادہ اراضی“ کی منظر کشی کو کلمات تحسین سے نوازا اور کہا کہ ایمن عبید نے شائستہ فاخری کی کہانیوں میں جوتنوع ہے اس کی طرف اچھے ڈھنگ سے اشارہ کیا ہے۔
سکریٹری اکادمی مشتاق احمد نوری کے شکریہ کے ساتھ آج کے پروگرام کا اختتام ہوا۔
واضح رہے کہ حسب اعلان کل پابندی وقت کے ساتھ دس بجے سے اس سہ روزہ قومی خواتین کانفرنس کے دوسرے دن کا اجلاس شروع ہوگا۔