زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ہوئی پردیومن کی موت

گروگرام16 ستمبر (ایجنسی): ریان انٹرنیشنل اسکول میں 7سال کے پردیمن کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آگئی ہے۔ اس میں موت کی وجہ قتل اور زیادہ خون کا بہنا بتایا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق پردیمن پر دھاردار ہتھیار سے دو بار وار کیا گیا۔ وار سے گلے پر ایک 18 سینٹی میٹر لمبا اور دو سینٹی میٹر چوڑا زخم ہوا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ پردیمن کا قتل گذشتہ 8 ستمبر کو اسکول کے ٹائلٹ میں کردیا گیا تھا۔ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر ماتھر پردیمن کا قتل اس طرح سے کئے جانے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کو بڑی بے رحمی سے مارا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس قتل کو تین سے چار منٹ کے اندر انجام دیا گیا ہے۔ گرو گرام کے ڈپٹی کمشنر ونئے پرتاپ سنگھ کاکہنا ہے کہ مینجمنٹ کی پوری کوشش ہے کہ سوموار سے اسکول دوبارہ کھل جائے۔ قابل ذکر ہے کہ گذشتہ جمعہ کو حکومت نے ریان اسکول کامینجمنٹ تین مہینے کیلئے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سیفٹی گائڈ لائنس پر عمل کو لے کر اسکولوں کی میٹنگ بلائی گئی ہے۔ اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ پیش نہیں آئے۔
دوسری جانب پردیمن کے قتل کے معاملے کی پیش رفت سے ایسا لگ رہا تھا کہ پولس قاتل کے قریب تر پہنچ گئی ہے۔ لیکن ادھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے ، جس سے یہ لگ رہا ہے کہ پولس کے ذریعہ کی گئی اب تک کی کوششوں پر پانی پھر گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جیل میں ملنے گئے اپنے وکیل کے سامنے پردیمن کے قتل کے ملزم اور اسکول بس کے کنڈکٹر اشوک پھوٹ پھوٹ رونے لگا اور کہا کہ میں بے گناہ ہوں۔ گرفتاری سے لے کر پولس ریمانڈ کے دوران اس پر زیادتی کی گئی اور الزام قبول کرنے کیلئے دباﺅ بنایا گیا۔ بس کنڈکٹر اپنے پہلے کے بیان سے پلٹی مارتے ہوئے جیل میں ملنے آئی اپنی بیوی ممتا ، والد امیچندر اور وکیل موہت ورما سے کہا کہ اس نے پردیمن کا قتل نہیں کیا ہے۔ بلکہ پولس نے نشے کا انجکشن دینے کے بعد سادے کاغذ پر اس کا دستخط لے لیا تھا۔ ساتھ ہی اسے بری طرح زد وکوب کیا گیا تھا ، پانی میںمنہ ڈبوکر اپنی بات پولس نے میری زبان سے کہلوانے کیلئے مجھے مجبور کیا۔ اشوک نے پولس افسران پر یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ ان پر زبردست پریشر ہے ،انہوں نے مجھ سے کہا کہ اصلی قاتل کو ہم لوگ پکڑ چکے ہیں ۔ فی الحال جرم قبول کرلو ،تمہیں دو دنوں کے بعد چھوڑ دیا جائے گا۔ اشوک نے اپنے وکیل سے یہ بھی بتایا کہ وہ چاقو لے کرباتھ روم میںنہیں گیا تھا۔ چاقو تو پولس یا اسکول مینجمنٹ نے وہاں پر رکھوایا۔ واردات کے بعد چاقو کو دھودیا گیا۔ تاکہ فنگر پرنٹ مٹ جائے۔ اشوک کے مطابق وہاں پر دو اونچے درجے کے بچے تھے جو کپڑے بدل رہے تھے۔ وہ تو رفع حاجت کے بعد ٹائلٹ سے نکل گیا تھا۔ ادھر اشوک کے وکیل کا کہنا ہے کہ اشوک کو جیل میں زدوکوب کیا جارہا ہے۔ قیدی اسے جاکر مارتے ہیں کہ تم نے بچے کی جان کیوں لے لی۔ وارڈن بھی اسے وقت پر کھانا نہیں دیتے تھے۔ وہیں جیل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اشوک کے تحفظ کو لے کر ہم سنجیدہ ہیں۔ اسے اسپیشل بیرک میںرکھا گیا ہے۔ اشوک کے وکیل کے الزامات کے حوالے سے جیل انتظامیہ نے اس کے تمام الزامات کو خارج کردیا ہے۔
دوسری جانب گروگرام کے پولس کمشنر سندیپ کھروار نے کہا ہے کہ ملزم کے خلاف ہمارے پاس مکمل ثبوت ہیں ۔سوموار کو اس معاملے کی چارج شیٹ عدالت میں پیش کردی جائے گی۔ مین گیٹ کے پاس لگے کیمرے کے فوٹج سے ظاہر ہورہا ہے کہ پہلے اشوک ٹائلٹ کی جانب گیا پھر پیچھے سے بچہ گیا ،رہی بیان سے مکرنے کی بات تو، کوئی بھی ملزم یہ نہیںکہتا کہ اس نے جرم کیا ہے۔ اس کے جرم کو ثابت کرنے کیلئے پولس کے پاس خاطر خواہ ثبوت ہیں۔