اسرائیل کے قیام میں برطانیہ کا کردارقابل فخر : بورس جانسن

مقبوضہ بیت المقدس/لندن،۱۳اکتوبر (پی ایس آئی)برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے ایک صدی قبل اپنے ہم منصب آرتھر بالفور کے اسرائیل کے قیام میں کردار کا دفاع کیا ہے اور اس بات پر فخر کا اظہار کیا ہے کہ برطانیہ نے صہیونی ریاست کی تخلیق میں کردار ادا کیا تھا ۔ البتہ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کی دو خود مختار ریاستوں کا قیام ہی مشرقِ وسطیٰ کے دیرینہ تنازع کا ایک قابل عمل حل ہے ۔آیندہ جمعرات کو اعلان بالفور کی ایک صدی منا ئی جارہی ہے۔یہ دراصل 1917ءمیں لکھا گیا 67 الفاظ پر مشتمل برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کا ایک خط تھا اور اس میں برطانیہ کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی گئی تھی۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اعلان بالفور کی صدی تقریبات میں شرکت کے لیے لندن جائیں گے ۔اعلان بالفور تب سے متنازع چلا آ رہا ہے۔ اس کے بطن سے فتنہ و فساد اور لامتناہی خونریزی نے جنم لیا تھا اور لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے آبائی علاقوں سے بے گھر ہونا پڑا تھا۔اس اعلان کے بعد پے درپے ایسے خونیں واقعات رونما ہوئے تھے جن سے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار ہوئی تھی مگر اس کے بعد اسرائیل میں لا کر بسائے گئے یہود اور فلسطینیوں کے درمیان ایسا خونیں تنازع شروع ہوا تھا جس کا آج ایک سو سال کے بعد بھی کوئی اختتام نظر نہیں آرہا ہے۔مگر برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن اس پر کسی قسم کے پچھتاوے یا ندامت کا اظہار کرنے کے بجا ئے فخر کا اظہار کررہے ہیں ۔ انھوں نے اتوار کو اخبار ٹیلی گراف میں شائع شدہ اپنے مضمون میں لکھا ہے:”مجھے اسرائیل کے قیام میں برطا نیہ کے کردار پر فخر ہے۔ یہ دستاویز ( اعلان بالفور) ایک عظیم قوم کی تخلیق میں بڑی اہم ثابت ہوئی تھی“۔البتہ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ اعلان بالفور کے غیر یہود کمیونٹیوں کے تحفظ سے متعلق انتباہ کا مکمل طور پر ادراک واحساس نہیں کیا گیا ۔ اس میں یہ کہا گیا تھا کہ غیر یہود کمیونٹیو ں کا تحفظ کیا جائے گا۔جانسن نے اس مضمون میں اپنے قارئین کو یہ بھی بتایا ہے کہ وہ اپنے خیالا ت کو اسی کمرے میں قلم بند کررہے ہیں ،جہاں ایک صدی قبل اعلان بالفور کو لکھا گیا تھا۔انھوں نے اس خط کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:” اس کا ناقابل تردید اخلاقی ہدف تھا:مقہور عوام کے لیے ایک محفوظ اور بے ضرر مادر وطن کا قیام “۔وہ لکھتے ہیں:”مجھے اس میں شک نہیں کہ تنازع کا قابل ِعمل حل وہی ہوسکتا ہے جس کے بارے میں ایک اور برطانوی لارڈ پیل نے 1937ءمیں شاہی کمیشن برائے فلسطین کی رپورٹ میں لکھا تھا ۔انھوں نے دو عوام کے لیے دو ریاستوں کا تصور پیش کیا تھا“۔