حصولِ تعلیم کو ترجیحی طور پر سرِ فہرت رکھنا ہمارا قومی فریضہ ، ہند تعلیمی کارواں کے اختتامی اجلاس کے موقع پرمنیش سسودیا کا خطاب

علی گڑھ30اکتوبر(پریس ریلیز)یو پی رابطہ کمیٹی، آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ اور سید حامد فاﺅنڈیشن ،نئی دہلی کے اشتراک سے چلنے والے تیرہ روزہ کل ہند تعلیمی کارواں (۷۱ تا ۹۲اکتوبر )کی اختتامی تقریب کو خطاب کرتے ہوئے دہلی کے نائب وزیرِ اعلیٰ مسٹر منیش سسودیا نے شرکائے کارواں کو مبارکباد پیش کیا کہ انہوں نے ایک عظیم مقصد کے حصول کے لئے علی گڑھ سے شروع ہو کر اتر پردیش کے کئی شہروں اور ملک کی شمال مشرقی ریاستوں نیز مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے دہلی میں اپنے سفر کی تکمیل کی۔انڈیا اسلامک سینٹر نئی دہلی میں منعقد اس تقریب میں مسٹر منیش سسودیانے فرمایا کہ تعلیم کے مقاصد اس وقت تک پورے نہیں ہو سکتے جب تک کہ کارواں کی طرز پر عوام کو تعلیم کے تئیں بیدار نہ کیا جائے۔معاشرے کی ترقی کی اصل بنیاد تعلیم میں ہی پوشیدہ ہے۔جب تک ہم اپنا ہدف تعلیم کو نہیں بنائیں گے کسی صالح معاشرے کی توقع نہیں کر سکتے۔وزیرِ موصوف نے شرکا ءکے سامنے اپنے اس درد کا اظہار کیا کہ افسوسناک صورتِ حال یہ ہے کہ نصاب کی تکمیل کو تعلیم کا مقصد سمجھ لیا گیا ہے جبکہ یہ چیز ثانوی ہے۔تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ بچہ کی سمجھ میں آئے۔اساتذہ کرام یا اسکول کے منتظمہ کا سارا زور صرف نصاب کی تکمیل پر ہوتا ہے۔اس کا سیدھا نقصان یہ ہے کہ بچوں میں ڈراپ آﺅٹس کا ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ موجودہ جائزے کے مطابق دسویںکلاس تک کم و بیش چوہتّر فیصد بچے ایسے ہوتے ہیں جو درمیان تعلیم ہی اسکول چھوڑ جاتے ہیں۔مسٹر سسودیانے یہ بھی فرمایا کہ تعلیم برائے اخلاق بھی ہماری تعلیم کا جز ہونا چاہئے کیوں کہ اگر تعلیم ہمارے اخلاق پر اثر انداز نہیں ہوتی تو وہ ہمارے لئے مفید نہیں ہو سکتی۔تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ سماج میں اخلاقیات کے اثرات ظاہرہونے چاہئیں یہ تبھی ممکن ہے جبکہ ہم بچہ کو شروع سے اخلاقیات سکھائیں۔مسٹر منیش سسودیانے کارواں کے کامیاب انعقاد پرکارواں کے آرگنائزر امان اللہ خاں کو بطورِ خاص مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی محنت، خلوص اور محبت رائیگاں نہیں جائے گی اور کارواں کے اثرات ظاہر ہوں گے۔ اس سے قبل اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے پروفیسر خواجہ محمد شاہد نے کارواں کے تجربات سے سامعین کومطلع و آگاہ کیا اوربتایا کہ علی گڑھ سے کلکتہ تک کے سفر میں جو تجربات حاصل ہوئے وہ زندگی کا بیش قیمت تحفہ ہیں۔اندازہ ہوا کہ لوگوں کے اندر تعلیم کے تئیں بہت زیادہ محبت پائی جاتی ہے۔عام آدمی تعلیم کے تئیں بہت زیادہ سنجیدہ ہے لیکن غربت و افلاس کی وجہ سے بیشترافراد کے خواب شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہو پا تے ۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کام کو تسلسل کے ساتھ کرنے کے لئے آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ نے عزم کیا ہے کہ کاروا ںکے پروگرام کو قومی و صوبائی سطح پر پھر سے سرگرم عمل کیا جائے اورانشاءاللہ اس کام کو مستقبل میں بھی کیاجاتا رہے گا۔اسی کے ساتھ آپ نے منیش سسودیا جی کو توجہ دلائی کہ وہ اپنے دورِ وزارت میں سر سید کی جائے پیدائش کو ایک یادگار میں تبدیل کردیں تاکہ سر سید کی دو صد سالہ تقریب کے موقع پر دہلی حکومت کا یہ کارنامہ سنہری حرفوں میں لکھا جا سکے۔
پروگرام کے صدرہمالیہ ڈرگس کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹرسید فاروق صاحب نے فرما یا کہ قوموں کی زندگی میں اگرچہ دس بیس پچاس سال کوئی بڑی مدت نہیں ہوتی لیکن تعلیم سے پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے قومی پیمانے پر بڑا نقصان ہوتا ہے۔مسلمانوں نے جب تک اپنا رشتہ تعلیم سے مضبوط رکھا وہ قوموں پر حکمرانی کرتے رہے لیکن جب اس طرف سے بے توجہی برتی تو حاشیہ پر آگئے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم تنظیمیں صرف اور صرف تعلیم اور معیاری تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں تاکہ اس نقصان کا زالہ ہو سکے جو گزشتہ پچاس سالوں میں تعلیم سے دوری کی بنا پر ہوا ہے۔شاہین گروپ کے ڈائریکٹر عبدالقدیر نے کارواں کے تعلق سے کہا کہ اس کارواں سے بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے ۔مجھے اندازہ ہوا کہ ڈراپ آﺅٹس کا مسئلہ غربت یا مالی پسماندگی نہیں بلکہ یہ ہے کہ بچہ کو جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ اس کو سمجھ نہیں پا رہا ہے۔ہم نے اس قسم کے تجربات کئے جس میں ڈراپ آﺅٹس بچوں کی رہنمائی کرکے ان کی فطری صلاحیتوں کو نکھارا گیا۔صفی انوری نے معیاری تعلیم کو عام کرنے اور اسے آسان بنانے پر زور دیا جبکہ ممدوحہ ماجد صاحبہ نے بطور خاص تعلیم نسواں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔امان اللہ خاں نے آل انڈیاایجوکیشنل موومنٹ، یوپی رابطہ کمیٹی اور سید حامد فاﺅنڈیشن کے اغراض مقاصد کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا تعلیم کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے اور دنیا کی قدیم تہذیبوں میں شمار کی جانے والی یونان و چین کی تہذیب بھی اپنے عہد میں اپنے تعلیمی معیار و سربلندی کی وجہ سے ہی ممتاز اور عالمی سطح پر نمایاں حیثیت کی حامل رہی ہے۔آج بھی معیار اور ترقی کے سارے دروازے کی شاہ کلید یہی ہے اور اسی وجہ سے ہم نے گذشتہ ۵۲ برسوں سے تعلیم کو ہی نصب العین رکھتے ہوئے اسے اپنے ایجنڈے میں مقدم رکھا ہے اور آج اس کا ہی نتیجہ و ثمرہ ہے کہ یہ کار آمد باتیں سامنے آرہی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ علمی میدان میں تعلیمی بیداری کارواں کی تحریک سے ابھی بھی جمود و تعطل کے شکار کچھ شعبے انقلابی کروٹ سے ہم کنار ہوں گے اور علمی پیش رفت اور دریافت کے وہ قلمرو جزیرے بھی ملت کے نام سے منسوب ہوں گے جن پر ابھی دوسروں کا تسلط ہے۔لہٰذا میں شخصی اور جماعتی دونوں ہی اعتبار سے یہ چاہتا ہوں کہ ہمارا یہ اشتراک و تعاون ایک نئی صبح کی نوید بن کر ملت کے روشن مستقبل کا ضامن بنے۔ ۔امریکہ سے تشریف لائے ڈاکٹر خورشید ملک نے تعلیمی کارواں کے نکلنے پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔جامعہ ہمدرد سوسائٹی کے سکریٹری ثمر حامد نے فرمایا کہ دیگر اقوام کے مقابلے میں ہم ابھی بھی تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں اس کی بنیادی وجہ اُس ماحول کا نہ ہونا ہے جس کو ہمارا مذہب ترجیحی بنیادوں پر قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ پرائمری سطح پر ہمیں تعلیم کے ساتھ بچوں کے اخلاق و کردار پر خاص توجہ مرکوز رکھنی چاہئے اس سے بچے کا مستقبل سنوارنے میں مدد ملے گی۔دہلی اقلیتی کمیشن کے چیر مین ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے فرمایا کہ مختلف تعلیمی تنظیموں کے وجود میں آنے سے علمی جمود میں کمی آئی ہے لیکن ابھی ہم اس منزل تک نہیں پہنچے جہاں ہم یہ کہہ سکیں کہ مسلمانوں کی تعلیم میں کوئی قابل قدر اضافہ ہوا ہے ۔مزید براں معیار تعلیم میں ہم بہت پیچھے ہیں جو باعث تشویش ہے۔ مظفر علی نے مہمانوں کا استقبال کیا۔اس اختتامی اجلاس کی نظامت عبد الرشید صاحب نے ادا کی اور ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے شکریہ ادا کیا۔