رشوت کا لین دین……توضیح اور شرعی حکم

مفتی نذیراحمد قاسمی
  سوال:۔  ہمارےمعاشرے میں رشوت کا جوظالمانہ ماحول ہے اُس کااندازہ ہر اس شخص کو ہے جس کو یہاں کے کسی بھی دفتر سے کوئی سابقہ پڑتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا لگتا کہ امیروں ،وزیروںاور افسران سے لے کر چپراسیوں تک مشکل سے ہی کوئی شخصہے جو اس وباء سےمحفوظ ہو۔ اب تو اس کو حرام سمجھنے کا تصور بھی ختم ہو چکا ہے۔ براہ کرم اس کے لئے متعلق ایک واضح جواب عنایت فرمائیں ۔ خاص کر اُس شخص ،جو یہ رشوت دینے پر مجبو رہے ۔کیونکہ اگر نہ دے تو اس کا جائز کام نہیں ہو پائے، کےلئے کیا حکم ہے؟
عبدالرشید  خان
غلام مصطفیٰ خان …سرینگر
رشوت کا لین دین……توضیح اور شرعی حکم
جواب:۔رشوت حرام آمدنی کی بدترین اقسام میں ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے :۔ ترجمہ اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھائو۔ النساء ۔رشوت اس میں داخل ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا رشوت لینے والوں اور رشوت دینے والوں،دونوں پر اللہ کی لعنت برستی رہتی ہے۔ ابن ماجہ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رشوت لینے والے رشوت دینے والے دونوں جہنم میں جائیں گے۔ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی اور طبرانی میں ہے۔
ایک حدیث میں رشوت دینے والا رشوت کی دلالی کرنے والا اور رشوت لینے سب پر اللہ کی لعنت۔ مسند احمد۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرمایاکرتے تھے کہ جج کا رشوت لے کر کسی حق میں فیصلہ کرنا کفر کے برابر ہے۔( طبرانی)اسی طرح کسی افسر کا رشوت لے کر کسی ایسے شخص کو ملازمت دینا جو اُ س کانہیں کسی اور کا حق تھا تو یہ بھی ایسا ہی جرم ہے۔
رشوت کی یوں تو بہت ساری صورتیں ہیں مگر چند خاص صورتیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔ کسی ملازم یا کسی افسر کا کوئی کام کرنے سے ٹا ل مٹول کرنا، جب تک اُس کا م کے مستحق شخص سے کوئی رقم نہ لے۔ اگر کام کرنے والے کا کام حق تھا اور اس میں کسی اور پر کوئی ظلم نہیں تھا تو اس صورت میں رشوت دینے پر جو شخص مجبور کیا گیا ، اُس پر مالی ظلم ہوا۔ اس صورت میں رشوت دینے والا گنہگار نہ ہوگا۔ ہاں رشوت لینے والے پر لعنت ہوگی اور وہ کئی حرام کاموں کا ارتکاب کرنے والا قرار پائے گا۔ ایک اپنے مفوضہ کام کو دیانتداری سے انجام نہ دینے کا جرم،اس لئے وہ خائن قرار پائے گا ۔دوسرے وہ جس کام کےکرنےکی تنخواہ لے رہا ہے اُ س کا م کو تنخواہ لینے کے باوجود نہ کرنا ،اس لئے تنخواہ بھی اس کے لئے حلال نہ رہی۔تیسرےے و ہ کام کرنے والے سے کوئی رقم لئے بغیر کام کرانے کا ذمہ تھا مگر اُس نے رقم لی یہ رقم لینا تیسرا گناہ کبیرہ ہے  اور اگر ذہناً اُس نے اس کام کو حرام اور جرم نہ سمجھابلکہ حلال اور درست سمجھا تو اس کی وجہ سے اُس کا ایمان بھی ختم ہوسکتا ہے حالانکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی باور کراتا رہے گا۔
رشوت کی ایک قسم یہ ہے کہ قومی خزانے سے رقم کی وہ مقدار لی جائے جو دراصل خرچ نہیں ہوئی ہے۔ یعنی ایک ہزار کے بل کی جگہ دس ہزار کا بل بنایا جائے اور رقم نکالی جائے۔ رشوت کی یہ صورت ہمارے معاشرے میں کثیر الوقوع ہے، اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ کوئی کم جتنی رقم کا الاٹ ہوا، اس سے بہت رقم خرچ کی جائے اور رقم بچا کر آپس میں تقسیم کی جائے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ کسی کی زمین حاصل(Aquire)کرے اور اس کی قیمت مقرر کرنے میںملازم رشوت لیں پھر جو قیمت مقرر ہو جائے ا س کے ادا کرنے میں بھی کچھ رقم ملازمین خود رکھ لیں اور مقررہ قیمت سے بہت کم مالک کو دی جائے۔ رشوت کی ایک صورت بھی پائی جاتی ہے کہ گورنمنٹ کے کسی بھی ادارے یا دفتر کے لئے کوئی بڑی خریداری کر نی ہوتی ہے اور جس ملازم کو یہ کام سپرد ہوتا وہ دکانداروں سے کہے کہ اگر مقررہ قیمت سے زائد لکھ کر زائد رقم مجھے بطور کمیشن دوگےتو میں تم سے خریداری کروں گا۔ چنانچہ دکان دار مجبور ہوتا ہے کہ وہ بل میں زائد رقم لکھے اور یہ زائد رقم وہ ملازم ،جو خریداری کا ذمہ دار رہے، لے گا۔
رشوت کی ایک کثیر الوقوع قسم یہ ہے کہ کسی کم تعلیم یافتہ نوجوان سے ایک مخصوص رقم لے کر پھر اس کے عوض میں اُسے کوئی ایسی ملازمت دلائی جائے جس کا وہ حقیتہً مستحق نہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ کسی دفتر میں جتنی بل جمع کرنی ہو کوئی ملازم اُس سے کم رقم لے کر اس کو بل کی رقم جمع کرنے سے بری کرائے۔ مثلاً جنگلات کا ملازم درخت کاٹنے پر کچھ رقم لے کر اپنی جیب میں رکھے اور درخت کا ٹنے والے کو بری کرے۔ غرض کہ رشوت لینے اور دینے کی سینکڑوں شکلیںہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ کوئی ایسی حکومت ہو جو خود حرام سے اور خاص کر رشوت سے ایسے بچتی ہو جیسے زہر سے۔ پھروہ اوپر کے ملازمین کا محاسبہ کرے اور جہاں واقعتہً رشوت لینا ثابت ہو جائے۔ ایسے شخص کو چاہئے وہ منسٹر ہو، افسر ہو، بیورو کریٹ ہو یا عام ملازم ہو اُس کی ملازمت ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائے۔ اور اس کا باقاعدہ قانون بنایا جائے تمام لوگوں کو اعلاناً کہا جائے کہ جہاں بھی رشوت کا معاملہ ہو مقررہ دفتر کو اطلاع دی جائے۔ اور اُسی وقت موقعہ پر ہی اُس کامواخذہ کیا جائے جیسے کہ آج بھی چند عرب ملکوں میں یہ پہلو روشن ہے رشوت خود ہر دفرد بڑا ہو چھوٹا اُس کو مشتہرکرکے بلیک لسٹ کیا جائے۔
 سوال: گم شدہ یا گری پڑی چیز اٹھانا لقطہ کہلاتا ہے ، اس کے شرعی احکام مختصراً بیان فرمائیں؟
ارشد خان
گمشدہ چیز اٹھانے کے متعلق شرعی احکام
جواب:۔شریعت اسلامیہ میں لقطہ گری پڑی چیز کو حفاظت کی نیت سے اُٹھانا اور مالک تک پہنچانے  نیت کرنے کا نام ہے۔ حدیث میں اس کے متعلق واضح ارشادات بیان کئے گئے ہیں ۔مثلاً ایک حدیث یہ ہے ۔
حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک تھیلی ملی اس میں سو دینار تھے( ایک دنیار تقریباً ایک پائونڈ ) میں حضرت رسول کریم ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس کے بارے میں پوچھا تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ایک سال تک اس کااعلان کرو( بخاری) ۔جب انسان کو کوئی گرا پڑا سامان ، روپیہ ، چیز یا جانور ملے تو اس کو اُٹھانے یا نہ اُٹھانے کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر لقطہ ضائع ہونے کا ظن غالب ہو اور اپنے بارے میں یقین ہوکہ مالک کا پتہ لگا کر اُس تک پہنچادے گا۔ تو ایسی صورت میں لقطہ اُٹھانا واجب یا فرض کفایہ ہے۔
اگر اُٹھانے والے کی نیت خود کےلئے اُٹھانے کی ہو اور مالک تک پہونچانے کا ارادہ نہ ہو تو ایسی صورت میں گری پڑی چیز اُٹھانا حرام ہے۔ لیکن اگر لقطہ کے ضائع ہونے کا صرف اندیشہ ہو تو مالک تک پہونچانے کی نیت سے اُٹھانا مستحب ہے اور مالک تک پہونچانے کا ثوا ب بھی ہوگا۔
اگر کسی کو یقین ہو کہ گری ہوئی چیز نہ اُٹھانے سے ضائع ہونے کا کوئی خدشہ نہیں اور اگر خود اُٹھائے تو مالک تک پہونچانا اُس کےلئے مشکل ہو تو نہ اُٹھانے کی اجازت ہے۔
جب کسی شخص نے مالک تک پہونچانے کی نیت سےکوئی چیز اُٹھائی تو اب یہ چیز اُس کے پاس امانت ہے۔ اس کی حفاظت کرنا اور اسے اصل مالک تک پہونچانے کی کوشش کرنا اُس پر لازم ہے۔ اگر کسی نے کوئی چیز خود استعمال کرنے کی نیت سے اُٹھائی تو اس کی نیت چونکہ شرعی طور پر غلط تھی ،اس لئے اُس پر غصب کرنے کا حکم لگے گا اور اس پر دو چیز لازم ہیں۔ ایک تو توبہ کرنا کہ میں نے چیز اُٹھائی اس کےلئے میری نیت درست نہ تھی او ردوسرے مالک تک پہونچانے کی نیت کرنا اور شرعی طور پر اس کے لئے حکم معلوم کرنا پھر مالک تک پہونچانے یا جو حکم شریعت ہو اس پر عمل کرے۔ اگر کسی نے کوئی چیز مالک تک پہونچانے کی نیت سے اُٹھائی، پھر اس کی غلطی اور کوتاہی کے بغیر یہ چیز ضائع ہو گئی تو اس اُٹھانے والے پر کوئی ضمان لازم نہ ہوگا۔ اگر اصل مالک تک پہونچانے کی نیت سے چیز اُٹھائی اور حفاظت کی صحیح انتظام نہ کیا اور چیز ضائع ہوگئی تو اس پر ضمان لازم ہوگا۔
اگر کسی نے کوئی چیز خود اپنے استعمال میں لانے کی نیت سے اُٹھائی تو پھر اگر چیز ضائع ہوگئی تو اُس پر ضمان لازم ہوگا۔ اگر کسی نے خود اپنے استعمال کی نیت سے اُٹھائی اور پھر واپس اُسی جگہ وہ چیز رکھ دی اور وہ چیز ضائع ہو گئی تو اس پر ضمان لازم ہوگا۔ اگر مالک تک پہونچانے کی نیت تھی مگر پریشان ہوگیا تو اب حکم شرعی معلوم کرنا ضروری ہے۔ اگر اس نے مالک تک پہونچانے کی نیت سے چیز کو اُٹھایا تو پھر واپس وہ چیز جگہ پر لا کر رکھ دی اور وہ چیز ضائع ہوگئی تو اس صورت میں ضمان لازم نہ ہوگا۔ جن صورتوں میں ضمان لازم ہوگا اُن صورتوں میں چیز کا مالک دریافت ہونے کی صورت میں وہ ضمان و اپس مالک کو دینا ہوگا ۔ اگر مالک ہاتھ نہ آئے تو اتنی رقم صدقہ کرنا ضروری ہوگا ۔ اگر اس نے مالک کو ضمان نہ دیا یا ضمان کے بقدر رقم صدقہ نہیں کی تو وہ اللہ کی بارہ گاہ میں بری الذمہ نہ ہوگا۔ اسکا مواخذہ ہوگا ۔لقطہ اُٹھانے والا خود اقرر کرے کہ اُس نے یہ چیز خود کےلئے اُٹھائی تھی یا مالک تک پہونچانے کی نیت سے اُٹھائی۔ یا چیز اُٹھاتے وقت دو گواہ رکھے کہ اس نے مالک تک پہونچانے کی نیت سے یہ چیز اُٹھائی ہے۔ تو بات تسلیم کی جائے گی۔ جب کسی شخص نے کوئی چیز اُٹھائی تو اس شخص پرلا زم ہے کہ وہ چیز اُٹھانے کا اعلان کرے اور مالک پہچان کرکے  چیز  لے سکتا ہے۔ اس کا بھی اعلان کرے۔
اعلان کرتے وقت چیز کا مکمل تعارف نہیں کرائے گا بلکہ مبہم اعلان کرے گا۔ مثلاً یوں کہے کہ میں نے کچھ رقم اُٹھائی ہے جس شخص کی وہ رقم  ہو وہ مقدار اور نوٹوں کی شکل اور ہیت بتا کر وصول کرے۔ یا موبائل اُٹھایا ہے۔ وہ نام ، شکل، ہیت رنگ وغیرہ بتا کر وصول کرے۔ پھر جب کوئی شخص یہ کہے کہ یہ چیز میری ہے تو پہلے ا س سے تمام علامات اچھی طرح معلوم کرکے اطمینان کرے کہ واقعتہً چیز اُسی کی ہے۔ پھر چیز اس کے حوالے کرے اور اس کے گواہ بھی رکھے یہ اعلان اُسی جگہ کرے جہاں سے چیز اُٹھائی ہے یا عوامی جگہوں پر مثلاً مساجد کے باہر،چوراہوں پر، اخبار میں اور جہاں بھی مالک تک اعلان پہونچنے کا امکان ہو۔ آج وٹس اپ پر بھی کرسکتے ہیں۔
جو چیز اُٹھائی گئی ہے اگر وہ دو سو درہم( تقریباً بیس ہزار روپے) یا اُس سے زائد کی قیمت کی ہے تو ایک سال تک اعلان کرنا ضروری ہے۔ اگردس درہم یا اُس کی قیمت ایک ہزار کے بقدر ہو تو ایک ماہ تک اعلان کرنا ضروری ہے۔ اگر اس سے کم کی قیمت کی چیز ہے تو صرف دس دن اعلان کرنا کافی ہے۔
اعلان کرنے پر اگر کچھ خرچہ آجائے تو یہ اس کی طرف سے چیز کے مالک پر قرضہ ہوگا۔ اگر خرچہ اپنی طرف سے کرے تو یہ احسان مانا جائے گا۔ ورنہ مالک سے وصول کرے۔
اگر چیز ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو غریب ہونے کی صورت میں اعلان کےبعد خود استعمال کرنے کی اجازت ہے ۔ مالدار ہو تو صدقہ کرنا واجب ہے۔مقررہ مد ت تک اعلان کرنے کے بعد اب لقطہ اُٹھانے والا شخص کیا کرے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ اگر لقطہ اُٹھانے والا خود غریب، صدقہ و زکوٰۃ کا مستحق ہے تو ایسی صورت میں اُسے یہ چیز خود استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اس کے بعد اگر مالک آجائے تو اگر اُس نےبطور صدقہ استعمال کرنے کے عمل کو تسلیم کیا تو  مالک کو صدقہ کا ثواب ملے گا۔ اگر اُس نے صدقہ تسلیم نہ کیا تو استعمال کرنے والے کو اس کا عوض ادا کرنا لازم ہوگا۔اور اگر لقطہ کی حفاظت میں کچھ خرچہ ہوا ہو تو وہ  مالک سے وصول کرے۔
اگر لقطہ اُٹھانے والا خود مستحق زکوٰۃ نہ ہو اور اعلان کی مقررہ مدت گذر گئی ہو تو پھر اس کےلئے لازم ہے کہ اس چیز کو صدقہ کرے۔ یعنی کسی غریب مستحق زکوٰۃ شخص کو یہ چیز دے دے۔ اگر اس کے بعد چیز کا مالک آجائے تو اسے صدقہ کے اقدام کو قبول کرنے کی تجویز دے۔ اگر اُس نے صدقہ کرنے کے عمل کو تسلم کرلیا تو بہتر ،اگر نہیں تو پھر صدقہ کرنے والے کو اس کا ضمان دینا ہوگا اور اگر وہ ضمان سے بچنا چاہتا ہو تو اُس غریب، جس کو وہ صدقہ کیا گیا، کو بتا دے کہ اگر مالک آگیا تو تم کو یہ چیز مالک کو واپس کرنا ضروری ہوگا۔ اگر یہ چیز استعمال کرکے ختم ہوگئی ہو تو پھر تم کو اس کا عوض دینا لازم ہوگا۔ اس صورت میں اگر مالک آگیا اور اُس نے صدقہ تسلیم نہ کیا اور ضمان طلب کیا تو یہ ضمان بصورت عوض اُس غریب کو ادا کرنا ہوگا، جس نے یہ لقطہ بطور صدقہ استعمال کیا ہے۔ اگر کسی نے جانور ، گائے، بھیڑ ، بکری، مرغ، گھوڑا وغیرہ پھرتا دیکھا اور اُسے خطرہ ہو کہ اُسے کتے کاٹیں گے یا سردی میں یہ مر جائے گا یا کسی اور طرح ضائع ہو گا تو اُسے اپنے گھر لانا درست ہے۔ پھر اس کااعلان کرے اوراس پر جو خرچہ لازماً کرنا پڑے وہ خرچہ بھی کرتا رہے ۔پھر اگر مالک آگیا تو خرچہ اُس سے وصول کرے۔ اگر مالک نہ آئے تو اس جانور کو فروخت کرکے اپنا خرچہ عدل و انصاف کے ساتھ افراط و تفریط سے بچ کر وصول کرے  اور بقیہ رقم غربأ میں صدقہ کرسکتا ہے اور وہ استعمال کرتا رہے۔ اگر مالک آگیا تو اس کودے دے، اگر مالک نہ آے تو خود ہی بطور صدقہ اُس کا مالک قرار پائے گا یہ تمام مسائل فتاویٰ عالمگیری، درمختار وغیرہ فقہ کی کتابوں سے اختصاراً لکھے گئے۔