سرسید احمد خان

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
   سرسید احمد خان اُنیسویں صدی کے ہندوستان میںایک ایسے مفکر، مصلح، عالم وفاضل،وسیع النظر رہنما رہے ہیں جنہو
ں نے ہندوستانیوں اور بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا۔ان کی مسلسل کوششوں سے تعلیمی محاذ پر ایک خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی۔ اس عہد کے مسلمان سستی،کاہلی،جہالت،بے عملی،لاعلمی اور توہم پرستی جیسی لعنتوں میںمبتلا تھے اور تباہی کے ایک ایسے گھڑے میںجاگرے تھے جہاں سے ان کا باہر نکلنا بظاہر ناممکن لگتا تھا۔سرسید احمد خان نے جامع حکمت عملی ، دلسوزی واستقامت سے خفتہ مسلمانوں کو جگایااور جب وہ بیدارہوئے تو جہد وعمل پر کمر بستہ ہوئے۔ اگر سرسید احمد خان جیسا عظیم المرتبت دانشور،عالم وفاضل اور مصلحِ قوم پیدا نہ ہوا ہوتاتو شایدآج برصغیر میںمسلمانوں کی کوئی بھی حیثیت واہمیت نہ ہوتی،وہ مظلومی اور محکومیت کی زندگی گزار رہے ہوتے۔جب ہم سرسید احمد خان کی انقلابی شخصیت پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ اُن میںاپنے ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔دوسری اہم بات یہ کہ انھوں نے مسلمانوں کی زندگی کے تقریباً ہر شعبے پر توجہ دی۔تیسری بات یہ کہ وہ من وتو کی تقسیم سے آزاد تھے۔ چوتھی بات یہ کہ انہوں نے اردو شعر وادب کو ایک نئی راہ دکھائی۔
سرسید احمد خان ۱۷ ؍ اکتوبر۱۸۱۷ کو دہلی کے ایک خوشحال اور علمی وادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کی بہتر تعلیم و تربیت میں ان کی والدہ کا خاصا عمل دخل تھا۔وہ ایک نیک اور رحم دل خاتون تھیں۔چناں چہ انھوں نے ایک شفیق ماں کی طرح اپنے بیٹے کا ہر طرح سے خیال رکھا۔دہلی میں اس وقت بڑے بڑے عالم موجود تھے کہ جن سے سرسید نے تعلیم حاصل کی۔ دانش وروں ، شاعروں اور ادیبوں کی صحبت سے بھی فیض یاب ہوئے۔تقریباََ بائیس سال کی عمر میںانھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور ترقی کرتے کرتے صدر امین کے عہدے تک جاپہنچے۔ عوامی زندگی میںسرسید احمد خان کی سعی وجہد کابنیادی مقصدیہ تھا کہ تمام اہل وطن بلا لحاظ مذہب وملت آپس میں میل ملاپ، بھائی چارے اور رواداری کے جذبے سے سرشار ہوکراپنے ملک کی تعمیر وترقی میںبھرپور تعاون دیں۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے انھوں نے اپنی پرجوش تقریروں اور اثر انگیز تحریروںکا سہارالیا ۔دورانِ ملازمت انھوں نے’’آثار الصنادیدــ‘‘نام کی ایک ایسی اہم کتاب لکھی جس میں دہلی کی عمارتوں اور اہم شخصیات کے حالات وواقعات کو محققانہ معیار کے مطابق سامنے لایا۔وہ ملک وقوم کے ایک سچے خادم ہونے کی حیثیت سے یہ چاہتے تھے کہ ہند وستان میں بسنے والیــــ لوگ ترقی کی راہ پہ گامزن ہوں اور آپس کے تمام اختلافات کو بھول کر متحد ہوجائیں۔انھوں نے اپنے وطن کے لوگوں کو یہ درس دیا کہ ملک وقوم کی فلاح وبہبودی اس کی تعمیر وترقی اور خوشحالی کا راز جذبۂ اتحاد میں پوشیدہ ہے۔یہی انسانیت کا تقاضا ہے اور اسلام بھی ہمیں اسی کی تعلیم دیتا ہے۔اپنی ایک تقریر میںسرسید احمد خان کہتے ہیں :’’اسلام نے ہم کو یہ بھی سکھایا ہے کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ سلوک رکھیں۔۔۔جس نے جامۂ انسانیت پہنا ہے اس کی یہ خواہش ہوگی کہ ہندوستان کی دونوں قومیںبرابر ترقی کریں۔ہندو ہوں یا مسلمان یا ہندوستان کی کوئی قوم ہو، ملک کی بہتری کے لیے سب کو ایک ہونا چاہیے‘‘( خطبات سرسید میںقومی یکجہتی ۔۔۔از : درخشاں تاجور۔مشمولہ سہ ماہی ’’روزن‘‘(اُڑیسہ شمارہ۳ جولائی تاستمبر۲۰۰۳)سرسید احمد خان کے زمانے میںہندوستانی مسلمانوں کی حالت نہایت پسماندہ تھی۔ان کی ذہنی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے سرسید نے ان کی زندگی کے ہر شعبے پر مصلحانہ غور فکر کیا اور جہاں کہیں بھی انھیںخرابی نظر آئی اسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔مسلمانوں کے رہن سہن،طور طریقے، کھانے پینے کے عادات،نشت وبرخاست اور آداب گفتگو کیسے ہونے چاہئیں،ان سب امور پر موصوف نے روشنی ڈالی۔سرسید احمد خان چونکہ صاحب ِبصیرت تھے ، اس لیے انھوں نے وقت کے مسلمانوں کوانگریزوں کی دشمنی سے بچنے کے لیے سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔علاوہ ازیں آپ نے مسلمانوں کو شائستگی کی اصل روح سے واقف کرایا۔مسلمانوں کوسرسیدکی سب سے بڑی دین یہ ہے کہ انھوں نے کلمہ خوانوں کو مغربی علوم و فنون سیکھنے پر آمادہ کیا۔وہ جانتے تھے کہ انگریزی تعلیم حاصل کئے بغیر ہندوستانی قوم انگریزوں کی شاطرانہ چالوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔۱۸۵۷ء کی بغاوت میںانھوں نے مسلمانوں کو مصلحتاً یہ مشورہ دیا کہ وہ اس سے دور رہیں۔انھیں اس بات کا پورا یقین تھاکہ یہ بغاوت ناکام ہوگی اور بعد میں ایسا ہی ہوا۔سائنسی علوم کی افادیت سمجھتے ہوئے انھوں نے غازی پور میںسائنٹیفک سوسائٹی قائم کی،اس کے تحت سائنس کی بہت سی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کروایا۔سائنس پر لیکچر دلوائے اور باضابطہ ایک اخبار’’سائنٹیفک گزٹ‘‘جاری کروایا۔مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر’’لائف آف محمد‘‘نام سے ایک کتاب گستاخ ودریدہ دہن انگریز عہدیدارولیم میور نے لکھی تو سرسید یہ دیکھ کر انتہائی رنجیدہ اور مضطرب ہوگئے۔وہ اپنا تمام اثاثہ فروخت کرکے اپنے دوست واحباب سے قرضے لے لے کر انگلستان گئے اور وہاں عیسائیوں کی کتابوں کے حوالہ دے کر اس کا منہ توڑ جواب ایک کتاب کی صورت میں دیا ۔ یہ کتاب انگریزی اور اردو میں’’ خطبات احمدیہ‘‘کے نام سے شائع ہوئی۔انگلستان ہی میں انھوں نے یہ مصمم ارادہ کرلیا تھاکہ ہندوستان واپس آکر’’تہذیب الاخلاق‘‘نام کا ایک رسالہ جاری کریں گے۔اس رسالے کے جاری ہونے کے بعد مسلمانوں کی اجتماعی سوچ میں ایک خوشگوار تبدیلی شروع ہوئی۔انھیں اپنی زبوں حالی او ر معاشی و تعلیمی محرومی کا احساس ہوا۔انگلستان میں رہتے ہوئے سرسید احمد خان نے وہاں کے تعلیمی اداروں کا بغور جائزہ لیا اور وہیں یہ پکا ارادہ کیا کہ ہندوستان میں بھی اسی طرح کا کالج قائم کریں گے۔چناں چہ واپس آنے کے بعد انھوں نے علی گڑھ میں’’ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج‘‘کا قیام عمل میں لایا۔سرسید کے دوستوں نے اس کالج کے قیام میں فراخدلانہ مدد دی اور یہی کالج اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں موجود ہے۔
سرسید احمد خان فرقہ واریت کے سخت مخالف تھے۔وہ ہندواور مسلمان کو ہم قوم سمجھتے تھے اوران دونوں کو اپنے ملک کے خوبصورت چہرے کی دو آنکھیں کہتے تھے۔فرقہ وارانہ منافرت کو وہ ملک کی ترقی اور سا  لمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ خیال کرتے تھے۔چناں چہ انھوں نے زندگی کے ہر موڑ پر بڑی بے باکی،خودداری اور واضح الفاظ میںفرقہ پرستی کی شدید مذمت کی اور اپنے ملک کے تمام باشندوں کو پیار ومحبت اور امن وآشتی کا پیغام دیا۔اپنی ۳۰ دسمبر۱۸۷۳ کو انجمن پنجاب لاہور کی ایک تقریر میںسرسید احمد خان نے اپنے اہل وطن کو ان الفاظ میں خطاب کیا:’’میں نے اپنی زبان سے کئی دفعہ’قوم‘کا لفظ بیان کیا۔اس سے میرا مطلب صرف مسلمانوں ہی  سے نہیں ہے۔۔۔میں قوم کی خصوصیت کے واسطے مذہب ،فرقہ اور گروہ پسند نہیں کرتا۔۔۔میری تمام آرزو یہ ہے کہ بلالحاظ قوم ومذہب کے تمام انسان آپس میں ایک دوسرے کی بھلائی پر متفق ہوں۔مذہب بے شک سب کا علا حدہ علاحدہ ہے مگر اس کے لحاظ سے آپس میں کوئی دشمنی کی وجہ نہیں ہے‘‘(مشمولہ ’’ روزن‘‘ص ۲۵)معلوم ہوا کہ سرسید احمد خان کے زمانے میں ہندوستان میں فرقہ پرستی،ذات پات، چھوت چھات،تعصب،رنگ و نسل اور بھید بھاؤ جیسی تمام ذہنی خباثتیں سماج ومعاشرے میںموجود تھیں۔اس لیے سرسید نے ایک مرد مجاہد کی حیثیت سے ہندوستانیوں کو ان تمام ذہنی خباثتوں سے بچنے کی پرزور تلقین کی اور ان تمام بری باتوں کو ملک وقوم کی ترقی کے لیے سم قاتل قرار دیا۔
ہمارے اردو شعر وادب کو نئی راہ دکھانے میں سرسید احمد خان نے جو کمال کر دکھایاوہ لامثال ہے۔وہ اگرچہ خود شاعر نہیں تھے مگر ان کی تمنا یہ تھی کہ شاعر اپنی شاعری سے قوم کو بیدار کرنے کا کام لے۔ان کی اس خواہش اور فرمائش کو حالیؔ نے مسدس’’مدو جزرِ اسلام‘‘لکھ کر پورا کیا۔آگے چل کر اقبال نے اپنی شاعری سے قوم کو بیدار کرنے کاخوب کام لیا۔سرسیدخود نثر نگار تھے،اس لیے اردو نثر کے میدان میں انھوں نے مدعا نگاری کی بنیاد ڈالی۔ان کی سحر انگیز تحریروں نے ایک انقلاب برپا کردیا۔اپنے مدعا ومقصد کے لیے استدلالی انداز بیان اپنایا۔نثر میں وضاحت،قطعیت اور معقولیت کی اہمیت کو واضح کیا ،سرسید سے پہلے اردو نثر میںلفاظی،تصنع،غیر ضروری عبارت آرائی اور مبالغہ آمیز تحریروں کا رواج عام تھا ،لیکن سرسید نے ان تمام غیر اہم باتوں کو مسترد کرکے جدید نثر کی بنیاد ڈالی۔بہر حال سرسید احمد خان کی انقلابی شخصیت اور ان کی فکری نشوونما کے پس منظر کے حوالے سے یہ کہنا لازمی ہے کہ انھوں نے اپنے ملک وقوم کی ترقی کو اپنی کامیابی کا نصب العین بنایا۔ وہ حق گوئی اور انسان دوستی کی خاطر عملی میدان میں اترے۔مختلف قسم کی تکالیف اور مخالفتیں برداشت کیں، مسلمانوں میں جدید نظام تعلیم کو رائج کرنے کے لئے کئی دشواریوں کا مردانہ وار سامنا کیا۔ کچھ ناقدین نے انھیں ابن الوقت اور انگریزوں کا ایجنٹ تک کہا لیکن وہ کسی کی پرواہ نہ کر تے ہوئے اپنے مشن پر قائم رہے۔اس لیے ہمیں نہ صرف سرسید احمد خان کے تعمیری افکار ونظریات کو یاد کرنا ہے بلکہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق انھیں عملی جامہ بھی پہنانا ہوگا۔آج ملک میں بہت ساری برائیاں اور بیماریاں پھیل چکی ہیں۔ان برائیوں کا خاتمہ اور عوارض کا علاج کیسے ہو، یہ ایک سنگین مسٔلہ ہے۔ان کا خاتمہ اسی صو رت میں ممکن ہے جب ہم سب سرسید احمد خان کے نقش قدم پر چلیں اور منظم ہوکر برائیوں اور جہالتوں کے خلاف پر امن مہم شروع کریں۔