کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

مفتی نذیراحمد قاسمی
سوال:۔ عام طور پر مسجدوں میں اقامت کہنے پر جھگڑا ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جو اذان کہے وہ تکبیر بھی کہئے گا کیا ایسا کرنا درست ہے؟
سوال:۔ بیک وقت کئی اذانوں کا جواب کس طرح دیاجائے اگر کسی نماز کے وقت کئی مسجدوں سے ایک ساتھ اذان کی آواز آنے لگے تو ایسی صورت میں کس مسجد کی اذان کا جواب دیا جائیگا؟
سوال: اگر کوئی شخص اکیلے نماز پڑھے تو کیا ایسے شخص کیلئے اذان اور اقامت کہنا درست ہے یا نہیں؟
سوال: اگر وقت سے پہلے اذان دی جائے تو کیا اذان کا اعادہ کرنا دست ہے یا نہیں کیونکہ اکثر جگہ میں نے ایسا ہی پایا ہے کہ وقت سے پہلے اذان دے دیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہے ؟
سوال: کیا بغیر وضو کے اذان دے سکتے ہیں۔ اگر دی جائے تو درست ہے یا نہیں؟
سوال:۔ ایک موذن کا دومسجدوں میں الگ الگ اذان پڑھنا کیسا ہے؟ برائے کرم ان تمام سوالات کا مفصل جواب دیا جائے کیونکہ اکثر لوگوں میں یہ تمام چیزیں پائی جاتی ہیں؟
نعیم احمد راتھر
اذان اور اقامت کے مسائل
سوالات کی ترتیب کے مطابق جوابات درج ہیں
جواب:  (۱) حضرت رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو اذان پڑھے وہی اقامت پڑھے۔ ترمذی۔ اس حدیث کی بنا پر مسئلہ یہ ہے  جس نے اذان پڑھی ہواقامت پڑھنے کا حق اُسی کا ہے اُس کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرا اقامت پڑھے تو یہ مکروہ ہے مگر اقامت ادا ہو جاتی ہے اگر وہ موجودنہ ہو تو پھر کسی دوسرے شخص کا اقامت پڑھنا جائز ہے۔ اگر وہ کسی اور کو اقامت پڑھنے کی اجازت دے تو پھر اس میں نہ کوئی کراہت ہے اور نہ کسی کو اعتراض کرنے کا حق ہے۔
جواب:  (۲) جس مسجد میں انسان کو نماز پڑھنی ہو اُس کی مسجد کی اذان کا جواب دینا کافی ہے دوسری مساجد کی اذان کا جواب دینا لازم نہیں ہے۔
جواب:(۳) جو شخص اکیلے نماز پڑھے اُس کو اقامت پڑھنا لازم نہیں۔ اگر اقامت پڑھے تو بہتر ہے اگر بغیر اقامت کے نما زپڑھے تو بھی نماز دوست ہے۔
جواب:(۴) جو اذان وقت سے پہلے پڑھی جائے۔ اُس اذان کا اعادہ لازم ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ ایسے مؤذن کو تنبہیہ کی جائے جو وقت سے پہلے اذان پڑھتا ہو ۔ہر نماز کا جو وقت اوقات الصلوۃ کے مستند کلینڈر سے معلوم ہو اُس کے مطابق اذان پڑھی جائے۔ صبح صادق پر اذان فجر پڑھی جائے۔نہ اُس سے پہلے اور نہ اُس کے بعد ۔نمازظہر اور نماز جمعہ کی اذان زوال آفتاب کے بعد پڑھی جائے۔ اگر شروع ظہر سے پہلے ظہر یا جمعہ کی اذان پڑھی گئی تو وہ اذان ادا نہ ہوئی۔ اسی طرح مغرب کی اذان غروب آفتاب کے بعد ہو۔ اس سے پہلے اذان پڑھی تویہ اذان دوبارہ پڑھنا لازم ہے۔ اسی طرح نماز عشاء کی اذان وقت ِعشاء شروع ہونے کے بعد پڑھنا لازم ہے۔
جواب(۵) بغیر وضوع اذان پڑھنا حدیث کی روسے منع ہے۔ چنانچہ حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ باوضو شخص ہی اذان پڑھے اور ایک حدیث میں ہے نہ اذان پڑھے مگر باوضوشخص۔ ترمذی۔ اسلئے بغیر وضو ہر گز اذان نہ پڑھی جائے۔ایک مؤزن جب ایک مسجد میں اذان پڑھے تو اب اُس مسجد سے نماز پڑھے بغیر باہر نکلنا منع ہے۔ اب اگر وہ نما زپڑھ کر نکلے اور پھر دوسری مسجد میں اذان پڑھے تو وہ خود جو نماز پڑھ چکا ہے اُس کی طرف دوسروں کو دعوت دینے والا ہوگا۔ اس لئے ایک مؤزن ایک ہی مسجد میں اذان پڑھے۔ دراصل اسلام کا نظام عبادت و نظام مساجد یہ ہے کہ ہر مسجد کا امام اور موزن الگ الگ ہو۔
جب ایک ہی موزن کئی کئی مساجد میں اذان دینے لگیں تو اس کے معنیٰ یہ ہونگے کہ مسلمان موزن بننے کو تیار نہیں، اسی لئے ایک ہی شخص کو کئی کئی جگہ موزن بنایا جا رہا ہے۔ یہ طر زعمل تعامل امت کے بھی خلاف ہے۔ اور دین سے دوری، اعمال دینی کے انجام دینے سے تساہل و اعراض کا غما ز ہے۔ بہر حال ایک موزن ایک ہی مسجد میں اذان پڑھے۔
…………………………………………………………..
سوال:۔ کشمیرعظمیٰ میں آپ کی طرف سے ملنے والے شرعی جوابات سے تمام اہل کشمیر خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہمارا بھی ایک سوال ہے جو کشمیر کے بہت سارے گھروں میں سخت جھگڑوں کا سبب بنتا ہے ۔ وہ یہ کہ شوہرنے اپنی بیوی کو جو مہر اور زیورات کی صورت میں دوسرے تحائف دیئے ہوں وہ رخصتی کے بعد شوہر یا اُس کے والدین اس عورت سے چھین لیتے ہیں ۔ بعد میں شوہر یہ سمجھتا ہے کہ یہ اُسکا حق ہے اور عورت یہ سمجھتی ہے کہ یہ اُسکا حق ہے جس کی وجہ سے جھگڑے ہوتے ہیں اور یہ تنازعات عدالتوں میں محلوں و دیہات کی انتظامیہ کمیٹیوں میں اور وومن کمیشن(Women Commission) میں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ عور ت پر ظلم بھی ہوتا ہے حق تلفی بھی ہوتی ہے اس حوالے سے دو ٹوک شرعی رہنمائی فرمائیں کہ یہ حق کس کا ہے؟
نیلو فر جان
عورت سے مہر، زیورات اور تحائف واپس لینا حرام
جواب:۔مہر یا تحفہ کے طور پر دیئے گئے زیورات اور دوسری قسم کی اشیاء جو نکاح سے پہلے یا نکاح کے وقت یار خصتی اور اُس کے بعد کے دنوں میں عورت کو دی جاتی ہیں، وہ یقینا عورت کا ہی حق ہے اور کسی کو ہر گز اُس سے وہ سب چھیننے، یا اُس سے لے کر پھر واپس نہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ ظلم بھی حرام بھی، رشتہ کی سالمیت کے لئے خطرہ بھی۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ترجمہ:۔ تم نے اپنی کسی بیوی کو اگر ڈھیر کے برابر سونا دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس مت لینا۔
مہر تو شرعاً لازم ہوتا ہے اور اس کی مقدار اگر چہ شریعت اسلامیہ نے اپنی طرف سے مقررنہیں کی ہے بلکہ یہ دونوں طرف کے افراد کے ذمہ ہے کہ وہ اپنی مالی حیثیت اور دوسرے پہلو مدنظر رکھ کر کوئی مناسب مقدار کا مہر طے کریں۔ پھر آپسی گفتگو اور بحث و تمحیص کے بعد جو مقدار طے ہو جائے اُس کو ادا کرنا شوہر پر لازم ہے۔
مہر کے علاوہ جو دیگر تحائف دینے کا رواج تقریبا ہر جگہ کے مسلم معاشرے میں رائج ہے،ا س کے متعلق شرعی ضابطہ یہ ہے کہ یہ تحائف اس کی ملکیت قرار پائیں گے جس کو وہ تحائف دیئے گئے۔ تحفہ، ہدیہ، عطیہ اور ہبہ یہ تمام الفاظ ایک ہی حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ اپنی رضامندی اور خوشی سے اپنی کوئی چیز دوسرے کسی شخص کو اُس کی محبت، تعلق اور کسی قرابت کی بنا پر دی جائے اور کوئی بھی عوض لینے کا نہ اشارہ کنایہ…… ہو نہ صراحت ہو اور نہ ہی دل میں اس عوض کی خواہش ہو نہ ہی وہ چیز واپس لینے کی نیت ہو۔چنانچہ رشتے کرنے پر جو قسم قسم کے تحائف لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی والوں کو اورلڑکی والوں کی طرف سے لڑکے والوں کو دیئے جاتے ہیں وہ سب شرعی طور پر اسی قبیل سے ہوتے ہیں کہ خوشی، محبت، تعلق اور نئے قائم ہونے والے رشتہ میں پختگی پیدا کرنے اور قرابت کو خوشگوار و مستحکم بنانے کے لئے یہ تحائف دیئے بھی جاتے ہیں اور لئے بھی جاتے ہیں۔ اب جب یہ تحفہ ہے تو سُنیے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ تحفہ دے کر واپس لینا ایسا ہی ہے جیسا کہ کُتا قے کرے اور پھر اُس کو چاٹنے لگے۔ بخاری ومسلم
ہمارے معاشرے میں یقینا جو خرابیاں ہماری گھریلو زندگی کو تلخ بنا دیتی ہیں۔ اُن میں ساس بہو کے نزاعات اور میاں بیوی کا ایک دوسرے حقوق کے ادا نہ کرنا بھی ہے اور زوجہ کو دیئے گئے مہر اور زیورات پرشوہر یا اُس کے والدین کی دست اندازی بھی ہے۔
شرعی طور پر یہ طے ہے کہ زوجہ کو دیئے گئے مہر و زیورات میں سے شوہر کو کچھ بھی لینے کا حق نہیں ہے۔چاہئے رشتہ باقی رہے یا ختم ہو جائے۔ ہاں اگر رشتہ ختم  کرنے میں عورت کا اصرار ہو اور شوہر اس کے تمام حقوق ادا کرنے پر تیار بھی ہو اور رشتہ باقی رکھنا چاہتا ہو۔ پھر بھی زوجہ رشتہ منقطع کرنے پر ہی مصر ہو تو ایسی صورت میں خلع کا قانون ہے کہ زوجہ صرف مہر، یا صرف زیورات یا مہر و زیورات دونوں واپس کرنے اور شوہر اُس کے عوض رشتہ ختم کرنے پر رضامند ہو تو یہ خلع ہوگا۔ اور جس چیز کے عوض یہ خلع ہوگا۔ مثلاً مہر یا صرف زیورات یا دونوں تو وہ شوہر خلع لے کر رشتہ ختم کرے۔ اس کے بغیر زوجہ کو دیئے گئے زیورات، کپڑے، برتن وغیر واپس لینا حرام ہے۔
سوال: ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ اپنی بیویوں کے مہرا دا کرنے میں بہت کوتاہیاں کرتے ہیں بلکہ بہت سارے لوگوں کا طرز عمل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کو لازم سمجھتے ہی نہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مہر کی حیثیت کیا ہے اور اس کے ادا نہ کرنے کے متعلق کیا حکم ہے؟۔
بشارت ا حمد خان
مہر… تاخیر سے مکمل ادائیگی ممکن نہیں
جواب:۔ اسلامی اصولوں کے مطابق کسی مسلمان مرد و عورت کا جب نکاح ہوتا ہے تو اُس کے لئے مہر طے کرنا لازم ہے۔ چنانچہ حضرت نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک نوجوان نے ایک خاتون سے رشتہ کرنے کی پیشکش کی ۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایا کہ مہر لائو چاہئے لوہے کی انگھوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ نوجوان دوسرے علاقہ کا پردیسی تھا اور مفلوک الحال بھی۔ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس تو لوہے کی انگھوٹی کے بقد ر بھی کچھ نہیں ہے۔ تو آپ ؐ نے فرمایا بغیر مہر کے نکاح کیسے ہوگا( بخاری)
قرآن مجید میں ارشاد ہے اپنی عورتوں کو مہر خوشی و رضامندی سے ادا کرو۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا ہو اور اس کو مہر ادا کرنے کا ارادہ نہیں ہو تو وہ زنا کاری کر رہا ہے۔
اس لئے قرآن،حدیث، فقہ، عقل و اخلاق ان تمام کاتقاضا  یہ ہے کہ مہر خوش دلی سے اد اکیا جائے۔ اسلام نے یہ اجازت بھی دی ہے کہ اگر مہر ادا کردینا مشکل ہو تو مہر کو مؤجل ل(اُدھار )رکھا جائے۔ مگر اس کے معنی ہر گز یہ نہیں کہ مہر مؤجل کی ادائیگی کی فکر ہی نہ کی جائے۔ اگر خدانخواستہ مجلس نکاح میں، رخصتی کے وقت اور پھر سالہاسال تک مہر کو باقی رکھا گیا تو اس میں یہ بات یقینی ہے کہ اب تاخیر کے بعد جب یہ مہر ادا کر لیا جائے تو وہ مکمل طور پر ادا ہوہی نہیں سکتا ۔ اس لئے کہ کرنسی کی گرتی ہوئی مالیت کی بنا پر یہ طے ہے کہ تعداد کے اعتبار سے گوکہ رقم مکمل ہوگی مگر اُس کی حیثیت اور مالیت بہت حد تک کم ہوچکی ہوگی مثلاً 1415؁ھ میں نکاح ہوا اور آج بیس سال کے بعد 1435؁ھ میں مہر ادا کیا جائے تو 1415؁ھ کے دس ہزار کی مالیت آج اتنی کم ہوگئی ہوگی جو 1415؁ھ کے پانچ ہزار کی تعدا د ہوگی۔
اس لئے جتنی جلد ہوسکے باقی ماندہ مہرا دا کرنے کی کوشش کی جائے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے زیادہ لازمی حق جس کی ادائیگی بہت ضروری ہے وہ حق ہے جس کی بنا پر تم نے کسی عورت کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔مہر کی ادائیگی اس درجہ لازم حکم ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی مر د نے مہرادا نہ کیا ہوا ور وہ فوت ہو جائے تو اُس کے مال میں سب سے پہلے مہر وصول کرکے اُس کی بیوہ کو دیا جائے اس کے بعد اس کی میراث تقسیم کی جائے، اور اُس میراث میں اُس عورت کا بھی حق ہے جو یا تو کل جائیداد کا چوتھا حصہ ہوگا، یا کل جائیدا کا آٹھواں حصہ۔ بہر حال مہر بہت لازمی حکم ہے ۔ اگر نکاح میںمہر کا تذکرہ بھی نہ ہوگا تو نکاح ایجاب و قبول کی بنا پر صحیح ہو جائے گامگر مہر خو بخود لازم ہوگا اور یہ مہر مثل ہوگا۔