امام مالکؒ عملی تواتر کے علم بردار

تحریر: محی الدین غازی
ترتیب: عبدالعزیز
یوں تو نماز تمام فقہاءتک عملی تواتر کے ساتھ پہنچی؛ تاہم امام مالکؒ نے عملی تواتر کی اس دلیل کو زیادہ اجاگر کرکے پیش کیا۔ امام مالک کے استاذ ربیعہؒ اپنے دور کے امام تھے، وہ علم اور دانائی میں اس قدر ممتاز تھے کہ ربیعة الا¿ی کے نام سے معروف ہوگئے تھے۔ ان کا ایک جملہ امام مالکؒ کی فقہ کی اساس قرار پایا۔ ان کا کہنا تھا : ”ایک ہزار آدمیوں کو ایک ہزار آدمیوں سے کوئی بات ملے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک آدمی سے کوئی بات ملے“۔ الف عن الف خیر من واحد عن واحد (حلیة الاولیائ)۔ اس طرح انھوں نے عملی تواتر اور قولی روایت کے درمیان فرق کو نمایاں کردیا۔
امام مالکؒ کے یہاں اس کی اہمیت بہت زیادہ تھی کہ انھوں نے اپنے زمانے اور اپنے سے پیشتر زمانے کے لوگوں کو کیا کرتے پایا؛ چنانچہ جب ان سے اذان اور اقامت کے الفاظ کو دو دو بار کہنے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا: ”اذان اور اقامت کے سلسلے میں میرے پاس وہی بات پہنچی ہے جس پر میں نے لوگوں کو عمل پیرا پایا، تو اقامت کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے الفاظ کو دو دو بار نہیں کہا جائے گا، اسی پر اب تک ہمارے شہر میں اہل علم کا عمل جاری ہے“۔ (موطا مالک)
امام شاطبیؒ فرماتے ہیں: ”امام مالکؒ اس عمل کی پوری رعایت کرتے تھے جو لوگوں کے تعامل میں زیادہ کثرت اور استمرار کے ساتھ ہو، اور اس کے سوا جو ہوتا اسے چھوڑ دیتے، خواہ اس کے حق میں احادیث موجود ہوں، ان کو تابعین کا زمانہ ملا تھا، تابعین کے عمل کو انھوں نے غور سے دیکھا تھا، ان تابعین کے یہاں ان اعمال پر استمرار تھا، جن پر صحابہؓ کے یہاں استمرار تھا کیونکہ ان کا اعمال پر استمرار صحابہؓ کے انہی اعمال پر استمرار سے ماخوذ تھا، اور ظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے یہاں انہی اعمال پر استمرار ہوسکتا تھا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں استمرار کے ساتھ رہے ہوں یا استمرار کی قوت میں رہے ہوں“۔ (الموافقات، 270/3)
امام شاطبیؒ نے امام مالکؒ اور امام ابو یوسفؒ کا ایک مکالمہ بھی ذکر کیا ہے، وہ یہ کہ ابو یوسفؒ نے مالکؒ سے اذان کے بارے میں پوچھا، مالک نے کہا آپ کو اس کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ تعجب ہے کہ ایک فقیہ اذان کے بارے میں پوچھتا ہے۔ پھر مالکؒ نے ان سے کہا، آپ کے یہاں اذان کیسے ہوتی ہے؟ انھوں نے اپنا طریقہ بتایا، تو مالک نے پوچھا یہ آپ لوگوں کے پاس کہاں سے آئی؟ ابو یوسف نے بتایا کہ جب بلالؓ شام آئے تھے تو لوگوں نے ان سے اذان دینے کی فرمائش کی تھی، تو ان کے بیان کے مطابق بلالؓ نے ایسی ہی اذان دی تھی۔ تب مالکؒ نے کہا، میں نہیں جانتا ایک دن کی اذان اور ایک دن کی نماز کیا ہے؟ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن ہیں، اور ان کے بعد ان کی اولاد، جو آپ کی زندگی میں اور آپ کی قبر کے پاس اور آپ کے خلفاءراشدینؓ کی موجودگی میں اذان دیتے رہے ہیں۔
اس مکالمے میں امام مالکؒ کی یہ بات بڑی وزن دار ہے کہ فقیہ کو اذان کے بارے میں پوچھنے کی کیا ضرورت۔ اذان اور نماز کا طریقہ کیسا ہو، یہ فقیہ کا میدان نہیں ہے، اس میں تو ساری امت کا علم برابر ہے۔ جس طرح ایک فقیہ روزانہ اذان سنتا اور نماز پڑھتا ہے، اسی طرح ایک عام آدمی بھی روزانہ اذان سنتا اور نماز پڑھتا ہے۔
امام مالکؒ کی یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اذان تو ایک مسلسل عمل ہے جو مسجد نبوی میں ایک زمانے سے جاری و ساری ہے۔ یہ برسہا برس سے جاری و ساری ہونا بذات خود بہت بڑی دلیل ہے۔
البتہ ابو یوسفؒ کا یہ کہنا کہ عراق اور شام کے لوگوں نے اذان کو صرف حضرت بلالؓ کی آمد پر ان سے ایک بار سن کر سیکھا تھا، محل نظر ہے؛ کیونکہ حضرت بلالؓ کے شام آنے سے پہلے ہی شام اور عراق میں اذان دینے اور نماز پڑھنے کا سلسلہ ہر طرف جاری و ساری تھا، اور ان ہزاروں صحابہ کرامؓ کے ذریعہ تھا جو شام اور عراق میں آکر بسے تھے، اور ان ہزاروں تابعینؒ کے ذریعہ بھی تھا جو ہر سال حج کیلئے مکہ اور مدینہ جاکر وہاں کی اذان اور نماز کو دیکھتے اور سنتے تھے۔ غالباً ابو یوسف کا مدعا یہ تھا کہ جس طرح حضرت بلالؓ سے مدینہ والوں نے اذان سنی اسی طرح حضرت بلالؓ سے شام والوں نے بھی اذان سنی ۔ یہ بھی بہت ممکن ہے کہ شام میں اذان دیتے وقت حضرت بلالؓ نے اس مسنون طریقے کی رعایت کی ہو جو ان کے زمانے میں شام میں رائج ہوگیا تھا۔
مالکی فقہ میں عملی تواتر کو بہت اہل دلیل کے طور پر اختیار کیا گیا ہے اور چونکہ امام مالک مدینہ میں تھے، اس لئے مدینے کے عملی تواتر سے ان کا خاص اور راست تعلق تھا، اس کے وہ عینی گواہ تھے، اور مدینہ کے عملی تواتر کی بنیاد پر اپنی رائے اختیار کرتے تھے، مدینہ کی تاریخی اہمیت نے اس دلیل میں اور زیادہ زور پیدا کر دیا تھا، تاہم بعد کے مالکی فقہاءنے عملی تواتر کی دلیل کو صرف مدینے کے ساتھ خاص کردیا، اور صرف اپنے مسلک کی تائید کیلئے اس کا استعمال کیا؛ حالانکہ عملی تواتر کی دلیل کے ساتھ نماز کا طریقہ عراق میں امام ابو حنیفہؒ کے پاس اور مکہ میں امام شافعیؒ کے پاس بھی پہنچا تھا۔
مشہور مالکی فقیہ علامہ قرافی اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں کہ اذان میں پہلی تکبیر کی تعداد سو ہے یا چار، وہ لکھتے ہیں: ”اذان میں جن مقامات پر اختلاف ہے اس میں ایک مقام تکبیر کا ہے، ہمارے نزدیک وہ دو دو بار ہے، امام شافعیؒ اور ابو حنیفہؒ کے نزدیک چار بار ہے۔ اس سلسلے میں صحیح حدیثیں الگ الگ ہیں۔ ہمارے مسلک کی رائے کو اہل مدینہ کے عمل کی وجہ سے ترجیح حاصل ہے کیونکہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو استقرار حاصل ہوا تھا اور شریعت مکمل ہو رہی تھی، اس وقت سے آپ کے اپنے رب کی طرف انتقال فرمانے تک، یہی آپ کی جائے سکونت رہا اور آپ کے بعد یہی خلفاءکی بھی جائے سکونت رہا۔ خاص اور عام سبھی اسے صبح اور شام سنتے تھے، اس طرح کہ اگلوں سے پچھلوں تک یہ تواتر کے ساتھ منتقل ہوتی رہی، تواتر کی یہ کیفیت اسے ظن سے یقین کے مقام تک پہنچا دیتی ہے جبکہ دوسری روایتیں صرف ظن کا فائدہ دیتی ہیں اور یقین سے ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا“۔ (الذخیرہ، 44/2)۔
قرافی کی یہ دلیل کہ تکبیر دوبار کہی جائے یہ عملی تواتر سے ثابت ہے، بہت مضبوط دلیل ہے، البتہ قرافی کا یہ ماننا درست نہیں ہے کہ دوسری رایوں کے حق میں عملی تواتر نہیں ہے، صرف روایتیں ہیں جو صحیح ہونے کے باوجود ظن کا فائدہ دیتی ہیں اور عملی تواتر کی دلیل کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہیں۔ انصاف اور حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ چار بار تکبیر کے قائل ہیں ان کے حق میں بھی جہاں ایک طرف صحیح حدیثیں ہیں، وہیں عملی تواتر کی مضبوط دلیل ان کے ساتھ بھی ہے۔ غرض یہ کہ مالکیہ کا یہ موقف بہت مضبوط ہے کہ عملی تواتر سے نماز کا جو طریقہ امام مالک تک پہنچا وہ قطعی طور پر مسنون طریقہ ہے، البتہ مالکیہ کا یہ موقف کمزور ہے کہ امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے پاس اسی قدر مضبوط عملی تواتر کے ساتھ نماز کا طریقہ نہیں پہنچا ہے۔ عملی تواتر کے سلسلے میں ایک اشکال کا ازالہ:
اس موقع پر کوئی سوال کرسکتا ہے کہ عملی تواتر کی دلیل صرف فرض نماز کے طریقے کیلئے خاص ہے یا شریعت کے تمام مسائل میں یہ مانا جاسکتا ہے کہ فقہاءنے جو بھی رائے اختیار کی وہ عملی تواتر کی بنیاد پر اختیار کی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عملی تواتر ان مسائل میں وجود پذیر ہوتا ہے جو ہر خاص و عام کو بار بار در پیش ہوتے ہیں، جو مسائل کبھی کبھار پیش آتے ہیں، ان میں عملی تواتر کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے، خاص و عام کو بار بار پیش آنے والے مسائل بہت سے ہوسکتے ہیں، جیسے اذان کا مسئلہ ہے جو بلا تفریق سب لوگ زندگی بھر صبح سے شام تک بار بار سنتے رہتے ہیں۔ تکبیر تشریق کے بارے میں بھی فقہاءیہی کہتے ہیں کہ ایام تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد کہنا عملی تواتر سے ثابت ہے، پوری دنیا میں اور ہر دور میں تمام مسلمان جب بھی ایام تشریق آتے ہیں یہ تکبیر کہتے رہے ہیں۔
البتہ جو مسائل کبھی کبھی پیش آتے ہیں اور کچھ خاص لوگوں کو ہی پیش آتے ہیں، ان میں عملی تواتر کا حوالہ فقہاءبھی نہیں دیتے ہیں۔ جیسے حدود و تعزیرات کا معاملہ ہے۔ بار بار پیش آنے والے معاملات میں فرض نماز کا معاملہ سب سے نمایاں اور ممتاز ہے کہ یہ تو دین کا ستون ہے اور اس کو تو بہت سختی کے ساتھ ویسے ہی انجام دینا ہے جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا اور بلا استثناءسب کو انجام دینا ہے۔ عملی تواتر سے نماز کے خاص تعلق کو فقہاءبھی اہمیت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، مالکی فقیہ علامہ حطاب صاحب طراز کے حوالے سے لکھتے ہیں۔”مالک نے اس عمل کو دلیل بنایا جس پر انھوں نے لوگوں کو پایا تھا اور یہ ان کے نزدیک سب سے قوی دلیل ہے، کیونکہ نماز تمام لوگوں پر فرض ہے اور تمام لوگوں سے اس کی انجام دہی مطلوب ہے، اس لئے اس کے بارے میں وہی عمل مطلوب مانا جائے گا جو ہر طرف رائج اور عام ہو۔ اس میں مرجع کی حیثیت سے متصل عمل کی ہے، خاص طور سے اہل مدینہ کے عمل کی، کیونکہ وہ دار ہجرت ہے، وہاں شریعت کو استقرار ملا اور اللہ کے رسول نے وفات پائی۔ آپ کے بعد خلفائؓ نے جماعتوں میں نمازیں قائم کیں اور اسی طرح جس طرح آپ کی وفات کے دن قائم کی جاتی تھیں۔
اور اسی کیفیت کے ساتھ بعد والوں کا عمل پہلے کے لوگوں سے جڑتا چلا گیا“۔ (مواہب الجلیل، 530/1)
علامہ ابن تیمیہؒ بھی اس کی صر احت کرتے ہیں کہ نماز کی بنیادی باتیں جن پر کوئی اختلاف نہیں ہے، وہ تو عملی تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، وہ لکھتے ہیں:
”اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ جن چیزوں کی عام لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے وہ معلوم ہیں بلکہ عام لوگوں یا خاص لوگوں کے درمیان متواتر ہیں، جیسے نمازوں کی تعداد، ان کے رکوع کی مقدار، ان کے اوقات۔ زکوٰة کتنی فرض ہے اور اس کا نصاب کیا ہے۔ رمضان کا مہینہ کون سا ہے۔ طواف اور وقوف اور میقاتیں وغیرہ“۔ (مقدمہ فی اصول التفسیر)
البتہ علامہ ابن تیمیہؒ اور دوسرے لوگ اس بات کو بیان نہیں کرتے کہ نماز کے جن مسائل میں ایک سے زیادہ طریقے عام لوگوں تک پہنچے وہ بھی عملی تواتر کے ساتھ پہنچے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنے عظیم تواتر کے ساتھ نماز امت کو ملی ہے تو پھر لوگوں کی نمازوں میں اتنا زیادہ اختلاف کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو نماز کا طریقہ سکھایا، اس طریقے میں کچھ اعمال ایسے تھے جنھیں سب کیلئے ہمیشہ ایک طرح سے انجام دینا ضروری تھا اور ان میں تنوع کی کوئی گنجائش نہیں تھی، جیسے دوبار سجدہ کرنا اور ایک بار رکوع کرنا، فجر میں دو رکعتیں اور مغرب میں تین رکعتیں پڑھنا۔ اس طرح کے اعمال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ایک طرح سے انجام دیئے، اور ایک طرح سے انجام دینا امت نے سیکھا اور سکھایا، اور امت ان کو صدیوں سے ایک ہی طرح سے انجام دیتی آرہی ہے۔
تاہم نماز کے کچھ اعمال ایسے تھے جن میں تنوع کی گنجائش تھی۔ ان کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زائد طرح سے انجام دیا، اور امت نے بھی ایک سے زائد طرح سے انجام دینا سیکھا۔ چنانچہ ہر مسلمان کیلئے گنجائش تھی کہ وہ جب چاہے نماز کے ان متعدد مسنون طریقوں میں سے جو طریقہ چاہے اور جب چاہے اختیار کرلے، جب چاہے آمین آواز کے ساتھ کہہ دے اور جب چاہے آمین بلا آواز کے کہے، یہ گنجائش نہیں رکھی کہ تشہد کوئی آواز کے ساتھ پڑھے اور کوئی بنا آواز کے، لیکن خود تشہد کئی طرح کے سکھائے کہ جس کا جی چاہے وہ کوئی ایک تشہد پڑھ لے۔
شروع میں تو سب لوگ سب طرح سے نماز پڑھتے تھے، تاہم جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد مسلمان بڑے خطوں میں پھیل گئے تو یہ طریقے بھی پھیل گئے اور اس طرح پھیلے کہ کسی علاقے میں کسی طریقے کو زیادہ رواج ملا تو کسی علاقے میں کسی دوسرے طریقے کو رواج ملا لیکن یہ سب طریقے وہی تھے جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا تھا یا جن کی اجازت تھی، جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن مجید مدینہ کے اندر مختلف قرا¿توں کے ساتھ پڑھا جاتا تھا لیکن کچھ عرصے کے بعد الگ الگ علاقوں میں الگ الگ قرا¿تیں رواج پاگئیں اور خود مدینہ میں کسی ایک قرا¿ت کو خاص رواج ملا اور باقی قرا¿توں سے عام لوگ نامانوس ہوگئے۔
جب فقہ کی تدوین کا زمانہ آیا اور اس کام کیلئے فقہاءسامنے آئے اور دیگر مسائل کے ساتھ نماز کے طریقے کی بھی تدوین کی گئی تو ہر فقیہ نے اپنے علاقے میں رائج نماز کے طریقے کو اختیار کرکے اس تدوین میں شامل کیا، اس طرح امت میں نمازوں کے طریقوں کے سارے باہمی فرق مدون کر دیئے گئے۔
طریقوں کے فرق یا اختلاف کی اصل حقیقت تو یہ تھی کہ یہ سب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے اور پسند کئے طریقے تھے، اور ایک مسلمان کیلئے اس کی پوری گنجائش تھی کہ وہ جب چاہے نماز کے جس طریقے پر بھی عمل کرلے، لیکن بعد کے لوگوں نے انہی طریقوں سے اپنے یا اپنے اماموں کے پسند کئے ہوئے طریقوں کو زیادہ اہمیت دینی شروع کر دی۔
اپنے اپنے طریقے کو افضل اور راجح قرار دینے کیلئے بالعموم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیثوں اور صحابہؓ و تابعینؒ سے مروی آثار کو دلیل بنایا گیا اور ایک زبردست حقیقت پس پردہ چلی گئی کہ نماز کے یہ سارے طریقے امت کو عملی تواتر کے ذریعہ ملے ہیں۔ اگر یہ حقیقت ذہنوں میں تازہ رہتی تو نماز کے مختلف طریقے اختلاف کا سبب نہیں بنائے جاتے۔
عملی تواتر کیا ہے؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک لاکھ صحابہؓ نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور آپ کی طرح خود نماز پڑھی، پھر صحابہؓ کے بعد والی لاکھوں پر مشتمل دوسری جنریشن (نسل) نے صحابہؓ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور ویسے ہی نماز پڑھی، اسی طرح تیسری نسل نے کیا، اس دوران فقہاءکا زمانہ آیا اور انھوں نے اس نماز کی باقاعدہ فقہی تدوین کر دی۔ یہی وہ عظیم عملی تواتر ہے جس کے راستے سے امت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ملی۔
اصولِ فقہ کی مشہور کتاب ’اصول الشاشی‘ میں عملی تواتر کی تعریف یوں کی گئی ہے:
متواتر وہ ہے جسے کسی ایک گروہ نے ایک دوسرے گروہ سے اخذ کرکے منتقل کیا ہو، اس طرح کہ یہ نہیں تصور کیا جاسکتا ہو کہ اتنی بڑی تعداد جھوٹ پر جمع ہوجائے گی اور یہ سلسلہ اسی طرح تم تک پہنچے، مثال کے طور پر جیسے قرآن مجید کو، رکعتوں کی تعداد کو اور زکوٰة کی مقدار کو نقل کیا گیا۔ (اصول الشاشی، ص:272)
علامہ شاشیؒ نے تواتر کی جو تعریف بیان کی ہے اور اس کی جو مثالیں دی ہیں، ان میں صرف رکعتوں کی تعداد ہی نہیں فرض نمازوں کے تمام اعمال کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔
عملی تواتر کی بہت واضح تعریف اصول کے فقہ کے مشہور مصنف و محقق عبدالوہاب خلاف نے اس طرح کی ہے؛
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والوں کو سامنے رکھا جائے تو سنت کی تین قسمیں ہیں۔ سنت متواترہ، سنت مشہورہ اور سنت آحاد۔ سنت متواترہ وہ ہے جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنے بڑے گروہ نے روایت کیا ہو کہ عام طور سے اتنے لوگ جھوٹ پر اتفاق نہیں کرسکتے ہوں، ایک تو ان کی تعداد زیادہ ہو، پھر ان کی دیانت داری اور ان کے علاقے اور ماحول مختلف ہوں اور پھر اس گروہ سے ایسے ہی ایک اور گروہ نے روایت کی ہو، یہاں تک کہ وہ ہم تک ایسی سند سے پہنچے جس سند کے ہر درجے میں راویوں کا اتنا بڑا گروہ ہو کہ جن کا جھوٹ پر جمع ہوجانا ناقابل تصور ہو، اور یہ کیفیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کرنے سے ہمارے پاس پہنچنے تک باقی رہے۔ اس قسم میں نماز کی ادائیگی کی عملی سنتیں اور روزہ، حج، اذان اور دیگر شعائر اسلام کی عملی سنتیں آتی ہیں، جن کو مسلمانوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دیکھ کر یا سن کر اخذ کیا اور وہ بھی ایسے کہ جم غفیر نے جم غفیر سے نقل کیا، کسی زمانے کے فرق کے بغیر اور کسی علاقے کے فرق کے بغیر؛ البتہ قولی سنتوں میں حدیث متواتر بہت کم پائی جاتی ہے“۔
مطلب یہ ہے کہ نماز اور دیگر شعائر اسلام سے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تو عظیم تواتر کے ساتھ منتقل ہوا لیکن اللہ کے رسول کے اقوال تواتر کے ساتھ بہت کم منتقل ہوسکے۔
عملی تواتر کی متبادل تعبیریں:
عملی تواتر کیلئے فقہاءایک لفظ توارث کا استعمال کرتے ہیں ، توارث کا مطلب وہ عمل ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا آیا ہو۔ مثال کے طور پر تشہد کو بنا آواز کے پڑھنا شرعاً مطلوب سمجھا گیا ہے، اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے حنفی فقیہ علامہ سرخسی لکھتے ہیں: ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ تشہد کو آواز کے ساتھ پڑھنا ہے اور لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے آج تک تشہد کو نسل در نسل بنا آواز کے پڑھتے آئے ہیں، اور توارث تواتر کی طرح ہے۔ (المبسوط، 32/1)
بہت سے فقہاءعملی تواتر کیلئے نقل الخلف عن السلف کی تعبیر بھی استعمال کرتے ہیں، مطلب یہ کہ وہ عمل جو اگلوں سے پچھلوں میں منتقل ہوتا آیا ہے۔
فرض نمازوں کی قرا¿ت کے سلسلے میں پوری امت کا موقف یہ ہے کہ فجر کی دونوں رکعتوں میں اور مغرب اور عشاءکی پہلی دو رکعتوں میں امام کو آواز کے ساتھ قرا¿ت کرنا ہے؛ جبکہ باقی رکعتوں میں اور ظہر اور عصر کی تمام رکعتوں میں بنا آواز کے قرا¿ت کرنا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ تمام فقہاءبلکہ ساری امت کا اس پر اتفاق ہے مگر اس کی پشت پر کوئی واضح اور صحیح حدیث موجود نہیں ہے، جن روایتوں کو بیان کیا جاتا ہے وہ یا تو واضح نہیں ہیں یا پھر صحیح نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور سے فقہاءاس مسئلہ کی دلیل میں عملی تواتر کو پیش کرتے ہیں۔
بڑے شافعی فقیہ علامہ شیرازیؒ لکھتے ہیں: ”امام کیلئے مستحب ہے کہ صبح میں اور مغرب اور عشاءکی پہلی دو رکعتوں میں جہری قرا¿ت کرے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اگلوں سے پچھلوں نے یہی نقل کیا ہے“۔ آگے لکھتے ہیں: ”ظہر اور عصر اور مغرب کی تیسری رکعت اور عشاءکی آخری دونوں رکعتوں میں سری قرا¿ت کرے، کیونکہ اگلوں سے پچھلوں نے یہی نقل کیا ہے“۔ (المہذب، 142/1)
اس پر علامہ نوویؒ نے لکھا کہ اس دلیل کی تائید میں صحیح حدیثیں بھی ہیں، لیکن تلاش کے باوجود مجھے کوئی واضح اور صحیح حدیث نہیں مل سکی۔
اسی مسئلے میں علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ نے بھی یہی دلیل پیش کی اور کہا: ”اس میں دلیل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور وہ ثابت اس طرح ہے کہ اگلوں سے پچھلوں نے اسے نقل کیا ہے“۔ (المغنی، 407/1)
ایک دوسری مثال یہ ہے کہ فجر کے علاوہ باقی چار نمازوں میں دو رکعت کے بعد تشہد کےلئے بیٹھنا مطلوب ہے، اس پر پوری امت کا اتفاق ہے، اس کی دلیل میں فقہاءعملی تواتر کو پیش کرتے ہیں۔
علامہ شیرازی شافعیؒ لکھتے ہیں: ”اگر نماز دو رکعت سے زیادہ والی ہو تو دو رکعتوں کے بعد تشہد کیلئے بیٹھے گا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اگلوں سے پچھلوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل نقل کیا ہے“۔ (المہذب، 148/1)
علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ اس دلیل کی مزید تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اگلوں سے پچھلوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے، اور امت اسے اپنی نمازوں میں کرتی ہے“۔ (المغنی، 382/1)
علامہ شیرازی شافعیؒ جمعہ کی نمازمیں جہری قرا¿ت کے مسنون ہونے کی دلیل یہی دیتے ہیں کہ اگلوں سے پچھلوں نے اسے نقل کیا ہے۔ (المہذب، 212/1)
علامہ شیرازی نقل الخلف عن السلف کو عید کی نماز میں جہری قرا¿ت کیلئے بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ (المہذب، 225/1)
البتہ راقم کا خیال ہے کہ شافعی اور حنبلی فقہاءتواتر کی دلیل کو صرف وہاں پر ذکر کرتے ہیں جہاں اس دلیل کو ذکر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا؛ یعنی جہاں بہت واضح طور سے صحیح احادیث سے استدلال کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ عام طور سے یہ وہ مقامات ہیں جہاں فقہاءکے درمیان اختلاف نہیں ہوتا ہے، اور کوئی واضح صحیح حدیث دلیل کے طور پر سامنے نہیں ہوتی ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ امت کو عملی تواتر کے ذریعہ یہ طریقہ ملا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جس طرح مذکورہ متفق علیہ مسائل میں عملی تواتر دلیل ہے، اسی طرح نماز کے مختلف فیہ مسائل میں بھی عملی تواتر کی دلیل ہی اصل دلیل ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز کی زیر بحث تمام صورتیں درست ہیں۔ (جاری)
موبائل: 9831439068 azizabdul03@gmail.com