انسانی زندگی میںخوف خدااورفکرآخرت کی اہمیت

مولانا اسرارالحق قاسمی
ایمان کے بعد انسان کی زندگی بنانے سنوارنے اور اسے فلاح و کامرانی سے ہمکنار کرنے میں جوچیز سب سے زیادہ کارگرہے وہ اللہ تعالیٰ کا خوف ،اس کی خشیت اور آخرت کی فکر ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبیﷺ اپنی مجلسوں میں جہاں خوف وفکرکے فوائدوفضائل بیان فرماتے تھے وہیں موقع بموقع اللہ کے غضب اوراس کے قہر و جلال کوبھی بیان فرماتے،تاکہ مسلمانوں میں امید اور خوف دونوں کیفیتیں پیداہوجائیں اور ان کے اعمال میں ایک قسم کا توازن قائم رہے۔صحابہؓجب آپ ﷺکی مجلس میں حاضر ہوتے اور آپانھیں نصیحت فرمارہے ہوتے توایسا محسوس ہوتاکہ وہ جنت اور جہنم کوگویا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں ،اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اس مجلس کے علاوہ بھی ان کے ذہن میں یہ کیفیت برقراررہتی اور وہ اپنے شب وروز کی مصروفیات میں بھی اسی استحضارکے ساتھ کوئی بھی عمل کیا کرتے تھے۔مختلف مواقع پر اس سلسلے میں آپ نے جوارشادات فرمائے اور صحابہ کے واسطے سے قیامت تک آنے والی پوری امت کو جوتعلیم دی ہے،اس سے تمام مسلمانوں کوواقف ہونا چاہئے ،کیوں کہ خدا کا خوف اور فکرِ آخرت یہ دونوں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے بغیر نہ توہمارے اعمال بہتر ہوسکتے ہیں اور نہ ہمیں اپنی اصل حیثیت اور دنیا میں آنے کے اصل مقصدکا پتا لگ سکتا ہے۔یہ دونوں اوصاف ایسے ہیں کہ انہی کی وجہ سے انسان کے دل میں خیر کا کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتاہے جبکہ اگر خدا کا خوف اور آخرت کی فکر نہ ہوتو انسان بے لگام ہوجاتاہے اورپھراس کا نفس جو چاہے وہی کرتا ہے۔اللہ کے نبیﷺنے مختلف احادیث میں اس حوالے سے بعض اہم چیزوں کی نشان دہی کی ہے،جس سے ہر مسلمان کو واقف ہونا چاہئے۔ایک حدیث میں جسے حضرت ابوہریرہؓنے روایت کیاہے،فرماتے ہیں:”قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اگر(اللہ کے قہروغضب اور اس کے جلال کے بارے میں)تمہیں وہ سب معلوم ہوجائے جومجھے معلوم ہے تو تمہاراہنسنابہت کم ہوجائے اور رونا زیادہ ہوجائے“۔(صحیح بخاری)مطلب یہ ہے کہ اللہ کی شان بے نیازی اور اس کے جلال اور آخرت کے دن کے سخت حالات کے بارے میں اگر تم لوگوں کوبھی پتا لگ جائے جیسا کہ مجھے معلوم ہے،توتم سب ہنسنا بند کردوگے اور ان حالات کے خوف سے زیادہ تر رونے لگوگے۔اس حدیث میں اللہ کے نبیﷺنے مسلمانوں کے دل میں آخرت کی فکر اور خدا کا خوف دلانے کے لئے ہی یہ بات کہی ہے ،یہ حدیث ذرا مجمل ہے،ایک دوسری حدیث میں اس کو مزیدتفصیل سے بیان کیا گیا ہے،حضرت ابوذر غفاری ؓسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا”میں غیب کی وہ چیزیں دیکھتا ہوںجو تم نہیں دیکھ سکتے اور میں وہ آوازیں سنتاہوں جو تم نہیں سن سکتے،آسمان چرچرارہاہے اور وہ اسی لائق ہے کہ چرچرائے،قسم ہے اس رب ذوالجلال کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،آسمان میں چارانگل بھی جگہ نہیں ہے جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ کے حضور سجدہ ریزنہیں ہے،اگر تم وہ باتیں جانتے جو میں جانتاہوں توتم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے اور بسترپر بیویوں سے بھی لطف اندوزنہ ہوسکتے اور اللہ سے نالہ فریاد اور گریہ وزاری کرتے ہوئے جنگلوں اور بیابانوں کی طرف نکل جاتے۔اس حدیث کونقل کرنے کے بعد حضرت ابوذرؓکہتے ہیں کہ کاش میں ایک درخت ہوتاجو کاٹ دیاجاتا“۔(مسنداحمد)