مسلمان اپنے شعارتک کوبھولتاچلاجارہاہے

محمد صدرعالم قادری مصباحی
خدائے وحدہ¾ لاشریک ہرشئی پرقادرہے۔وہ کسی بھی معاملہ میں ہرگزہرگز کسی کامحتاج نہیں۔اس نے اپنی قدرت کاملہ سے اس دنیاکووجودبخشاپھراِس کوطرح طرح سے سجایااورپھرانسانوں کواس میں بسایا۔اورانسانوں کی ہدایت کے لئے وقتاً فوقتاًرُسُل اورانبیاءعلیہم الصلوٰة والسلام کومبعوث فرمایا۔وہ اگرچاہے توانبیاءعلیہم الصلوٰة والسلام کے بغیربھی بگڑے ہوئے انسانوں کی اصلاح کرسکتاہے۔لیکن اس کی مشیت ہی کچھ اس طرح ہے اوراس نے یہی پسندفرمایاکہ میرے بندے ہی ”امربالمعروف ونہی عن المنکر“کریں اوراس طرح وہ میری راہ میں غایت درجہ کی مشقتیں وصعوبتیںجھیلیںاورمیری بارگاہ عالیہ سے درجات رفیعہ حاصل کریں۔چنانچہ ”امربالمعروف ونہی عن المنکر“کے منصب عالی کی بجاآوری کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے مقدس رسولوں اورنبیوں کودنیامیں بھیجتارہااورآخرمیں اپنے پیارے حبیب حضرت محمدمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوبھیجااورآپ ﷺ پرنبوت کوختم فرمادیا۔اورپھریہ عظیم الشان منصب اپنے پیارے محبوب ﷺ کی امت کے سپردکیاتاکہ لوگ خودہی آپس میں ایک دوسرے کی اصلاح کرتے رہیںاورامربالمعروف کے اس اہم فریضہ کوپوری ذمہ داری سے انجام دیتے رہیں۔اوراب اس طرح رہتی دنیاتک ہرمسلمان اپنی اپنی جگہ پرمُبلِّغ ہے۔وہ جس کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتاہو۔یعنی خواہ وہ عالِم ہویاامام مسجد،پیرہویامرید،تاجرہویاملازم،افسرہویامزدور،حاکم ہویامحکوم،الغرض جہاں جہاں وہ رہتاہواورجہاں کام کاج کرتاہواپنی لیاقت وصلاحیت کے مطابق اپنے گِردوپیش کے ماحول کوسنتوں کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے کوشاں رہے اورصلوٰة وسنت کی تحریک مکمل طورسے جاری رکھے۔
خدائے وحدہ¾ لاشریک نے قرآن مقدس میں مختلف مقامات پرامربالمعروف ونہی عن المنکرکی ترغیب دلائی ہے۔چنانچہ ارشادربانی ہے کہ:” ولتکن منکم امّة یدعون الی الخیرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکرواولٰئک ھم المفلحون“ اورتم میں ایک گروہ ایساہوناچاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اوراچھی بات کاحکم دیں اوربری سے منع کریں اوریہی لوگ مراد کوپہنچے“۔(ترجمہ:کنزالایمان،پارہ4،آیت نمبر104،سورہ آل عمران)
اس آیت مقدسہ کی تفسیربیان کرتے ہوئے مفسرشہیرحکیم الامت حضرت مولانامفتی احمدیارخان نعیمی رحمة اللہ علیہ تفسیرنعیمی میں فرماتے ہیںکہ:ائے مسلمانوں!تم سب کوایک ایسی جماعت ہوناچاہئے یاایسی جماعت بنویاایسی جماعت بن کررہوجوتمام ٹیڑھے لوگوں کوخیرکی دعوت دے،کافروں کوایمان کی،فاسقوں کوتقویٰ وطہارت کی،غافلوں کوبیداری کی،جاہلوں کوعِلم ومعرفت کی،خشک مزاجوں کولذت عشق کی ،سونے والوں کوبیداری اوراچھی باتوں،اچھے عقیدے،اچھے عملوں کازبانی،قلمی،عملی،قوت سے ،نرمی سے اورحاکم ومحکوم گرمی سے حکم دے،اوربری باتوں ،برے عقیدے ،برے کاموں،برے ارادے،بُرے خیالات سے لوگوں کوزبان ،دل،قلم،تلوارسے اپنے اپنے منصب کے مطابق روکے ۔مزیدفرماتے ہیں کہ سارے مسلمان مبلغ ہیں سب پرہی فرض ہے کہ لوگوں کواچھی باتوں کاحکم دیں اوربُری باتوں سے روکیں۔مطلب یہ ہے کہ جوشخص جتناجانتاہے اُتناہی دوسرے مسلمان بھائی تک پہنچائے جس کی تائیدمیں آپؒحدیث پاک نقل کرتے ہیں کہ حضورتاجدارمدینہ،سرورقلب وسینہ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ”بلّغواعنّی ولوآیة“ میری طرف سے پہنچادواگرچہ ایک ہی آیت ہو۔قرآن مقدس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں یہ تاکیدفرمائی ہے کہ تم میں سے ایک ایساگروہ اورمبلغین کی ایک ایسی تنظیم ہونی چاہئے جولوگوں کونیکیوں کاحکم کرتی رہے اوربرائیوں سے منع کرتی رہے۔آج دنیامیں عیسائیوں اوریہودیوں کی مذموم تحریکیں توہرجگہ اپنے مذہب کی سالمیت وبقاکے لئے سرگرداں ہیں۔مگرآہ!بے چارہ ستم رسیدہ مسلمان!! اِسے دنیاکے دھندوں اورتجارتوں سے ہی فرصت کہاں؟ اِس دورکے مسلمانوں نے تو”کھاو¿ پیواورجہان بناو¿“کے نعرہ ہی کومقصدحیات سمجھ رکھاہے۔اِسے کہاں پڑی ہے کہ یہ صلوٰة وسنت کی دوسروں کوتلقین کرے۔اِسے توخودنِت نئے فیشن اپنانے ہی سے کہاں فرصت ہے بلکہ اس کے پاس تواتناوقت بھی کہاں جواطمینان وسکون کے ساتھ نماز ہی پڑھ سکے اوروہ دَرد بھرادِل بے چارہ کہاں سے لائے جوقرآن وسنت کی محبت وچاہت سے کامل طورپر لبریزہو۔
امربالمعروف ونہی عن المنکرسے متعلق چندحدیثیں ملاحظہ ہوں:
(۱)حضرت سیدناابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیایارسولَ اللّٰہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیامشرکین سے جنگ کے بے غیربھی جہادہے؟آپ ﷺ نے فرمایاہاں۔ائے ابوبکرؓ اللہ تعالیٰ کے ایسے مجاہدین بھی زمین پرہیں جوکہ اُن شہداءکرام سے افضل ہیں جوزندہ ہیں،انہیں روزی ملتی ہے۔یہ زمین پرچل رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ آسمان کے فرشتوں کے سامنے فخرفرماتاہے ۔ان کے لئے جنت سجائی جاتی ہے ۔حضرت ابوبکرصدیقؓ نے عرض کیایارسواللہ! ﷺ وہ کون ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایاکہ :نیکی کاحکم کرنے والے ،بُرائی سے روکنے والے،اللہ تعالیٰ کی خاطردشمنی رکھنے والے ۔پھرارشادفرمایا:اس ذات کی قسم !جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے کہ بندہ بلندترین مکان میں ہوگاجوشہداءکے مکانات سے بلندہوگاہرمکان کے تین سو(300)دروازے ہونگے یاقوت اورسبززَمُّردکے ہردروازے پرروشنی ہوگی۔ایساآدمی تین لاکھ حوروں سے نکاح کرے گاجوانتہائی پاک بازاوربے حدخوبصورت ہوںگی،جب بھی وہ کسی ایک کی طرف دیکھے گا،تووہ کہے گی،”آپ نے فلاں دن اللہ تعالیٰ کاذکرکیااورآپ نے اس طرح نیکی کاحکم دیااوربرائی سے منع کیا“الغرض جب بھی وہ کسی حورکی طرف دیکھے گا تووہ نیکی کاحکم کرنے اوربرائی سے روکنے کی وجہ سے اِس کاایک اعلیٰ وارفع مقام بتائے گی۔ (مکاشفة القلوب)
(۲)حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی بارگاہ نبوت ﷺمیں حاضرہوا،آپ ﷺ مکہ شریف میں تھے ،کہنے لگا”آپ ﷺہی ہیں جورسول اللہ ہونے کادعویٰ رکھتے ہیں؟آپ ﷺنے ارشادفرمایا”ہاں“۔سائل نے پوچھااللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے زیادہ محبوب عمل کیاہے؟آپنے ارشادفرمایااللہ تعالیٰ پرایمان لانا۔پوچھاپھرکون سا؟ارشادفرمایا،بھلائی کی تلقین کرنااوربرائی سے روکنا۔پھرپوچھا کہ حق تعالیٰ کے یہاں سب سے ناپسندیدہ عمل کون ساہے ؟ارشادفرمایا،شرک کرنا۔سائل نے عرض کیا،پھرکون سا؟ارشادفرمایا،قطع رحمی کرنا۔سائل نے پوچھااس کے بعدکون ساعمل براہے؟آپ ﷺ نے ارشادفرمایا ”امربالمعروف ونہی عن المنکر“کوچھوڑدینا۔(تنبیہ الغافلین)
(۳)نبی اکرم ،نورمجسم ،سیدعالم ،شفیع امم ﷺ نے ارشادفرمایاکہ:تم میں جوشخص بری بات دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اوراگراس کی استطاعت نہ ہوتوزبان سے بدل دے اوراس کی بھی استطاعت نہ ہوتودل سے یعنی اُسے دل میں براجانے ۔(مسلم شریف)
محدثین کرام اس حدیث مبارکہ کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اُمراءاورحکام قوت کے ساتھ برائیوں کوروکےں،علمائے کرام زبان سے نیکیوں کاپرچارکریںاوربرائیوں سے بازرہنے کی لوگوں کوہمیشہ تلقین کریں۔اورعوام الناس کم ازکم دل میں برائی کوبُراضرورجانیں۔اس کے معنی ہرگزیہ بھی نہیں ہیںکہ زبان سے امربالمعروف کرناصرف اورصرف علمائے کرام ہی کامنصب ہے دوسراکوئی اب کسی کوصلوٰة وسنت کی ترغیب دے ہی نہیں سکتا۔بلکہ یہ بات ذہن نشیں رکھیں کہ جب کوئی گناہ کررہاہواور غالب گمان یہ ہے کہ ہم اُسے کہیں گے تووہ شخص بات مان جائے گا۔اوربری بات وعادت سے بازآجائے گا۔توامربالمعروف واجب ہے۔اوراگرگمان غالب یہ ہے کہ وہ طرح طرح کی تہمت باندھے گااورگالیاں دے گاتوترک کرناافضل ہے اوراگرمعلوم ہوکہ ہمیں مارے گااورہم صبرنہ کرسکیں گے یااس کی وجہ سے فتنہ وفسادپیداہوگا،آپس میں لڑائی ٹھن جائے گی،جب بھی چھوڑناافضل ہے اوراگرمعلوم ہوکہ مجھے مارے گا تومیں صبرکرلوںگاتوجوایسے شخص کوبرے کام سے منع کرے تویہ شخص مجاہدہے اوراگرمعلوم ہے کہ وہ مانے گانہیں ،مگرنہ مارے گا،نہ گالیاں دے گا تواسے اختیارہے اورافضل یہ ہے کہ امربالمعروف کرے۔
(۴)حضرت نعمان بن بشیررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے دوجہاں ﷺ کوفرماتے ہوئے سناکہ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں نرمی یاسستی کرنے والے ،اوران حقوق کوضائع کرنے والے،اوران کی حفاظت کرنے والے ،ان تین قسم کے لوگوں کی طرح ہیں جوبحری جہاز میں سوارتھے،انہوں نے اس کی منزلیں باہم تقسیم کرلیں۔ایک کوبالائی(اوپروالی) دوسرے کودرمیانی اورتیسرے کوپہلی منزل ملی۔سفرجاری تھاکہ نچلی منزل والا ایک شخص کلہاڑالے آیا،ساتھی کہنے لگے کیاکرتاہے؟تووہ کہنے لگااپنی منزل میں سوراخ کرناچاہتاہوں اس سے پانی بھی قریب ہوجائے گااوردیگرحاجات کے لئے بھی آسانی رہے گی۔یہ سن کربعض نادان لوگ تویوں کہنے لگے اسے دفع کرو!اپنے حصہ کی منزل میں جوچاہے کرے دوسرے سمجھداربولے ہرگزایسانہ کرنے دوورنہ یہ ہمیں بھی ڈبوئے گااورخودبھی غرق ہوگاپس اگروہ لوگ اس شخص کاہاتھ پکڑتے ہیں تووہ خودبھی بچتاہے اوریہ لوگ بھی بچتے ہیں۔اوراگراسے چھوڑتے ہیں تووہ خودبھی ہلاک ہوگااورانہیں بھی ہلاک کرے گا۔(تنبیہ الغافلین)
(۵)حضورنبی اکرم ،نورمجسم ،سیدعالم ﷺ کافرمان عالیشان ہے کہ:قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !یاتوتم اچھی بات کاحکم کروگے اوربُری بات سے منع کروگے،یااللہ تعالیٰ تم پراپناجلدعذاب بھیجے گا۔پھردعاکروگے اورتمہاری دعاقبول نہ ہوگی۔(جامع الترمذی)
ایک اورحدیث پاک میں آتاہے کہ چندمخصوص لوگوں کے عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سب لوگوں کوعذاب نہیں کرے گامگرجب کہ وہاں بُری بات کی جائے اوروہ لوگ منع کرنے پرقادرہوں اورمنع نہ کریں تواب عام وخواص سب کوعذاب ہوگا۔
میرے بزرگوںاوردوستوں !آج دنیامیں مسلمانوں کی جوحالت ہے وہ کسی سے مخفی وپوشیدہ نہیں ۔ہرطرف ہی بے عملی،بے حیائی،بے شرمی،بدزبانی،بدکلامی،بدخلقی،بدمزاجی،تنگ نظری،بغض،دشمنی،کینہ،جلن وحسد،چوری،ڈاکہ زنی،شراب نوشی،زناکاری،اغلام بازی،فتنہ پروری اورفسادانگیزیوں کادَوردَورہ ہے اورکوئی کسی کوٹوکنے والا نظرنہیں آتااور مسلمان عملی طورپرتنزل کے عمیق گڑھے کی طرف تیزی سے گرتاچلاجارہاہے۔مسلمان اپنے شعائرتک کوبھولتاچلاجارہاہے۔الحمدللہ !ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت تواب بھی قدرغنیمت ہے مگردوسرے اسلامی ملکوں میں جاکردیکھیں تومسلمانوں کاحال دیکھ کرخون کے آنسوں روئیں تب بھی کم ہے۔اس لئے مسلمانوں ہوش میں آو¿!اورمرنے سے قبل مکمل طورسے سنبھل جاو¿یہ ساری تباہی وبربادی دنیاکی محبت ہی نے مچارکھی ہے۔حُبِّ دنیاکے سبب آج لوگ قرآن وسنت سے دورجاپڑے ہیں۔آقاعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ:”دنیاکی محبت تمام گناہوں کی جڑہے“۔(کیمائے سعادت)