معراج النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم تکمیل انسانیت کی علامت

”معراج “حضوراقدس ﷺ کے معجزات جلیلہ میں سے ایک بہت عظیم الشان اورنہایت ہی محیرالعقول معجزہ ہے جوحضورنبی اکرم ﷺ کے خصائص کبریٰ میں شمارکیاجاتاہے ۔خصائص کبریٰ کیاہیں؟آپ یوں سمجھیئے کہ خداوندعالم نے تمام انبیاءومرسلین کے معجزات کوحضورخاتم النبین علیہ الصلوٰة والسلام کی ذات بابرکات میں جمع فرمادیا۔اوران کے علاوہ ایسے خاص خاص معجزات سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کوممتازفرمایاجوآپ کے سواکسی نبی ورسول کونہیں عطاکئے گئے یہی معجزات آپ کے خصائص کبریٰ کہلاتے ہیں۔چنانچہ معجزہ¿ معراج بھی اُنہیں خصوصی معجزاتِ نبوت میں سے ہے جوحضورخاتم النبین ﷺ کوسواکوئی نبی ورسول اس سے سرفراز نہیں کیاگیا۔معززقارئین!”معراج“ کامطلب یہ ہے کہ حضورانورعلیہ الصلوٰة والسلام رات کے ایک مختصرحصے میں مسجدحرام سے مسجداقصیٰ تک اورمسجداقصیٰ سے آسمانوں کی سیرفرماتے ہوئے سدرة المنتہیٰ سے اُوپرجہاں تک باری تعالیٰ نے چاہاتشریف لے گئے۔اورعرش وکرسی،لوح وقلم،جنت ودوزخ وغیرہ آیاتِ کبریٰ کامشاہدہ فرمایا۔اوررب العرش کے دیدار،اوراس کی بے انتہانوازشوں ،اورلاتعدادعنایتوں سے سرفرازہوکرواپس تشریف لائے ۔اس واقعہ¿ معراج کی صداقت پردورِ صحابہ سے آج تک تمام اہل حق کااتفاق رہا۔اورکفاروملحدین کے سواکوئی بھی اس معجزہ کامنکرنہیں ہوا۔ تاریخ عالم میں واقعہ¿ معراج النبی ﷺ انتہائی خصوصیت کاحامل ہے یہ ایک ایسا عظیم واقعہ ہے جس پرایمان اورعشق رسول سے سرشارمسلمان توبجاطورپرفخرکرتے ہیں کہ وہ اس عظیم المرتبت محبوب خداکی اُمت ہیںکہ جنہیں رب کائنات نے حالت بیداری میں زمینوں اورآسمانوں کی سیرکرائی جبکہ اس واقعہ¿ معرج کوعقل کی کسوٹی پر پرکھنے والے آج تک شش وپنج میں گرفتارہوکراس عظیم واقعہ کی گھتیاں سلجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیںمگرحقیقت وہی ہے کہ معجزات وہی ہوتے ہیںجوعقل سے بالاترہوںاورمعجزات کوعقل سے پرکھناہی بے عقلی کی نشانی ہے۔اللہ رب العزت نے اپنے پیارے محبوب حضوررحمت اللعالمینﷺ کوتمام انبیاءکرام سے ممتازکرنے کے لئے جسمانی معراج حالت بیداری میں کرائی اورآپ راتوں رات مکہ مکرمہ،بیت المقدس،مسجداقصیٰ اورپھروہاں سے آسمانوں پرتشریف لے گئے کائنات کی سیرکی اورسدرة المنتہیٰ پرپہنچ گئے جہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایاکہ اگرمیں اس سے آگے ایک قدم بھی بڑھاتومیرے پرجل جائیں گے۔سدرة المنتہیٰ کے آگے آپﷺ کاسفرمبارک آپﷺ کی شان رسالت کی طرح ایسی عظیم بلندیوں کاسفرتھاجسے عقل انسان سمجھنے سے قاصرہے۔
معراج کے واقعہ کے وقت حضورنبی اکرم ﷺ کی عمرمبارک اکاون سال۸ماہ اوربیس یوم تھی یہ نبوت کاوہ زمانہ تھاجب حضورنبی اکرم ﷺ اورمسلمانوں پرکفارنے ظلم وستم کی انتہاکررکھی تھی لیکن آپ ﷺخداوند قدوس کاپیغام حق عام کررہے تھے اس زمانے میں حضورنبی اکرم ﷺ کومعراج جیسامعجزہ خدائے وحدہ لاشریک نے عطافرمایا۔اس وقت ابھی صبح نہیں ہوئی تھی سب سے پہلے آپ نے اس کاذکراُم ہانی سے کیاوہ احتیاطاًکہنے لگیں کہ یہ اس قدرعجیب واقعہ ہے آپ اس کاذکرکسی سے نہ کریں۔ورنہ کفارتمسخراڑائیںگے۔لیکن خانہ¿ کعبہ میں نماز کے بعدوہ ہی ہادی برحق ،صادق وامین سردارِانبیائﷺ اُٹھے اوررات کو پیش آنے والے اس واقعہ¿ معراج کااعلان کردیا۔کفاریہ سن کرہسنے لگے تمسخراڑانے اورتنگ کرنے کاایک اوربہانہ انہیں مل گیااوروہ آپ کے پیچھے پیچھے آواز یںکستے اورکہتے وہ دیکھو(معاذاللہ)حضرت محمدﷺبہک گئے ہیں۔نعوذباللہ کافروں کی ان باتوںکاکچھ اثربعض کم عقل مسلمانوں پربھی ہوااورکسی نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبہکاناچاہاکہ دیکھوتمہارے دوست حضرت محمدﷺ کیاکہ رہے ہیںکیاکوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا یہ مان سکتاہے کہ وہ ایک رات میں اتنے لمبے سفرپرگئے اورواپس بھی آگئے اس موقع پر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوجواب دیاوہ قیامت تک آنے والے مسلمان کے لئے مشعل راہ ہے۔آپ نے فرمایاکہ اس میں تو کوئی عجیب بات نہیں میں تواس سے بھی زیادہ عجیب بات مانتاہوںکیوںکہ حضورنبی اکرم ﷺ ہمیشہ سچ بولتے ہیںاوران کے ساتھ ساتھ آسمانوں سے ہردن ایک فرشتہ آتاہے جوخدائے تعالیٰ کا پیغام اوروحی بھی لاتاہے۔معراج پاک کی تصدیق کرنے پرحضورنبی اکرم ﷺ نے آپ کو صدیق کالقب عطافرمایایہ واقعہ معراج النبی ﷺکاایک اجمالی تعارف تھالیکن یہ بحث صدیوں سے ابتک چل رہی ہے کہ معراج النبی ﷺ جسمانی تھی یاکہ ایک خواب تھاکیایہ حضورنبی اکرم ﷺ کاروحانی سفرتھا؟پختہ ایمان والوں کے لئے اس میںکوئی الجھن کی بات نہیں رہی اوروہ حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیروی کرتے ہوئے واقعہ¿ معراج کو حضورنبی اکرم ﷺ کا بحالت بیداری میں جسمانی سفرمان تے ہیں اورواقعہ ¿ معراج کودین کاحصہ سمجھتے ہیںاورمعراج النبی ﷺ کی مقدس رات کوعبادت وریاضت اورذکرالٰہی میں گزارتے ہیں۔جمہورعلمائے امت کا صحیح مذہب بھی یہی ہے کہ معراج بحالت بیداری جسم وروح کے ساتھ صرف ایک بارہوئی۔جمہورصحابہ وتابعیںاورفقہاومحدثین نیز صوفیائے کرام کایہی مذہب ہے۔چنانچہ علامہ ملا احمدجیون رحمة اللہ علیہ نے تحریرفرمایاکہ:”والاصح انہ کان فی الیقظة بجسدہ مع روحہ وعلیہ اھل السنة والجماعة فمن قال انہ بروح فقط اوفی النوم فقط فمبتدع ضال،مضل،فاسق“(تفسیرات احمدیہ،بنی اسرائیل،ص۸۰۴)اورسب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ معراج بحالت بیداری جسم وروح کے ساتھ ہوئی یہی اہل سنت وجماعت کا مذہب ہے،لہٰذا جوشخص یہ کہے کہ معراج فقط روحانی ہوئی یامعراج فقط خواب میں ہوئی وہ شخص بدعتی گمراہ کن وفاسق ہے۔اسی طرح نقاش نے حضرت امام احمدبن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میںذکرکیاہے کہ آپ نے یہ فرمایاکہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے مذہب کا قائل ہوں کہ حضورﷺ نے خداتعالیٰ کو دیکھا،دیکھا،دیکھا،اتنی دیر تک وہ دیکھاکہتے رہے کہ ان کی سانس ٹوٹ گئی۔(شفا۔ج۱،ص۹۱۱۰۲۱)صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شریک بن عبداللہ نے جومعراج کی روایت کی ہے اس کے آخرمیں ہے کہ:”حتّٰی جاءسدرة المنتھیٰ ودناالجباررب العزة فتدلیٰ حتی کان منہ قاب قوسین اوادنیٰ“ حضورسدرة المنتہیٰ پرتشریف لائے اورعزت والاجبار(اللہ تعالیٰ)یہاں تک قریب ہوااورنزدیک آیاکہ دوکمانوں یااس سے بھی کم کافاصلہ رہ گیا۔(بخاری،ج۲،ص۰۲۱۱)بہرحال علماءاہلسنت کایہی مسلک ہے کہ حضورپاک ﷺنے شب معراج میں اپنے سرکی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ کادیدارکیا۔مگر مشکل اُن حضرات کے لئے ہے جو اس واقعہ کواپنی ناقص عقل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیںلیکن اپنی حیثیت کااندازہ نہیں لگاتے کہ وہ کس قدرعالم،سائنسداں یاعقلمندہیں۔
معراج النبی ﷺتکمیل انسانیت کی علامت ہے اوراس واقعہ¿ معراج سے خداوندعالم نے ثابت کیاہے کہ خداوندکریم اپنے محبوب بندے کوتمام مادی تقاضوںکے باوجودکس قدربلندیوں پرپہنچاسکتاہے اورکائنات میں اس کے بندہ¿ خداکامقام کہاں تک ہے۔ آج جوروس اورامریکہ چاندکے سفرکاپروگرام بنارہے ہیں اورچاندکی سطح تک راکٹ پہنچائے جارہے ہیں ۔یہ ساری ترقیاں ہمارے آقاومولیٰ ،صاحب لولاک،سیارافلاک ﷺ کی معراج ہی کاصدقہ ہے ورنہ دُنیاکی تاریخ پڑھ لیجئے ہمارے پیارے آقاﷺ کی معراج سے پہلے کسی انسان نے اس کاتصوربھی نہیں کیاتھاکہ کوئی انسان عالم بالاکاسفرکرسکتاہے۔سب سے پہلے ہمارے پیارے آقاومولیٰ ﷺ ہی نے چانداورسورج کی رفعتوں اورعالم بالاکی بلندیوں کواپنے قدموں سے پامال کرکے انسان کویہ تصوربخشاکہ ایک ساکن زمین بھی فضل رب العٰلمین سے عالم بالاکامکین بن سکتاہے۔ورنہ بتادیجئے کہ سرکاردوجہاں ﷺ سے پہلے کسی انسان کویہ خیال بھی آیاتھاکہ ہم چاندکاسفرکرسکتے ہیں؟لہٰذامانناپڑے گاکہ چاندتک پہنچنے کی یہ ساری جدوجہداوردورِحاضرکی یہ ساری فضائی ترقّیاں رحمت عالم ﷺ کے مبارک قدموں کی رہین منّت ہیں۔یہی وہ مضمون ہے ۔جس کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کرتے ہوئے کیاخوب کہاہے کہ
پتہ چلاہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریّت کی زدمیں ہے گردوں
یعنی معراج مصطفی ﷺ سے تمام انسانوں کواس کاپتہ چلاکہ آسمان بھی عالم بشریّت کی زدمیں ہے۔اورفضل ربانی سے عالم انسانی کی رسائی آسمانوں پربھی ہوسکتی ہے ۔ورنہ اگرمعراجِ محمدی نہ ہوتی توانسان اس کاتصوّرتوکیابلکہ وہم وگمان بھی نہیں کرسکتاتھاکہ کوئی انسان آسمان تک بھی پہنچ سکتاہے۔سبحان اللہ !قربان جائیے ہمارے آقا ﷺ کی معراج پرجس نے انسان کواتنی بلندپروازی کادرس دیا۔
معراج النبیﷺ کی رات تمام نوع انسانی کے لئے بلالحاظ رنگ ونسل،مذہب وملت،ملک وطن تکمیل انسانیت کی جانب رجوع کی رات ہے اورمسلمانوںکے لئے ایک لمحہ¿ فکریہ بھی ہے،اتنی عظیم اُمت کہ جن کارہبرسردارانبیاء،خاتم پیغمبراں،سیدالمرسلین،محبوب رب العٰلمینﷺکی بابرکت ذات ہواورجنہیں خداوندکریم نے تمام کائنات کی سیرکرائی،اپنی قدرت کے مناظردکھائے،جنت ودوزخ ،سدرة المنتہیٰ،آسمانوں اورزمینوں پرحیات بعدالموت کے مناظردکھائے ،بے شمارمعجزات عطافرمائے،افسوس کہ! وہی اُمت آج اپناتشخص اورمقام بھلاکریہودونصاریٰ کے شکنجے میں آ چکی ہے۔افسوس صدافسوس کہ قبلہ اول بیت المقدس آج یہودیوں کے زیر تسلط ہے اورمسلمان حکمراںباہمی تنازعات اورجھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔دنیامیں ایک ارب کی تعدادمیں ہونے کے باوجودمسلمان کمزور،پسماندہ اوریہودونصاریٰ کے نرغے میں ہیں اپنی مرکزیت کھوچکے ہیںاورروزروزکمزورسے کمزورترہوتے چلے جارہے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ معراج مصطفی ﷺ کی برکتوں سے ہم تمام مسلمانوں کومالامال فرمائے اور مسلمانان عالم پراپناخاص فضل وکرم فرمائے آمین بجاہ سیدالمرسلین۔