امت مسلمہ کی زبوں حالی کے اسباب ان کا حل

مفتی ابوذرقاسمی
امام مسجدحرانیو اعظیم آبادکالونی پٹنہ رابطہ نمبر:9546890103
موجودہ صدی میں امت مسلمہ سب سے زیادہ پریشان ، مفلو ق الحال اور مصیبت سے دو چار شکست خوردہ قوم ہے ۔ اس کا نہ کوئی یار ہے اور نہ کوئی مددگار ،یہ مظالم سہنے کی عادی ہوتی جارہی ہے ۔ اس میں نہ تو مدافعت کی طاقت ہے اور نہ ظلم کے خلاف احتجاج بلند کرنے کی قوت ، آج یہ قوم تخت مشق بنی ہوئی ہے۔ہر کوئی اس کو نشانہ بنا رہا ہے۔ دانشوارن قوم و ملت پریشان ہیں کہ جس قوم کی پیدائش کا مقصد خلافت ہے ماضی اتنا شاندار ہے کہ نہایت ہی تزک و احتشام سے حکومت کی ہے۔جس طرف گئے عروج و اقبال سے استقبال کیا، اغیار سے آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جرا¿ت تھی، وہ قوم موجودہ دور میں انحطاط کی شکار اور زوال پذیر ہے۔ اس کے اسباب کیا ہیں؟۔ امت مسلمہ کے شکست اور زوال کے اسباب اور اس کا حل کیا ہے؟ ۔ جواب قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ”اور تم کو جو کچھ مصیبت آتی ہے تمہارے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے آتی ہے۔ اور اللہ بہت سے لوگوں کو معاف ہی کردیتا ہے۔تم زمین میں بھاگ کر اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور تمہارا اللہ کے سوا کوئی حامی و مدد گار نہیں ہوگا“۔(الشوریٰ ۹۲۔۳۰)اس آیت سے واضح ہے کہ مصائب ،ہزیمت ، پریشانی ، اور ذلت بد اعمالی کی وجہ سے آتے ہیں۔ آج لوگ طرح طرح سے اللہ کی نا فرمانی کرتے ہیں ۔احکام خداوندی سے لا پرواہی برتتے ہیں ، اسلامی تعلیمات سے روگردانی کرتے ہیں، جبکہ امت مسلمہ کو اسلام نے ایک نظام حیات سے نوازااور اس میں ہر طرح کا علاج رکھا ۔ امت مسلمہ نے اس نظامی زندگی کو فرسود ہ سمجھ کر اپنی زندگی سے دور کر دیا اور طرح طرح کے برائیوں میں مبتلا ہوگئی ۔ عیاشی وموج مستی معاشرے کا اہم جز بنا لیا،فحاشی و عریانیت تہذیب کا ایک حصہ قرار دیا۔ شراب نوشی ، قمار بازی عام سی ہوگئی ۔امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کوزندگی کی ترقی کے لئے رکاوٹ سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ہر طرح کی مصیبتوں سے دو چار ہیں۔رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”پانچ برائیاں ایسی ہیں جس میں تم ان میں مبتلا ہو جاﺅگے اور میں اللہ کی اس بات سے پناہ چاہتا ہوں تم ان میں مبتلا ہو۔جب کسی قوم میں بے حیائی اعلانیہ ہونے لگے تو ان میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جائیں گی جو ان کے اسلاف میں نہیں تھیں۔ جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے تو اس کو قحط سالی و تنگی اور بادشاہ کے ظلم میں گرفتار کیا جائے گا۔ جبکہ کوئی قوم زکوٰ ة کو روکے گی تو اس سے بارش روک دی جائے گی ۔اگر جانور نہ ہوتے تو اس پر کبھی بارش نہ ہوتی ۔جب کوئی قوم اللہ و رسول ﷺ کے عہد توڑے گی تو اس پر غیر قوم میں سے کوئی دشمن مسلط کر دیا جائے گا جو اس سے ان کے مال چھین لے گااور جب ان کے ائمہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کرنا ترک کردیں گے اور اللہ کی نازل کر دہ احکام میں سے اپنی مرضی کے مطابق لیکر فیصلہ کریں گے تو اللہ ان کے درمیان آپس میں لڑائی ڈال دیں گے۔ (ابن ماجہ ) اس حدیث سے امت مسلمہ کی زبوں حالی کے اسباب واضح ہیں کہ اعمال خراب ہوگئے تو یہ قوم حاکم سے محکوم ہوگئی ۔غیر قوم کا تسلط ہوگیا۔مال و زر پر دوسروں کا قبضہ ہوگیا۔آپس کے معاملات خراب ہیں لین دین ، اخوت و بھائی چارگی کا فقدارن ہے، اختلافات نے امت مسلمہ کو برباد کر دیاہے۔ ذلت و پستی ،انحطاط و کمزوری ، ہلاکت وتباہی امت مسلمہ کو جکڑ لیا ہے۔ پھر بھی یہ امت سبق لینے کے بجائے دنیاوی عیش و عشرت میں مست ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتی ہیں۔آپس کے لین دین درست نہیں۔جب مسلمانوں کی حالت یہ ہوگئی تو اللہ نظر کر م ہٹا لیا۔ چنانچہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”جب میری امت دنیا کو قابل عظمت و قعت سمجھنے لگے گی تو اسلام کی وقعت ہیبت دل سے نکل جائے گی۔ جب امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہو جائے گی اور جب آپس میں ایک دوسرے کو گالی گلوچ کرنے لگے گی تو اللہ جل شانہ کی نگاہ سے گر جائے گی “(کنزالاعمال) حالت بہت سخت ہیں پھر مایوسی کفر ہے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کا حل تلاش کرنے کی ضروت ہے ۔ہمارے پاس نسخہ کیمیاقرآن و حدیث کی شکل میں موجودہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ”تم ہمت مت ہارو ، رنج مت کرو ،غالب تم ہی رہوگے،اگر تم پورے مومن رہے“۔(ال عمران ۹۲) دوسری جگہ ارشاد ہے : ”تم ہمت مت ہارو اور صلح کی طرف مت بلاﺅ ، تم ہی غالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے“۔(محمد ۵۳) کے مدد آئے گی ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے :”اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے ان کو ضرور زمین میں خلافت دے گا۔ جیسا کے ان سے پہلے لوگوں کو حکومت دی تھی اور ان کے لئے ان کی دین کو جما دے گا ،جس کو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور انہیں خوف کے بدلے میں امن عطا کر ے گا، وہ لوگ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو ناشکری کرے گا اس کے بعد تو ایسے ہی لوگ نا فرمان ہیں “۔(النور ۵۵)زمین میں خلافت وحکومت کے لئے ایما ن اور عمل صالح کی شرط بیان کی گئی ہے اگر موجود دور میں امت مسلمہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کی پابند ہو جائے تو اپنی کھوئی ہوئی پونجی عزت و عظمت ، رعب و دبدبہ ، عروج و اقبال اور حکومت حاصل کرلے گی ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ”عزت تو اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے رسول اور مومنوں کے لئے “۔(المنافقون۸)
ہمارے اسلاف و اکابر نماز ، روزہ ،زکوٰ ة ، حج امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے پابند تھے۔رسول ﷺ کی تعلیمات ان کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی تو اللہ نے اپنا وعدہ ان سے پورا کیا کہ دنیا کی بڑی بڑی باطل طاقتیں ان کے سامنے سر نگوںاور سجدہ ریز ہو گئیں ۔جدھر قدم بڑھایا فتح و نصرت ہاتھ آئی اور ہر طرف اسلام کا ڈنکا بجایا ۔ حضرت عمر ؓ اپنے زمانہ خلافت میں تمام عمال و حکام کے نام ایک فرمان جاری کیا کہ میرے نزدیک تمہارے تمام امور میں سب سے اہم کام نماز ہے جس نے اس کی حفاظت کی اس نے اپنے دین کی حفاظت کی اور جس نے اس کو ضائع کیا وہ دوسرے کاموں کو بھی زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔البدایہ والنہایہ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ہرقل کے زمانے میں رومی فوج سے مسلمانون کا مقابلہ ہوا تورومی فوج کو شکست کھانی پڑی ۔ یہ شکست خوردہ فوج جب اپنا وطن واپس آئی تو بادشاہ ہرقل نے شکست کی وجہ دریافت کی اور تین سوالات کئے ۔ مجھے اس قوم کے بارے میں بتاﺅ جس کے ساتھ تمہارا مقابلہ تھا کیا وہ تم ہی جیسے انسان تھے ؟ فوجیوں نے کہا : ہاں ،اچھا بتاﺅ !تعداد میں تم زیادہ تھے یا وہ ؟ فوجیوں نے کہا : ہم ،تیسرا سوال کیا تو شکست کی وجہ کیا ہوئی ؟تو اس کے جواب میں رومی فوج نے عجیب بات کہی ، کہا کہ مسلمانوں کی فتح کی وجہ یہ ہے وہ راتوں میں نماز پڑھتے ہیں، دن میں روزہ رکھتے ہیں،امربالمعروف نہی عن المنکر کے پابند ہیں ،عہد پورا کرتے ہیں ،اور آپس میں انصاف کرتے ہیں اور اپنی شکست کی وجہ بیان کی کہ ہم شراب پیتے ہیں ، زناکرتے ہیں ،حرا م کا مرتکب ہیں وعدہ خلافی کرتے ہیں ، ظلم کرتے ہیں ، برائیوں کا حکم دیتے ہیں، ان عمال سے منع کرتے ہیں جو اللہ کی رضا کا سبب ہے ار زمین میں فساد مچاتے ہیں ۔بادشاہر قل نے کہا : بالکل سچ کہا ۔