رزق حلال کی اہمیت اور فضیلت

محمد مشاہد رضا مصباحی علی گڑھ

اس خاکدان گیتی پر بسنے والا ہر انسان اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے شب و روز دوڑدھوپ کرتا ہے اور بڑی محنت و مشقت سے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لیے روزی روٹی کماتا ہے ۔اگر یہ تمام کام احکام الہیہ اور حدیث نبویہ کی روشنی میں کرتا ہے تو یہ کام بھی مذہب اسلام میں عبادت شمار کیا جاتا ہے ، اور اگر ناجائز طریقے سے اپناپیٹ بھرتا ہے تو یہی کوشش اس کے لیے آخرت میں رسوائی کا سبب بن سکتی ہے ۔یقینا ہر انسان کے لیے ممکن ہے کہ وہ ایسی رزق کما سکتا ہے جو اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہے ،کیو نکہ اللہ نے انسان کی تخلیق کے ساتھ اس کی روزی روٹی کا بھی بندو بست کر رکھا ہے، اس کے لیے ایسی سہولیات فراہم کر دیاہے کہ انسان اپنی کوشش کے ذریعہ اپنا وجود بر قرار رکھ سکتا ہے،مگر آج کی رنگین فضا اور حوس پرستی کے ماحول میں لوگ راتوں رات کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں ۔دولت کا نشہ اس طرح سوار ہے کہ جائز و نا جائز کی بھی تمیز نہیں کرتے ،اچھی خاصی پر سکون زندگی کو وبال جان بنا لیتے ہیں ۔ترقی اور خوش حالی کا پیمانہ خود بہ خود تیار کرکے اسے حاصل کرنے کے لیے حلال و حرام کے حدود کو بھی تجاوز کر جاتے ہیں ۔بیوی بچوں کی خواہشات پوری کرنے کے لیے ہمیشہ دیوانہ وار پھرتے ہیں ،کبھی پیچھے نہیں ہٹتے ہیں ۔یقینا اسلام اس کا حکم دیتا ہے کہ انسان اپنے بچوں کی صحیح طریقے سے پرورش و پرداخت کرے لیکن اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ وہ دولت کے حصول کے لیے بالکل پاگل ہو جائے اور دنیا و آخرت دونوں میں رسوائی کا سامان مول لے،جبکہ اللہ کے نبی ﷺنے رزق حلال کی بے پناہ فضائل بیان کیے ہیں ،اور رزق حرام کی برائیوں اور نقصانات سے آگاہ فرمایا ہے ۔
صحیح بخاری شریف میں مقدام بن معدیکرب سے مروی ہے حضو اقدس ﷺنے فرمایا”اس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کمایا ہو اور بےشک اللہ کے نبی داو¿د علیہ السلام اپنی دست کاری سے کھاتے تھے “
صحیح مسلم شریف میں ابو ہریرہ سے مروی ہے حضور اقدسﷺکا ارشاد ہے ”اللہ تعالی پاک ہے اور پاک ہی کو دوست رکھتا ہے اور مومنین کو بھی اسی کا حکم دیا ہے جس کا رسولوں کو حکم دیا ،اس نے رسولوں سے فرمایا ”یا ایھاالرسل کلومن الطیبات وا عملو اصالحا“اے رسولوںکی جماعت!پاک چیزو ں سے کھاو¿ اور اچھے کام کرو ،اور مومنین سے فرمایا ”یا ایھاالذین آمنواکلو من طیبات ما رزقنا کم “اے ایمان والو !جو کچھ ہم نے تم کو دیا ان میں پاک چیزوں سے کھاو¿۔پھر بیان فرمایا کہ ایک شخص طویل سفرکرتا ہے جس کے بال پریشان ہیں اور بدن گرد آلود ہے وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یا رب یا رب کہتا ہے مگر حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ،پینا حرام ،لبا س حرام اورغذا حرام پھر اس کی دعا کیو نکر مقبول ہو؟(یعنی حرام رزق کھانے والے کی دعاقبول نہیں ہوتی ہے )
صحیح بخاری شریف میں ابو ہریرہ سے مروی ہے حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ آدمی پرواہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیا ہے حلال سے یا حرام سے ۔
اما احمد بن حنبل ،عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو بندہ حرام مال حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں ،اورخرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم کو جانے کا سامان ہے،کیونکہ اللہ تعالی برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہے ،ہاں نیکی سے برائی کو محو فرماتا ہے ،بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا ۔
امام احمد دارمی و بیہقی جابر سے روایت کرتے ہیں کہ حضو انور ﷺنے فرمایا جو گوشت حرام سے اگا ہے جنت میں داخل نہ ہوگا ،اور جو گوشت حرام سے اگا ہے اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے ۔
حلال اور حرام کا خیا ل رکھنابڑی اہم اور ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کے اوامر اور اس کی ذات کی تعظیم کا اظہار کرتی ہے ،اس لیے انسان کی ہر وہ کوشش جو وہ حلال کمانے اور حرام سے بچنے کے لیے کرتا ہے تو وہ ایک خاص رنگ کی عبادت ہے ،اس لیے اس بات کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے اور ہم پر لازم ہے کہ حلال کی طلب اور حرام سے بچنے کے لیے پوری پوری سعی و کوشش کریں جیسا کہ ہمارے اسلاف نے مشکل سے مشکل امر میں بھی اس پر سختی سے عمل کرکے دکھاےا اس لیے اللہ تعالی نے ان کو اکثر مقامات پر بھی حرام سے محفوظ فرمایا جس کی جانب ان کا خیال بھی نہ گیا ،ان میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک شخص نامعلوم حرام کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو ان پر رعشہ طاری ہو جاتا اسی طرح ایسے بھی اللہ والے شریعت کے عامل گزرے ہیں کہ اگر معلوم ہو جاتا کہ حرام لقمہ پیٹ میں بلا ارادہ چلا گیا ہے تو معلوم ہو نے پر پیٹ کو فورا کھالی کر دیتے اور اس لقمہ کو باہر نکال دیتے اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ حضرت ابو بکر نے اپنے ایک غلام کی اس کمائی سے خریدے گئے کھانے سے کچھ تناول فرما یا جو اسے زمانئہ جاہلیت میں کہانت سے حاصل ہوئی تھی اور آپ کو اس کا علم نہ تھا ،اسی طرح حضرت عمر نے دودھ نوش فرمایا جس کے بارے میں معلوم نہ تھا کہ یہ زکوة کے اونٹوں کا ہے ،ان دونوں حضرات کو جونہی حقیقت کا علم ہوا تو منھ میں انگلی ڈال کر اس طرح قے کر دی کہ معدے میں کوئی چیز باقی نہ رہی ،اس سے معلوم ہوا کہ لقمئہ حرام سے فورا بچنا اور دور بھاگنا اسلام میں بڑی اہمیت اور فضیلت رکھتا ہے ۔اللہ تعالی تمام مسلمان کوحلال رزق کمانے اور کھانے کی توفیق دے۔آمین۔