صالح معاشرہ کی تشکیل میں ائمہ کا کردار

بدر الزماں محمد شفیع
”معاشرہ“ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ فیروز الدین فیروز اللغات میں لکھتے ہیں :”جماعتی زندگی میں جس میں ہر فرد کو رہنے سہنے اور اپنی ترقی و فلاح و بہود کے لیے دوسروں سے واسطہ پڑتا ہے ۔“ معاشرہ کا اصلاح اور فساد افراد جماعت کے عقلی و فکری نقطہ نظر پر منحصر ہوتا ہے جس میں عقیدہ و مذہب سے رنگ بھرتا ہے۔ امکان ہی نہیں واقع میں ہے کہ ایک ہی چیز کے بارے میں ایک ماحول ایک زمان ، ایک مکان اور ایک زبان کے لوگ عقیدہ و فکر کے فرق کی وجہ سے الگ الگ رائیں رکھتے ہیں۔ اس کی واضح مثال ہمارے موضوع ”معاشرہ“ کا نصف حصہ ”عورت “ ہے۔ اس وقت دلی شہر میں اردو اورہندی بولنے والے اور ایک ماحول میں رہنے والے ”عورت“ کے بارے میں اپنی اپنی مستقل رائے رکھتے ہیں۔ ایک فریق، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ہی اس پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے تاکہ اس کے محاسن سے لطف اندوزی صرف اس کے ہونے والے شوہر تک محدود رہے ،جبکہ اس کے مقابل اسی ماحول اورزبان و بستی کی دوسری سوچ عقیدہ و فکر کے اختلاف کی وجہ سے اسے ایک دوسرے رنگ میں رنگتی ہے چنانچہ بچی جب تک نابالغ ہوتی ہے اور اس کی نسوانیت خوابیدہ ہوتی ہے تب تک اسے سرتا پا لباس دیاجاتا ہے اور جب اس کے محاسب نسوانیت میں پوری بیداری آجاتی ہے تو لباس میں کشادگی کی جگہ تنگی، کثافت کی جگہ شفافیت اورلمبائی کی جگہ چھوٹائی، اظہار محاسن کے نت نئے انداز سے آتی ہے تاکہ وہ گلیوں، سڑکوں، بازاروں ، آفسوں اور محفلوں کی رونق و زینت بن جائے۔ بایں سبب صلاح وفساد کی تعین میں عقل سلیم اور عقل فاسد کی آویزش برابر برقرار رہتی ہے اور غلبہ عموماً عقل فاسد کا ہوتا ہے کیونکہ صلاح میں زحمت و مشقت ہے جبکہ فساد میں تن آسانی اور شہوت رانی ہے۔ لہذا صلاح اور فساد کی تعین وحی الٰہی کے سوا کسی سے ممکن نہیں نتیجتاً صلاح و ہ ہوگا جسے وحی الٰہی صلاح قرار دے اور فساد وہ ہوگا جسے وحی الٰہی فساد بتائے۔ اس طرح صالح معاشرہ وہ ہوگا جس میں عقیدہ و عمل ، معاملات وا خلاق اور رہن سہن، حیات و موت، خوبی وخامی، دوستی و دشمنی ،امن ودہشت ہرچیز میں کسوٹی وحی الٰہی اور اس کے شارح کی تشریح و توضیح قرار پاتی ہو۔
معاشرہ کو جس خد وخال پر پورا اترنا ہے اس کی ذمہ داری ان لوگوں کے سر پر ہے جووحی الٰہی اور صاحب وحی کی تشریحات و توضیحات کے امین ہیں، ان کی عقابی نظریں معاشرے کے ہر خاندان، خاندان کے ہر فرد ، بوڑھے ، جوان، بچے ،مرد اور عورت پر ان کے تمام تصرفات و اقوال واعمال واخلاق و معاملات پر ہوتی ہے خواہ یہ انفرادی سطح کی ہوں یا اجتماعی نوعیت کی۔ ان ذمہ داریوں اور محافظوں کو ائمہ قرار دیا گیا ہے۔ایک بستی کا امام اور امیر بعض فروق کے ساتھ انہیں اختیارات کا حامل ہوتا ہے جو اختیارات امام المسلمین اور امیر المومنین کے ہوتے ہیں۔ لہذا وہ اس آیت کریمہ کا مصداق ہوتا ہے:”تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی دعوت دے، اچھائی کا حکم دے، برائی سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔(آل عمران:۴۰۱) نیز اللہ کا یہ وصف بھی انہیں پرفٹ ہے۔ ”تم ایسی بہترین جماعت ہو جولوگوں (کی رہنمائی) کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم اچھائی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔“(آل عمران:۰۱۱)ان اوصاف کے حاملین کاشیوہ یہ ہوتاہے کہ اس ذمہ داری کی دعا مانگتے ہوئے کہتے ہیں: ”اور ہم کو متقیوں (یعنی مومنین) کا امام بنادے۔“ (الفرقان)اسے اللہ کے رسول نے چھوٹے سے بڑے تک اور مرد سے عورت تک ہر ایک کو حسب مراتب ذمہ دار بتایا ہے اور ہرایک سے اپنی ذمہ داری کاپاس لحاظ رکھنے کی یاد دہانی کرائی ہے، آپ فرماتے ہیں:”تم میں سے ہر ایک (اپنی حیثیت میں ) ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اپنی ذمہ داری (ہونے سے متعلق) باز پرس ہوگی۔ “ (بخاری )
اس امامت کا مستحق وہ ہوگا جو شریعت اسلامیہ کے اصل مصادر کتاب اللہ اور سنت صحیحہ اوراقوال صحابہ و تابعین پر گہری نظر اصل عربی مصادر سے استفادہ کرتے ہوئے رکھتا ہو اوران مصادر کے فہم میں بصیرت رکھتا ہو۔ لہذا اگر کوئی بے علم اور بے بصیرت بلکہ بے عمل و بداخلاق سیاسی بازیگری سے لوگوں کی امامت کا دعویدار ہوجائے تو دھڑے بندی کے ذریعہ قبضہ کی گئی امامت کا اعتبار اور اس پر اطمینان اس وقت غیر موزوں ہوگا جب وہ امامت کے شرعی معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔اس پر تو اللہ کے رسول کی پیش کردہ وعید منطق ہوتی ہے: اللہ علم کو بندوں سے چھین کر نہیں ختم کرے گا بلکہ علماءکو وقف دے کر علم اٹھا لے گا یہاںتک جب کوئی عالم نہ بچے گا تو لوگ جہلا کو اپنا اگوا بنا لیں گے ، ان سے جب پوچھا جائے گا تو وہ بلا علم کے فتویٰ دیں گے اس طرح وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کردیں گے۔(بخاری) ایسے شخص کو درحقیقت امامت کا مستحق نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے لیکن اگر فتنہ کاخوف ہو اور مسلمانوں میں شقاق کااندیشہ ہوتو اسے گوارہ کیا جانا چاہئے مگر معاشرہ کے حساس افراد کو صورتحال پر گہری نظر رکھنی چاہئے کہ صلاح وفساد کی تمیز پرحرف نہ آنے پائے۔ مصادر شریعت پر گہری اور بابصیرت نظر رکھنے والااگر معاشرہ کی سرپرستی کرتاہے اور اپنی علمی بصیرت کی تنفیذ پہلے اپنے نفس پر کرتا ہے نیز اپنے ماتحتوں میں انوار شریعت کوجلوہ گر دیکھنا چاہتا ہے ساتھ ہی اسے معاونین اور بہی خواہوں کی ایسی ٹیم مل گئی جو اس کے پروگراموں کی تنفیذ کرتے اور اس کے خاکوں میں اس کا دیا ہوا رنگ بھرتے ہیں تواس چیز کی ضمانت ہے کہ اس معاشرہ میں پسند یدہ اقدار کو پذیرائی ہوگی اور ناپسندیدہ اقدار کی حوصلہ شکنی بلکہ بیخ کنی ہوگی۔ ایسے امام کے سامنے اپنامہم سنبھالتے وقت بطور ضابطہ و نمونہ اس من سمعان کی روایت ہوگی جس میں اللہ کے رسول سے ”بر“ اور ”اثم“ سے متعلق سوال کیا گیاتھا تو آپ نے اس کا ضابطہ یوں بیان فرمایاتھا۔
اچھائی: اچھااخلاق ہے اور برائی ہر وہ چیز ہے جو تمہارے (یعنی وہ آدمی جو عقل سلیم رکھتا ہو، سادہ لوح ہو اور کسی خاص عقیدہ و مذہب کے رنگ میں رنگا ہوا نہ ہو)دل میں کھٹکے اور تم اس پر لوگوں کی آگاہی کو پسند کرتے ہو۔(صحیح الجامع رقم ۰۸۸۲) اس ضابطہ میں جس حسن اخلاق کو بھلائی بتایا گیا ہے اس کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ اس میںانسانی زندگی کاہر پہلو آجاتا ہے ۔اس کے عقائد و افکار، خیالات و ہوا جس نفس، اعمال واقوال ، معاملات جس جس ذات و جماعت سے ان چیزوں کی وابستگی ہوتی ہے جس کا ایک سرا خالق سے تو دوسرا سرا مخلوقات کے تمام انواع سے جڑ جاتا ہے۔ مثلاً خالق کے بارے میں اس کا عقیدہ وفکر کیاہے،اس بارے میں اس کے اعمال واقوال کیسے ہیں، اس سے کا تعلق کیسا ہے۔اسی طرح اپنے جیسے انسانوں سے اس کے روابطہ کیسے ہیں، ماں، باپ ، بال بچے ، بیوی شوہر ، بھائی بہن ،اقارب و رشتہ دار ،پڑوسی و مہمان اورعام ملاقاتی ومعاملات لوگ نیزاس کا رویہ اپنے ماتحتوں اور بزرگوں و سرپرستوں ، مردوں اورزندوں کے ساتھ کیسا ہے ۔ اس سے بڑھ کر کیا وہ زبان و رنگ و نسل ، قوم و برادری اور مذہب و مسلک کی عصبیت سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے تقاضے پر پورا ترتا ہے۔ ذی روح جانوروں کے ساتھ اس کے سلوک کی نوعیت اور مال و دولت، جاہ و حشمت کے استعمال کاانداز، غیر ذی روح نباتات، وجمادات کے متعلق اس کا رویہ، سبھی قابل ملاحظہ ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا وہ اپنے آپ کو ایک عظیم خالق کی بے مایہ مخلوق مانتا ہے جس کی کل پونجی خالق کی عطا کی ہوئی چند دنوں کی مستعار معمولی قوت و طاقت ہے اور وہ خود اس قدر ذلیل ہے کہ دو پیشاب کی نالیوں سے گذر کر اس دنیا میں زندگی پاسکا ہے۔ پیدائش کے وقت ماں باپ کے رحم و کرم کامحتاج تھا اور بڑھاپے میں اولاد واحفاد کامحتاج ہوجاتا ہے۔ جوانی کے چند ایام جو صحت و عافیت ، مال و دولت، عیش و عشرت اورفراغت کے ہوتے ہیں ان میں اپنی حیثیت پر ٹھنڈے دل سے سنجیدگی کے ساتھ غور کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی کامل جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور چالیس سال کا ہوجاتا ہے تو کہتا ہے : اے میر ے رب! مجھے تو فیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کرسکوںجسے تو نے مجھ پر کیا ہے اور جسے تو نے میرے والدین پر کیا ہے اوراس کی توفیق دے کہ میں ایسا صالح عمل کروں جسے تو پسند فرماتا ہے اور میری اولاد کو صالح بنادے میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔(الاحقاف:۵۱)اثم (برائی) جاننے اوراس کی پیمائش کرنے کاجو ضابطہ امام کو دیا گیا ہے یہ ہے کہ چیز اگر معمولات کے جنس سے ہے تو اس کے ترک کرنے اورمتروکات کے جنس سے ہے تو اس کے کر گذرنے پر دوسرے کسی شخص کے آگاہ ہوجانے کو ناپسند کرے ۔اس عظیم ضابطہ میں گذشتہ سطور میں بر(اچھائی) کی وضاحت کے اندر جس جس نوعیت کی چیزیں ذکر ہوئی ہیں سب معمولات کے جنس سے تھیں۔ ان کاترک اور متروکات جیسے جھوٹ، خیانت، غیبت، عیاری، مکاری، چوری، زناکاری، سود خوری، شراب نوشی،غصب ،ظلم ، بے وفائی ، بے حیائی، بدعہدی، فحاشی، گالی گلوج، جھگڑا وغیرہ کرنا اور اسے اپناشیوہ بنالینا۔اس ضابطہ عمل و ضابطہ ترک پر اگر صحیح طور پر عمل ہوجائے تو معاشرہ میں امن وامان برپا ہونا لازمی ہے جس سے خوف و دہشت کاخاتمہ خود بخود ہوجائے گا۔
اس معاشرہ کا رہبر جسے ”امام“ کے لقب سے یاد کرایا جاتا ہے، معاشرہ کے تمام افراد کے ساتھ ان کے انفرادی معاملات میں بھی ہوتا ہے جس طرح ان کے اجتماعی مسائل میں ان کی پوری رہنمائی کرتا ہے ، وہ خود اس ضابطہ پر عمل بند ہونے کے بعد اپنے زیر سرپرستی قوم کو اس پر کار بند ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ انحراف پر باز پرس کرتا ہے۔ضرورت پر سزا کابھی اہتمام کرتا ہے ورنہ ترغیب سے ہی کام چلاتا ہے۔ معاشرہ میں اگر اس کے عقیدہ و فکر اور مذہب و مسلک کے علاوہ لوگ ہوتے ہیں توان پر اپنے افکار وخیالات تھوپنے کی ضرورت نہیں سمجھتا بلکہ ان کی فکری آزادی کا تحفظ کرتا ہے۔ ”اوراگر مشرکوں میں سے کوئی پناہ چاہے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ اللہ کا کلام سن لے پھر اسے اس کے امن کے ٹھکانا پر پہنچا دو
٭٭٭
۔ (التوبہ:۶)
امام کے ساتھ علماءاور صلحا پر مشتمل ایک ٹیم ہوتی ہے جواچھائیوں کو امام کے سامنے پیش کرتی اور معاشرہ میں اس کی تنفیذ چاہتی ہے تاکہ خیر کے اقدار سے عام لوگوں کو سعادت حاصل ہو اورخامیوں کی نشاندہی کرکے معاشرہ میں اس کے رواج پانے پر پابندی لگاتی ہے تاکہ خوبیوں والے ماحول میں ایسی خامیاں نہ در کر آئیں جن سے معاشرہ کا پرسکون اور خوش کن ماحول خلفشار اور خوف و ہراس نیز یاس و قنوط کا شکار ہوجائے۔امام خود فراموش نہیں ہوتا اسے اللہ کے اس فرمان کا مصداق ہوناخوش نصیبی معلوم ہوتی ہے۔انما یخشی اللہ من عبادہ العلماءاللہ کے بندوں میں علماءہی اللہ سے ڈرتے ہیں جس کا نتیجہ عمل میں چاک چوبند ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
اے وہ لوگو!جو ایمان لائے ہوایسی چیز کہتے کیوں ہو جسے کرتے نہیں۔ اللہ کے یہاں یہ بڑے غضب کی چیز ہے کہ (دوسروں سے کرنے کے لیے وہ) کہو تو خود نہیںکرتے۔لہذا وہ گفتار کا غازی نہیں بلکہ کردار کا بندہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنے آپ کو معصوم عن الخطا نہیں سمجھتا بلکہ کوتاہی اور لغزش پر سنبھلتا اور اللہ کی توفیق اور ہمرازوں کی تنبیہ پر شکر گذار ہوتا ہے۔ ”یہ وہ لوگ ہیں کہ جب وہ فحش کاری کر بیٹھتے ہیں یا اپنے نفسوں پر ظلم کر ڈالتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں اور گناہوں کو اللہ کے سوا کون بخش سکتا ہے اوروہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ (اللہ غفور ہے)۔
امام معاشر ے میں پیدا ہونے والی برائیوں، اس میں داخل ہونے والی گندگیوں اور ایسی کوتاہیوں پر گہری نظر رکھتا ہے جن سے معاشرہ میں برائیوں کا ناسور پیدا ہونے والا ہوتا ہے لہذا وہ اپنی دور اندیشی سے اس برائی کو اس کے مہد ہی میں دفن کرنے کی تدبیر کرتا ہے ۔لوگوں میں فسق و فجور ، معصیت او ر شرک دیکھ کر مداہنت نہیں برتتا بلکہ بروقت ٹوکتا اور اصلاح کے لیے تذکیر کرتا ہے اس کے سامنے بنو اسرائیل کی مثال ہر وقت مستحضر رہتی ہے۔ بنی اسرائیل کے کفر کرنے والوں پر داﺅد اور عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنت بھیجی گئی اس لیے کہ وہ نافرمانی اور سرکشی کرتے تھے، وہ معاشرہ میں کی گئی برائی سے (غلط کاروں کو) روکتے نہیں تھے۔ بڑا برا کام یہ کرتے تھے ۔ (المائدہ :۸۷۔۹۷) اسی طرح حدیث پر بھی اس کی نظر رہتی ہے۔تم سے جو شخص کوئی برائی دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر استطاعت نہ ہو تو زبان سے اوراس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے (برا جانے) یہ کمزور ترین ایمان ہے۔(صحیح الجامع رقم:۰۵۲۶)امام اپنے معاشرہ کی خوشیوں اور غموں میں برابر شریک ہوتا ہے ان کی غم خواری کرتا ہے۔ خود اور اپنے ہم نواﺅں کے تعاون و تدبیر سے پریشانی میں گھرے لوگوں کی مدد کرتا ہے اور اسے ٹالنے کی تدبیر کرتا ہے۔ ان تمام عادات و فضائل میںاس کا آئیڈیل اللہ کے رسول ہوتے ہیں۔ ”تم سب کے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے ۔ اس طرح امام اپنے معاشرہ کو مدنی معاشرہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭