اردو اور ہندو مت سوامی وویکانند کے زریںخیالات

بھارت میں اردو زبان ایک زمانے میں بلاتفریق مذہب و ملت گھر گھر بولی جاتی تھی۔ ترسیل و ابلاغ اور پیغام رسانی کے لیے اردو زبان کا استعمال کثرت سے ہوتا تھا۔ موتی لعل نہرو نے اپنے صاحبزادے جواہر لعل نہرو کی شادی کا رقعہ بھی اردو ہی میں لکھوایا تھا۔ تاہم رفتہ رفتہ چند متعصب اذہان نے یہاں کی اکثریت میں اردو کے تئیں مسموم فضا بنانے کی کوشش کی تو نفرت کی سیاست کو بھی اُبھرنے کا موقع ملا۔ غیرمنقسم ہندوستان میں فارسی اور اردو کے واضح اثرات نہ صرف سماج میں محسوس کیے جاتے تھے بلکہ حکومت کے مختلف شعبہ جات میں اردو- فارسی کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی۔ ایک وقت تھا جب شرفا (Elites) کے لیے فارسی اور اردو بولنا باعث ِفخر تصور کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں اردو کے عظیم ادیب و شاعر پیدا ہوئے۔ ہندوئوں کے بعض گھرانوں کی مادری زبان اردو ہی رہی۔ اونچے گھرانوں میں فارسی اور اردو کی تعلیم باعث فخر تھی۔ اس کا ثبوت ہندو مذہب کی اشاعت و ترویج کے لیے لکھی جانے والی وہ مذہبی کتابیں ہیں جن کے بارے میں آج کی نسل کچھ بھی نہیں جانتی کیوں کہ موجودہ نسل جدید نظام تعلیم کے اثرات کے سبب اردو زبان و ادب کے لیے بڑی حد تک اجنبی ہوچکی ہے۔ فلمی گیت غزلیں اور نغمات کی چاشنی اسے اپنی طرف متوجہ ضرور کرتی ہے لیکن اس نسل کی مجبوری یہ ہے کہ اسے قصداً اردو زبان سے دور رکھا گیا ہے۔ اب تو اردو سے نابلد اس نسل میں ہندو ہی نہیں بلکہ اردو بولنے والے گھرانوں کے بے شمار نوجوان بھی شامل ہیں۔ تاہم ہمارے ملک میں ڈاکٹر چندر شیکھر، ڈاکٹر متھن کمار اور ان جیسے درجنوں افراد پیدا ہو رہے ہیں جن سے اردو زبان و ادب کو تقویت پہنچ رہی ہے۔ بہ الفاظ دیگر اردو کا احسان نئی نسل پر بھی پڑنے لگا ہے لیکن اس کی تعداد ابھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کے بعض ہندو طلبا اور اساتذہ کا اردو اور فارسی زبانوں سے والہانہ لگائو، اردو کے روشن مستقبل کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔ وہ لوگ جو کبھی اردو زبان و تہذیب میں زندگی کو منور کر رہے تھے، افسوس ان کی نسل اس عالمی زبان سے محروم ہوتی جارہی ہے۔
ہندوستان میں ہندو مذہب کی جڑیں اتنی گہرائی میں پیوست ہیں کہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہندو مذہب کے مصلحین اور مبلغین نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر حصے میں اس کے ماننے والے موجود ہوں۔ وِشو ہندو پریشد شاید اسی خواب کی تعبیر ہے۔ ہر مذہب کی طرح ہندو دھرم میں بھی پاکھنڈی رہنمائوں کے ساتھ مخلص مصلحین بھی پیدا ہوئے۔ انہوں نے ہندو مذہب کی اشاعت و ترویج کے لیے اردو زبان کو شروع سے استعمال کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر ڈاکٹر محمد عزیر نے تقریباً 70 برس قبل ہندوستان کے مختلف مذاہب کے لٹریچر پر اردو کے احسانات کو موضوع بناکر ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔ اس کا عنوان تھا ’’اسلام کے علاوہ مذاہب کی ترویج میں اردو کا حصہ۔‘‘ اس مقالہ پر ان کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (شعبہ اردو) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔ یہ مقالہ کتابی شکل میں انجمن ترقی اردو (ہند) سے 1955 میں شائع ہوا تھا۔ بعد ازاں اس کا دوسرا ایڈیشن 1989 میں بھی شائع ہوا۔ اس کا پیش لفظ ڈاکٹر خلیق انجم نے لکھا تھا۔ ڈاکٹر خلیق انجم (مرحوم) لکھتے ہیں: ’’اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو زبان اور ادب کی بنیاد رکھنے اور اسے ترقی اور فروغ دینے میں ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں نے بلاامتیازِ مذہب و ملت حصہ لیا۔ سیاسی مصلحتیں ایسی درپیش آئیں کہ آزادی کے بعد ہمیں اس حقیقت پر کچھ زیادہ ہی زور دینا پڑا، اور بار بار یہ کہنا پڑا کہ اردو تمام مذاہب کے لوگوں کی زبان ہے۔ ان حالات میں علی گڑھ کے ڈاکٹر محمد عزیر کو یہ خیال آیا کہ اگر اردو پر مختلف مذہب کے لوگوں نے احسان کیا ہے تو خود اردو نے بھی ہندوستان کے تقریباً تمام مذاہب پر کچھ کم احسان نہیں کیا۔ اگرچہ مذہب اسلامی پر اردو میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن ہندو مذہب اور اس کے اصلاحی فرقوں، مثلاً کبیر پنتھ، برہمو سماج، آریہ سماج، تھیوسوفیکل سوسائٹی، رادھا سوامی مت اور دیو سماج کا بیشتر لٹریچر بھی اردو ہی میں ہے۔ اسی طرح جین مذہب، سکھ مذہب، عیسائی مذہب اور بہائی مذہب کی تبلیغ کے لیے بھی اردو میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔‘‘ (حرفِ آغاز، صفحہ 7)
اس کتاب میں ’’ہندو مذہب‘‘ کے باب کے تحت ڈاکٹر محمد عزیر نے اردو میں ہندو مذہب پر لکھی گئی قدیم کتابوں کا تعارف کرایا ہے۔ (صفحہ 20 تا 121)
اردو میں ویدوں سے متعلق سب سے قدیم کتاب ’’الکھ پرکاش‘‘ 1861ء میں آگرہ سے شائع ہوئی۔ منشی راج نرائن مہر دہلوی نے اُپنشد کی شرح چار جلدوں میں لکھی جو1914 ء میں شائع ہوئی۔ اسی طرح ’’ویدانت‘‘ پر متعدد کتابیں ہندوئوں نے لکھیں۔ ’’یوگ‘‘ پر لکھی گئی اردو میں سات قدیم کتابوں کا سراغ ملتا ہے۔ اسی طرح ’’بھگتی‘ ‘اور’ ’کتھا ہنس پر سنگ‘‘ کے موضوعات پر اردو میں کتابیں لکھی گئیں۔ بھگتی کا قدیم ترین صحیفہ ’بھگوت گیتا‘ کا قدیم اردو ترجمہ منشی کنہیالال عرف الکھ دھاری کا ہے جس کی اشاعت 1863ء میں ہوئی۔ بعد میں اس کے کئی اردو ترجمے شائع ہوئے۔ اسی طرح ’’مہا بھارت‘‘ کے اردو ترجمے کیے گئے۔ بابو جوالا پرشاد بھارگو کا متن کے ساتھ اردو ترجمہ ’’مخزن مہا بھارت‘‘ کے نام سے چار ضخیم جلدوں میں آگرہ سے شائع ہوا۔ ’’رامائن‘‘ کا پہلا اردو ترجمہ1866میں شائع ہوا۔ مکمل ’’رامائن بالمیکی‘‘ کے مترجم دوارکا پرشاد اُفقؔ لکھنوی تھے۔ یہ ترجمہ لاہور سے1921 میں شائع ہوا۔ منشی شنکر دیال نے ’رامائن منظوم‘‘ لکھی تھی جو مطبع نولکشور کانپور سے 1866 میں شائع ہوا تھا۔ اسی طرح ’’منوسمرتی‘ ‘سنسکرت متن کے ساتھ اردو میں 1889یں مطبع نولکشور، لکھنؤ سے شائع ہوا۔ مترجم تھے سوامی دیال۔ ہندو مذہب میں ’درشن‘ یعنی فلسفہ کا شمار مذہبی معقولات میں ہوتا ہے۔ ہندو مذہب کا بنیادی اصول موکش یعنی ’’نجات‘‘ ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے عمل (کرم)، علم (گیان) اور محبت و عقیدت (بھگتی) کے تین راستے اختیار کیے گئے۔ ہندو علماء و حکما منقولات کے ساتھ معقولات کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ انہوں نے فلسفہ نجات کی مختلف تشریحات کیں جس کی وجہ سے ہندو فلسفے کے مختلف اسکول (School of Thought) قائم ہوگئے۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور اور مستند چھ جوکھٹ درشن کہے جاتے ہیں۔ یہ چھ درشن میمانسا (مرتبہ جیمنی)، ویشیشیک (مرتبہ کنادرشی)، نیائے (مرتبہ گوتم)، سانکھیہ (مرتبہ کپل)، یوگ (مرتبہ پتنجلی رشی) اور ویدانت (مرتبہ ویاس) ہیں۔ تاہم ’’سانکھیہ فلاسفی‘ ‘کے مصنف بابو شیوبرت لال ورمن اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’اکثر لوگ غلطی سے ان چھ فلسفوں کو ایک دوسرے کا مخالف سمجھتے ہیں۔ یہ بالکل خام خیالی ہے کیوںکہ یہ منفرد عمارت کے متعدد مختلف حصے ہیں اور سب کا مقصد و اصل الاصول ایک ہے۔ سب موکش کے مضمون پر وِچار کرتے ہیں اور اسی کی پراپتی اور حصول کو انسانی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔‘‘ (اسلام کے علاوہ مذاہب کی ترویج میں اردو کا حصہ، صفحہ 102)
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندو فلاسفی میں اختلاف کے باوجود اپنے مقصد میں سب ایک ہیں۔ بھارت میں Unity in Diversity کا فلسفہ دراصل ہندو قوم کے لیے ہے کیوںکہ ہزاروں الگ الگ دیوتائوں کی پوجا اور مشرکانہ رسوم کے باوجود یہ سب ہندو ہی کہلاتے ہیں۔ اس کے علی الرغم بالخصوص ہندوستان میں مسلم علماء مذہب اور مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر بھی کرتے رہے ہیں اور اس ضمن میں بعض تو بے حد شدت پسند ہیں۔
بھارت میں ہندو دھرم کے فلسفے کی ترویج کے لیے اردو میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔ دیگر پریسوں کے علاوہ منشی نولکشور کے پریس میں یہ کتابیں شائع ہوتی رہیں۔ ان میں شری مد بھاگوت، ٹیکا شری مد بھاگوت اور کنجی موکش، وسم اسکندھ (منظوم سری مد بھاگوت)، بشن سیسرنام سٹیک، گیتا مہاتم منظوم، شری وگیان کرشنائن، پورن دھرم، پوتھی گیان پرکاش، مہاراج سری کرشن اوران کی تعلیم، پوتھی موکش گیان وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہندو مذہب کی ترویج کے لیے اردو میں بہت سی اخلاقی کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ ان میں’ ’بھرتری شتک‘‘ (ترجمہ بابو جگ ہنس رائے، 1901)،’ ’بھرتری ہری شتک‘‘ (ترجمہ بابو راجیشور ناتھ زیباؔ)، ’’گلدستہ تہذیب‘ ‘(مولف بابو کالی چرن، 1869)،’ ’جوہر تہذیب‘‘ (مصنف رائے جواہر سنگھ صاحب جوہرؔ)، ’’طلسم اخلاق‘‘ (مولف پنڈت سری کرشن، 1886)،’ ’مشعل ِزندگی‘‘ (المعروف بہ جیون سکھشا، مولف پروفیسر جگدیش متر ورما، 1917)، ’’معدنِ اخلاق‘‘ (دو حصے، مولف منشی چتر بھج سہائے بھارگو)، ’’سادھو کی صدا‘‘، ’’گلدستۂ ہدایت‘‘ (مولف لالہ شنکر داس، 1901) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
بھارت کے ہندوئوں میں بگاڑ اور دیگر مذاہب کے فکری اثرات کے سبب ہندو مذہب کے اصلاحی فرقے بھی وجود میں آتے رہے۔ یہ سلسلہ خاص طور سے کبیرپنتھ سے شروع ہوا۔ ڈاکٹر عزیر احمد لکھتے ہیں کہ کبیر بنارس میں ایک بیوہ برہمنی کے بطن سے 1398ء میں پیدا ہوئے۔ اس برہمنی نے لوک لاج کے ڈر سے بچے کو ایک تالاب کے کنارے ڈال دیا تھا۔ اتفاق سے نیرو نام کے ایک جولاہا اور اس کی بیوی نعیمہ کا گزر اُدھر سے ہوا۔ وہ رحم کھاکر بچے کو اپنے گھر اٹھا لائے اور اولاد کی طرح اس کی پرورش کی۔ کہا جاتا ہے کہ کبیر کی موت 1518ء میں ہوئی۔ (صفحہ 122)۔ کبیر پنتھ کے بعد ان اصلاحی فرقوں میں برہمو سماج، آریا سماج، تھیوسوفیکل سوسائٹی، رادھا سوامی مت، دیوسماج وغیرہ کا خاص طور سے ذکر کیا جاتا ہے۔
اردو کے حوالے سے ہندو مذہب اور اس کے اصلاحی فرقوں کے متعلق مذکورہ طویل تمہید سے کسی حد تک اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سرزمین ہند میں ہندو مذہب کے مشرکانہ عقائد کی پرتیں بے شمار ہیں۔ نیز اس مذہب نے اپنی بقاء کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور فلسفے کا سہارا لیا۔ اپنی جڑ سے جڑے رہنے کے لیے ہندو مذہب میں مصلحین (Reformers) پیدا ہوتے رہے جنہوں نے ہندو سماج میں ایکتا اور بیداری لانے کے لیے متعدد اصلاحی و انقلابی اقدام کیے۔ ان میں برہمو سماج کے راجا رام موہن رائے (1833-1772) بھی شامل ہیں جنہوں نے ’’ستی پرتھا‘ ‘کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیا۔ ہندو مذہب میں روایتی اندھ وِشواش اور جہالت کے سبب ان میں سے بعض مصلحین کو اپنی ہی قوم سے شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن ان کی ’’لبرل پالیسی‘ ‘کے سبب وہ اپنے مشن میں بڑی حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی قدیم تاریخ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہاں قدیم ہندو مذہب یا موجودہ ’’ہندتو‘‘ کا طوطا ’’برہمن واد‘‘ کے پنجرے میں ہے۔ یہاں نچلی ذات کے لوگوں کو دبایا اور کچلا جاتا رہا ہے اور حسب ضرورت سر آنکھوں پر بھی بٹھایا گیا ہے۔
حال ہی میں ’’سری کرشن مشن‘ ‘کے بانی، فلاسفر اور پرچارک سوامی وِویکانند کی مختصر سوانح اور ان کے لیکچرس کے مجموعہ پر مشتمل دو کتابیں اردو میں موصول ہوئی ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ان کتابوں کے مترجم پاکستان، کراچی کے راجہ شہزاد ہیں۔ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ ہندو ہیں یا مسلمان کیوںکہ پاکستان میں رہنے والے ہندوئوں کی نئی نسل میں بھی ایسے نام رکھنے کا چلن ہوگیا ہے۔ زیرنظر پہلی کتاب ’’سوامی جی کے جیون کی مختصر کہانی: سوامی وویکانند‘‘ کوزے میں دریا کی مانند ہے۔ سوامی وویکانند جن کا خاندانی نام نریندر ناتھ دت ہے، 12 جنوری 1863 کو کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک کامیاب وکیل وشوناتھ دت کے یہاں پیدا ہوئے۔ ان کے والد انگریزی کے علاوہ فارسی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ ان کی والدہ بھونیشوری دیوی نے شاہانہ طبیعت پائی تھی، فہم اور ذہانت کے ساتھ ان کی متانت مشہور تھی اور لوگ ان سے اہم امور میں مشورہ کرتے تھے۔ انہیں ’ایشور‘ پر کامل یقین تھا اور ان کو رامائن اورمہابھارت کے طویل حصے زبانی یاد تھے۔ سوامی وویکانند کے دادا درگا چرن دت سنسکرت اور فارسی کے عالم تھے۔ قانون میں ان کو خاص مہارت تھی لیکن دنیا سے اکتاکر وہ اس وقت تارک الدنیا ہوگئے تھے جب کہ ان کا لڑکا وشوناتھ صرف ایک سال کا تھا۔
اس کتاب میں وویکانند کے بچپن کے دلچسپ واقعات کے ساتھ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ وہ بچپن ہی سے ’رام چرتر‘ سننے میں مگن ہوجاتے تھے۔ گھر میں ان کو ’نرن‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ دسویں کے بعد نریندر پریذیڈنسی کالج میں داخل ہوئے، اس کے کچھ عرصہ بعد وہ اسکاٹش مشنری بورڈ جنرل اسمبلی انسٹی ٹیوشن چلے گئے۔ کالج کی تعلیم کے دوران میں نریندر نے سب پر اپنی قابلیت کا سکہ اس طرح جمایا کہ کالج کے پرنسپل W.W. Hastie نے لکھا:
’’میں نے دور دراز کا سفر کیا ہے، لیکن اتنی قابلیت اور ذہانت کا مالک کسی لڑکے کو نہیں پایا، یہ لڑکا بڑا ہوکر زندگی میں نمایاں کام کرے گا۔‘‘
اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مذہبی رجحان کے سبب نریندر کو دیوی دیوتائوں سے بے پناہ عقیدت تھی لیکن اس کی بے چین طبیعت کو اپنی شردھا اور بھگتی کے لیے منطق اور دلائل کے سہارے کی تلاش تھی۔ دریں اثنا برہمو سماج کے باغی لیڈر اور لبرل مصلح کیشب چندر سین کے لکچر اور مضامین سے نریندر بے حد متاثر ہوئے۔ وہ برہمو سماج تحریک کے ممبر ہوگئے۔ اس تحریک نے اس وقت سناتن دھرم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رکھی تھی۔ مورتی پوجا، بے شمار دیوی دیوتائوں، ایشور اوتار، گرو بھگتی سب پر بے پناہ نکتہ چینی کی جارہی تھی اور ایک ہی ’پرماتما‘ کا پرچار کیا جارہا تھا۔ لہٰذا نریندر کا اعتماد بھی دیوی دیوتائوں پر سے اٹھ چکا تھا۔ تاہم رفتہ رفتہ نریندر اُپنشدوں کی تعلیم کے سبب کشمکش میں مبتلا ہونے لگا۔ ’تلاشِ حق‘ کی جستجو میں بے قرار ہوکر وہ برہمو سماج کے بزرگ لیڈر مہرشی دیویندر ناتھ ٹیگور کے پاس پہنچا اور ان سے چند سوالات کیے۔ ان کے جواب سے مایوس ہوکر وہ گم صم رہنے لگا۔ دریں اثنا کالج کے پرنسپل ولیم ہیسٹی کی ایک بات اسے یاد آگئی جنہوں نے ’’روحانی مسرت‘‘ کے ذیل میں سری رام کرشن کی تعریف کی تھی۔ لہٰذا اس نے سری رام کرشن سے ملنے کا فیصلہ کرلیا۔
سری رام کرشن کلکتہ سے صرف چار میل شمال کی طرف دکنیشور کی بستی میں کالی دیوی کے مندر میں ’وصل الٰہی‘ کے سرور میں مگن رہتے تھے۔ ان کی پیدائش ہگلی کے ایک گائوں میں ایک غریب برہمن کے گھر میں ہوئی تھی۔ غریبی سے مجبور ہوکر وہ چھوٹی عمر میں ہی دکشنیشور کی کالی دیوی کے مندر میں پجاری کے کام پر لگ گئے تھے۔ انہوں نے کسی قسم کی باقاعدہ تعلیم نہیں پائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ان کی سچی شردھا اور بھگتی کی بدولت ان کو دیوی کے درشن نصیب ہوئے اور یہ بھی کہ انہوں نے ’بھگوان‘‘ کو ہر روپ میں دیکھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہندو مذہب کے دیوی دیوتا ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں۔