تھریسامے کے روسی صدر پوتن پر انتخابی مداخلت اور سائبر جاسوسی کے الزامات

لندن،15 نومبر(پی ایس آئی)تھریسامے نے روس پر شدید ترین حملہ کرتے ہوئے روسی صدر ولادی میر پوتین پر الزام لگایا ہے کہ وہ انتخابات میں مداخلت اور سائبر جاسوسی کررہے ہیں۔ روس پر الزامات لندن میں انہوں نے سرکردہ بزنس شخصیات سے خطاب کے دوران لگائے، تھریسامے نے کہا کہ ولادی میر پیوٹن کی حکومت فری سوسائٹیز کو کمتر کرنے کی کوشش کررہی ہے، مغرب میں انتشار پھیلانے کے لئے جھوٹی کہانیاں گھڑی جارہی ہیں تاہم انہوں نے کہاکہ برطانیہ روس کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا۔ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ تھریسامے کے یہ کمنٹس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے برعکس ہیں کہ روسی صدر کے 2016 کے امریکی صدر کے انتخابات میں مداخلت کی تردید کے بیان پر یقین رکھتے ہیں ، فارن سیکرٹری بورنس جانسن اگلے ماہ روس کا دورہ کریں گے۔ لندن میئر کے استقبالیہ میں مرکزی فارن پالیسی تقریر کو تھریسامے نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے لئے انتہائی سادہ پیغام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں(پیوٹنکو) اس سے ایک بالکل مختلف راستہ اختیار کرنا چاہئے جو انہوں نے حالیہ برسوں میں کریمیا کو شامل کرکے یوکرائن سے کشیدگی بڑھائی اور یورپی حکومتوں اور پارلیمنٹس کے خلاف سائبر حملے شروع کیے روس ویسٹ کا قابل اعتماد پارٹنر ہوسکتا ہے لیکن صرف اس صورت میں جب وہ رولز کے مطابق کھیلے، انہوں نے کہا کہ روس نے بارہا مختلف یورپی ملکوں کی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں کیں اور سائبر جاسوسی کی مہم چلائی اور تعطل پیدا کیا۔ ان میں انتخابی مداخلت اور ڈینش منسٹری آف ڈیفنس، ہینڈسٹیگ ودیگر کی ہیکنگ شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بہتر طورپر یہ جانتے ہیں کہ ہماری جمہورتیوں کا انحصار کس پر ہے۔ فری اور اوپن سوسائٹیز کی دیرپا کشش اور مغربی اقوام کی کمٹمنٹ ہمیں اکٹھے رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ نے یورپی یونین چھوڑ دی اور دنیا میں نیا راستہ اختیار کیا۔ وہ نیٹو اور لبرل اقدار کو مستحکم کرنے والی بریگزٹ ڈیل کے لئے مخلص ہے مزید براں برطانیہ اور یورپی یونین میں مستحکم اکنامکس پارٹنر شپ یورپ میں روسی احتجاج کے خلاف بل وارک ہوگی۔ بورس جانسن فارن سیکرٹری کا عہدہ سنبھالنے کے بعد دسمبر میں پہلی بار روس کے دورے پر جارہے ہیں ، بورس جانسن نے ماہ رواں کے اوائل میں ایم پیز سے کہا کہ میں نے ایسے کوئی شواہد نہیں دیکھے کہ روس نے برطانیہ کے انتخابات یا بریگزٹ 2016ءووٹ میں مداخلت کی ہو جس کے بارے میں روس کا اصرار ہے کہ وہ نیوٹرل تھا۔ تھریسامے نے کہا کہ ہم روسی سرگرمی کے خلاف ضروری ایکشن لیں گے۔ ہم روس کے ساتھ سرد جنگ کے دور یا کشیدگی میں نہیں جانا چاہتے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے روس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی استحکام کو فروغ دینے میں اپنا اہم کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ روس ایک دن اس مختلف راستے کو اختیار کرے گا اور وہ یہ کرسکتا ہے۔ تاہم جب تک روس ایسا نہیں کرتا تو ہم متحد ہوکر اپنے مفادات اور انٹرنیشنل آرڈر کا دفاع اور تحفظ کریں گے جس پر وہ انحصار کرتے ہیں۔ تھریسامے کی تقریر کے جواب میں سابق لیبرکیبنٹ منسٹر بین براڈشا نے جو تقریباً ایک سال سے روسی مداخلت کے ایشو کو اٹھا رہے ہیں ٹوئیٹ کیا کہ اب اچانک تھریسامے روسی مداخلت کے ایشو کو کیوں اٹھا رہی ہیں جبکہ یہ مہینوں سے نوشتہ دیوار ہے۔ میڈیا پالیسی میں شامل روسی سینیٹر الیکسی پیشکوف نے پرائم منسٹر کے کمنٹس کو مسترد کردیا اور کہا کہ انٹرنیشنل سسٹم آف رولز کو روس سے نہیں بلکہ ان سے تحفظ دینے اور بچانے کی ضرورت ہے جو مداخلتوں، بغاوتوں اور رجیم چینج کی وکالت کرتے ہیں۔ روس ان رولز کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا جو ورلڈ آرڈر مس مے کو مناسب لگتا ہو جیسا کہ عراق پر قبضہ، لیبیا میں جنگ، آئی ایس کا ابھار اور یورپ میں دہشت گردی ان سب کو آپ روس پر حملہ کرکے محفوظ نہیں کرسکتے۔ تھریسامے نے اپنی تقریر میں میانمار کے حکام سے کہا کہ وہ صوبہ رخائن میں روہنگیا افراد کی نسل کشی کی مکمل ذمہ داری قبول کریں۔