جام ہی جام ، عوام پریشان ، کب ہو گا جام سے نجات

پٹنہ ، 28 نومبر ( امتیاز کریم ) جام تو اب ایک معمول بن کر رہ گیا۔ جام سے مطلب وہ جام نہیں جس کو لوگ پیتے ہیں۔ اس پر تو پابند ی ہے ہی پھر بھی پابندی کے باوجود پابند ی سے آزاد ہے اور آئے دن چھاپے پڑ رہے ہیں اور لوگ پکڑے بھی جارہے ہیں ۔ مگر جام کی پستی ختم نہیں ہورہی ہے۔ دوسرا جام روڈ پر آٹو کی بھیڑ جس سے لوگوں کا چلنا پھرنا دشوار ہورہا ہے۔ شام کے 6 بجے ہیں ۔ اسٹیشن سے کنکڑ باغ جانے کے لئے چڑیا ٹار پل کی طرف اسٹیشن گولمبر کے پاس سے ہی جام کا جو سلسلہ لگتا ہے اس سے لوگ عاجز ہیں۔ لوگ اپنی گاڑی کو آگے کرنے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ بیچ بیچ میں آٹو ، سائیکل ٹھیلہ اور رکشہ کی وجہ گاڑیاں لگ بھگ رینگتی ہوئی نظرآتی ہیں ۔ گولمبرکے ٹھیک بعد سڑک پر ہی آٹو اسٹینڈ بنا لیاگیا ہے اور آس پاس کوئی ٹریفک پولس دکھائی نہیں پڑتا۔ لگ بھگ 15 منٹ کی جدو جہد کے بعد میٹھا پور پل کے پاس پہنچتے ہیں۔ پل پر چڑھنے سے پہلے ہی جام لگاہوا ہے۔ پل پر کئی آٹو لگے ہوئے ہیں، دو ٹیمپو تو بالکل سامنے کھڑے ہیں ۔پل کا بڑا حصہ بند ہوگیا ہے۔ گذشہ موجود گاڑیوں کے بار بار ہارن بجانے پر آٹو کھسکتا ہے۔ کنکڑ باغ علاقہ میں اتر نے کے پہلے ہی دو بارہ جام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کربگہیا سے آنے والی گاڑیاں اورچڑیا ٹاڑ پل پر اتر نے والی گاڑیاں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی تاک میں ہیں ۔ دوسری طرف کربگہیا سے آنے والی کئی گاڑیوں کو پل کے بغل سے ہوتے ہوئے کالونی موڑ کی طرف جانا ہے۔ اس دوران کئی گاڑیاں ایک دوسرے کے آگے راہ روک کر پہلے خود پاس کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں ۔ چڑیا ٹار پل کے نیچے پٹرول پمپ سے لے کر آگے پل کے نیچے نیچے درجنوں دکانیں اور کمیونٹی ہال وغیر ہ ہیں۔ ان دکانوں کے آگے بھی گاڑیاں پارک ہیں ، جو پل کے آس پاس جام کو بڑھا ہیں ۔پل کے نیچے سے اتر کر پل پر چڑھنے یا کالونی موڑ کی طرف جانے میں 20 منٹ سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ وقت کو کیسے آزاد کیا جائے ۔