صدر موگابے کو بے دخل کیے جانے کے بعد رمبابوے غیر یقینی حالات کا شکار

زمبابوے 16نومبر (آئی این ایس انڈیا)زمبابوے کی فوج کی طرف سے ملک کا اقتدار سنبھالنے کے نتیجے میں عوام بے یقینی کا شکار ہو گئے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق صدر رابرٹ مگابے حرارے میں اپنے گھر پر نظر بند کر دیے گئے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ گریس مگابے نمیبیا فرار ہو گئی ہے۔ ترانوے سالہ مگابے سن انیس سو اسی میں زمبابوے کی آزادی کے بعد سے ملک کے سربراہ رہے ہیں۔ افریقی ممالک نے زمبابوے کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملک کی فوج صورتحال کو واضح کرے۔ عالمی برداری نے بھی اس افریقی ملک میں فوج کی طرف سے اقتدار سنبھالنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔فوج نے رات سرکاری ٹیلی ویڑن کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔اس کے بعد ملک میں فوجی بغا وت کی قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں لیکن فوج کے حامیوں نے اس کے اقدام کی تعریف کی ہے اور اس کو ”خونریزی کے بغیر درستی“ قرار دیا ہے۔منگل اور بدھ کی درمیانی شب ہرارے میں تین دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئی تھیں۔اس سے پہلے آرمی چیف کی بر طرف نائب صدر کی حمایت میں دھمکی آمیز بیان کے بعد چار ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں شہر کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھی گئی تھیں۔ زمبابوے میں غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر شہریوں نے بنکوں سے اپنی رقوم نکلوانا شروع کردی ہیں اور بنکوں میں صارفین کی لمبی قطاریں دیکھی گئی ہیں۔مجرموں کے خلاف کارروائی:زمبابوے کی براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا کنٹر ول حاصل کرنے کے بعد آرمی کے ترجمان میجر جنرل سِبو سیسو مو یو نے کہا کہ فوج صدر موگابے کے ارد گرد موجود ” مجرموں“ کو ہد ف بنا رہی ہے اور وہ ملک میں صورت حال کو معمول پر لانا چاہتی ہے۔بدھ کو یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ 93 سالہ موگابے اور ان کی اہلیہ کہاں ہیں لیکن بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ فوج کی حراست میں ہیں۔انھوں نے منگل کو کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس میں شرکت کی تھی۔جنوبی افریقا کے صدر جیکب زوما کا کہنا ہے کہ صدر موگابے اپنے گھر پر نظر بند ہیں۔البتہ جنرل مویو نے نشری بیان میں کہا :” ہم قوم کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ جناب صدر اور ان کا خاندان محفوظ ہیں اور ان کی سکیورٹی کی ضمانت دی جاتی ہے“۔انھوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ ”یہ فوج کا اقتدار پر قبضہ نہیں ہے۔ہم صرف صدر کے ارد گرد موجود ان مجرموں کو ہدف بنا رہے ہیں ، جنھوں نے جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور ملک کو درپیش سماجی اور اقتصادی مسائل کا سبب بنے ہیں“۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ جونہی ہمارا مشن مکمل ہو جاتا ہے تو ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ صورت حال معمول پر آجائے گی۔ انھوں نے دوسری سکیورٹی فورسز پر زوردیا ہے کہ وہ ملک کے مفاد میں فوج کے ساتھ تعاون کریں۔فوجی ترجمان نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی اشتعال انگیزی کی صورت میں سخت جواب دیا جائے گا۔واضح رہے کہ صدر رابرٹ موگابے نے نائب صدر ایمرسن نانگاگوا کو گذشتہ ہفتے برطرف کر دیا تھا جس کے بعد ملک میں یہ نیا بحران پیدا ہوا ہے اور فوج کے سربراہ نے سوموار کو ایک بیان میں بحران کے حل کے لیے مداخلت کی دھمکی دی تھی۔ تاہم حکمران جماعت کے یوتھ ونگ نے ان پر آئین کو سبوتاڑ کرنے کی کوشش کا الزام عاید کیا تھا۔75 سالہ ایمرسن نانگاگوا کو رابرٹ موگابے کے ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ انھوں نے 1970ءکے عشر ے میں زمبابوے کی آزادی کی جنگ میں بھی حصہ لیا تھا لیکن صدر نے انھیں 6 نومبر کو چلتا کیا تھا۔وہ برطرفی کے بعد ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔واضح رہے کہ رابرٹ موگابے زمبابوے کی آزادی کے بعد گذشتہ 37 سال سے ملک کے صدر چلے آرہے ہیں۔ زمبا بوے کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ صدر موگابے کی حکومت اور مسلح افواج کے درمیان ٹھن گئی ہے۔ فوجی سربراہ جنرل کانسٹن ٹینو چی ونگا نے سوموار کو کہا تھا کہ اگر آزادی کی جنگ میں حصہ لینے والو ں کی تطہیر کا سلسلہ بند نہ ہوا تو وہ سیاست میں کود پڑیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ فوج انقلاب کو بچانے کے لیے قدم آگے بڑھانے سے گریز نہیں کرے گی۔گذشتہ ایک ہفتے سے یہ بھی اطلاعات گردش کررہی تھیں کہ صدر اپنی اہلیہ 52 سالہ گریس موگابے کو برسر قتدار لانے کی راہ ہموار کررہے ہیں اور وہ انھیں نائب صدر بنا نا چاہتے ہیں۔ حکمر اں جماعت زانو پی ایف کے یوتھ ونگ میں شامل نوجوانوں بھی ان کی بھرپور حمایت کررہے ہیں۔
مگر خاتون اول کا آزادی کی جنگ میں حصہ لینے والوں سے تنازعہ پیدا ہو چکا ہے۔ماضی میں ان بزرگ لیڈروں کا حکمراں جماعت میں نمایاں اثر ورسوخ رہا ہے۔ وہ اس کے کرتا دھرتا اور مراعات یافتہ رہے ہیں ۔
لیکن حالیہ برسوں کے دوران میں انھیں جماعت اور حکومت کے اعلیٰ عہدوں سے ایک ایک کرکے ہٹا دیا گیا ہے۔