فرانس : 11 سالہ طالبہ کو ماں بنانے والا نوجوان عصمت ریزی کے الزام سے بری

پیرس ،13 نومبر(پی ایس آئی)فرانس میں ایک جیوری نے ایک شخص کو گیارہ سالہ اسکول طالبہ کی عصمت ریزی کے الزام سے بری کردیا ہے اور کہا ہے کہ اس کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ اس نے اس بچی کو زبردستی جنسی تعلق کے لیے مجبور کیا تھا۔دارالحکومت پیرس کے نواح میں واقع علاقے سین ایت میرن کی ایک فوجداری عدالت کی جیوری کے ارکان نے اس مقدمے کی دو روز تک سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا ہے۔پبلک پراسیکیوٹر ڈومینیک لورنز نے کہا ہے کہ جبری آبروریزی کے مشمولہ عناصر مثلاً ” زور زبردستی ، دھمکی ، تشدد اور اچانک“ فعل کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔فرانسیسی روزنامے لی پارسین کی رپورٹ کے مطابق پراسیکیوٹرز نےاس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی ہے۔استغاثہ کے مطابق و اقعے کے وقت مشتبہ ملزم کی عمر بائیس سال تھی اور اس نے سنہ 2009ء میں ایک پارک میں اس لڑکی سے م±نھ کالا کیا تھا۔اس بچی کے والدین کو واقعے کا اس وقت پتا چلا تھا ،جب وہ حاملہ ہوگئی تھی۔اس کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کی عمر اب سات سال ہے اور اس کو بچوں کی نگہبانی کے ایک ادارے کے ہاں منتقل کردیا گیا تھا۔اس شخص نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس نے لڑکی سے اس کی رضا ورغبت سے جنسی فعل کا ارتکاب کیا تھا اور اس نے اپنی عمر کے بارے میں جھوٹا بولا تھا۔اس وقت اس لڑکی کی عمر چودہ سال تھی اور وہ بہت جلد پندرہ سال کی ہونے والی تھی۔فرانس میں فرد کا اپنی رضا و منشا کا مالک ہونے کی عمر پندرہ سال ہے۔پراسیکیوٹرز کو ابھی یہ ثابت کرنا ہے کہ اس جنسی فعل میں لڑکی کی رضا شامل نہیں تھی۔اس صورت ہی میں مشتبہ ملزم کے خلاف جبری عصمت ریزی کی فرد ِج±رم عاید کی جاسکتی ہے۔پراسیکیوٹر ملزم کو جبری آبرور یزی کے الزام میں آٹھ سال قید دلوانے کے خواہاں تھے جبکہ فرانس کے ضابطہ فوجداری کے تحت کسی کم عمر سے جنسی ملاپ پر مجرم کو پانچ سال قید اور 75 ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔قبل ازیں ستمبر میں بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا تھا اور اس کے بعد اس قانون کو سخت بنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔اس کیس میں پراسیکیوٹر نے اٹھائیس سالہ ملزم کے خلاف گیارہ سالہ لڑکی پر جنسی حملے کا الزام عاید کیا تھا اور اس کے خلاف جبری عصمت ریزی کا الزام عاید نہیں کیا تھا کیونکہ تفتیش کار رضا مندی سے جنسی تعلق کے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے تھے۔ متاثرہ خاندان نے دو بچوں کے باپ اس ملزم کے خلا ف جبری زنا کے الزام میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ واقعے کے بعد لڑکی اس شخص کے ساتھ گھر پہنچی تھی۔اس وقت اس کی حالت غیر ہوچکی تھی۔ وہ گھبرائی ہوئی تھی اور اس خوف میں مبتلا تھی کہ وہ گھر والوں کے سامنے اپنا دفاع نہیں کرسکے گی۔بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ نے اس کیس کے بعد کہا تھا کہ ” اگر کم سن بچیوں سے جبری زیادتی کی جاتی ہے تو اس معاملے میں رضا مندی یا بغیر رضا مندی کا تو سوال ہی نہیں اٹھایا جانا چاہیے“۔