نئی دہلی04نومبر(ابصار احمد صدےقی )مرکزجماعت اسلامی ہند میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے کہا کہ ریاست اتر پردیش کی پولس نے گزشتہ چھ ماہ میں 431انکاو¿نٹرکے ذریعے 17ملزمین کو مار گرایا ،جو ایک تشویش کی بات ہے۔ اعداد و شمار پرغور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر بارہ گھنٹے میں ایک انکاو¿نٹر ہوا ۔ یو پی پولس آفیسر کا بیان ہے کہ انکاو¿نٹر کے ذریعے 1106ملزمین کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے 84 زخمی ہےں۔امیر جماعت نے کہا کہ قانون اور نظم و نسق کی بالا دستی اور بہتری کو پولس انکاو¿نٹر کی تعداد سے جوڑے جانے کا رجحان انتہائی تشویش ناک ہے ۔ تشویش اس وقت مزید بڑھ جاتی جب ظاہر ہوتا ہے کہ ان انکاو¿نٹر کے پیچھے سیاسی دباﺅ کار فرما ہے۔ واضح رہے کہ یوپی کے وزیر اعلیٰ نے حکومت میں آنے کے بعد کہا تھا کہ مجرم اگر جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے ڈھیر کر دیا جائے گا۔ امیر جماعت نے کہا کہ یقینا پولس کا کام قانون کی پاسبانی کرنا ہے، مگر اتنے قلیل عرصہ میں اتنے زیادہ انکاو¿نٹر سے اس بات کا خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں بہت سے فرضی بھی ہو ں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پولس اپنے حریفوں کا صفایا کرنے کے لیے انکاو¿نٹر کے اختیارات کو غلط طور پر استعمال کر رہی ہو۔ امیرجماعت نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند مطالبہ کرتی ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن اتنے بڑے پیمانے پر ہو رہے انکانٹرس کا نوٹس لے اور اس بات کی تفتیش کرے کہ کہیں قانون کی حفاظت کے نام پر اس کا غلط استعمال تو نہیں کیا جا رہا ہے۔ بابری مسجد تنازعہ پر ایک سوال کے جواب میں مولانا عمری نے کہا کہ ایک بات تو یہ کہ نہیں معلوم شری شری روی شنکر کہ کن لوگوں سے ملاقات کر رہے ہیں اور ان کا کیا جواب ہے؟ جہاں تک میرے علم میں ہے ، انہوں نے مسلم پرسنل لا بورڈ سے ملاقات نہیں کی۔ مجھ سے بھی ان کی ملاقات نہیں ہوئی۔ اس طرح کی کوششیں اس سے پہلے بھی ہو چکی ہیں، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اس لیے اس کی توقع نہیں ہے کہ اس کوشش کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ اس معاملے میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا موقف یہ ہے کہ معاملہ کورٹ میں ہے اس لیے اس کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہیے۔ امیر جماعت مولانا عمری نے کہا کہ دیوبند اور اس کے اطراف کے علاقوں میں وہ تمام شہری جو پاس پورٹ رکھتے ہیں، ان کے کاغذات کی پولس کے ذریعہ تلاشی کی خبروں پر جماعت اسلامی ہند تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انھیں دوبنگلہ دیشی دہشت گردوں سے جعلی پاسپورٹ ملے ہیں جن میں گھر کا پتہ دیوبند شہر بتایا گیا تھا۔ یہ تلاشی اسی کو لے کر چل رہی ہے۔ جماعت کا موقف یہ ہے کہ دہشت گرد اور مجرم، جن کا جرم ثابت ہو چکا ہے، وہ یقینا سزا کے مستحق ہیں،مگر انتظامیہ کو عام شہریوں کے تعلق سے بہت زیادہ احتیاط برتنی چاہےے تاکہ انہیں بلا وجہ کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جماعت مطالبہ کرتی ہے کہ پاسپورٹ جاری کرنے کے کچھ ایسے طریقے اپنائے جائےں جن سے عام شہریوں کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔ پریس کانفرنس کی ابتدا میں سکریٹری جنرل محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ جب سے 24 سالہ ڈاکٹر ہادیہ (سابق نام اکھیلا اشوکن) نے ایک مسلم نوجوان شفیع جہاں سے نکاح کیا ہے، تب سے اس کے ساتھ بدسلوکی کی جا رہی ہے۔ جماعت اسلامی ہند اس معاملے پرگہری تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ حال میں میڈیا کے ذریعے نشر کیے گئے ایک ویڈیو میں ہادیہ نے شکایت کی ہے کہ اسے اس کے والد اشوکن نے نظر بند کر لیا ہے، اس کے ساتھ تشدد کیا جا رہا ہے ، اسے اپنی جان کا خوف ہے۔ اشوکن نے پولس سے شکایت کی کہ ہادیہ دہشت گرد تنظیموں کے چنگل میںپھنس گئی ہے۔ کیرلہ ہائی کورٹ نے ہادیہ کے نکاح کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نکاح محض دھوکا ہے ،جوہادیہ کو دہشت گرد کارروائیوں میں آگے بڑھانے کے لیے رچا گیا ہے۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اس نے این آئی اے سے درخواست کی کہ وہ اس پورے معاملے کی تفتیش کرے اور یہ بھی دیکھے کہ کیا ریاست کیرلہ میںہندو لڑکیوں کو زبردستی یا لالچ دے کر مسلمان بنایا جا رہا ہے؟ جماعت امید کرتی ہے کہ کوٹیم پولس ہادیہ کی حفاظت کا پورا انتظام کرے گی ،تاکہ اسے کسی قسم کے خوف و ہراس سے گزرنا نہ پڑے ۔میڈیا کی رپورٹ سے معلوم ہو رہا ہے کہ این آئی اے نے سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ انھیں کیرلہ میں زبردستی یا دباﺅ میں تبدیلی مذہب کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ این آئی اے ہادیہ سے ملاقات نہیں کر سکا ،کیوں کہ بقول اس کے والد اشوکن کے اس وقت ہادیہ کی ذہنی کیفیت ٹھیک نہیں ہے۔ 27 نومبر کو ہادیہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوگی اور اپنی منشا اور موقف بیان کرے گی۔ جماعت امید کرتی ہے کہ ہادیہ کو انصاف ملے گا اور عدلیہ اس کی مذہبی آزادی ا ور شادی کرنے کے بنیادی حق کو بحال کرے گی۔