قرآن کریم دلوں کی بہار بنے

باسط ابن مشتاق۔۔ محمد پورہ کولگام
 آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل انسانیت جہالت کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی تھی،گناہوں میں لتھڑی ہوئی تھی ۔ان ہی حالات میںمکہ میں طلوع اسلام ہواجس نے تمام عا لم کو منور کردیا۔اس نور کی کرنیں آج تک تمام عالم میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اسلام نے ہمہ گیرہدایت ، انقلاب آفرین پیغام ، ابدی اصلاح اور دائمی ہدایت قرآن مجیدکی صورت میں دنیا کو دیا۔اس کیمیا اثر الکتاب سے  انسانیت سنور نے لگی،کائنات جھومنے لگی، کعبہ مسکرانے لگا،امن کا پرچم بلند ہوا۔ جب تک مسلمانوں نے اس کتاب ِ حق کو تھامے رکھا، کامیابی ان کا نصیب ،فتح ان کا مقصد ،سربلندی ان کا مقام رہا۔ان کے ہاتھ وقت میں زمام کار رہی،کفر حق کے سامنے ذلیل ہوتا رہالیکن  جب مسلمان نورِ ہدایت کو پس پشت ڈال گئے تو تاریخ نے یہ روز ِ بد دیکھا کہ حاکم محکوم بن گئے، انتشار کی جے جے کار ہوئی ، مسجدیں تاراج ہوئیں ،لاکھوں لوگ قتل ہوئے ۔ایک وہ وقت تھا کہ نگاہ مردِ مومن سے ہی دُشمن کانپ جاتے تھے اور اب یہ حالت آئی کہ ان کی گردن اوپر  اُٹھتی ہی نہ تھی کیوں کہ یہ کم نصیب مسلمان قرآن کو بھلا کر نصرت ِ خداوندی کھوگئے۔
آج ہماری مثال اس بھٹکے ہوئے مسافر کی سی ہے جس کی کوئی منزل نہیں اور جو بالکل ہی منزل سے بے گانہ ہوا ہے۔جب قرآن ہم سے کہہ رہا ہے کہ ’’یہ کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائو‘‘( سورہ ابراہیم)۔افسوس آج کا مسلمان روشنی سے بھاگ رہا ہے،جان بوجھ کر تاریکیوں میں ڈوب رہا ہے،غفلت کی نیند سورہا ہے اور بھول رہا ہے کہ قرآن اور مسلمان کا تعلق جسم و جان کی طرح ہے،قرآن کے بغیر مسلمان روح ِ اسلام سے محروم اور اللہ تعالیٰ سے دور ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر ہم دستورِ حیات ہی کو بھلا بیٹھیں تو ہماری حیاتِ دنیوی کیسے بسر ہو گی؟ اسی طرح جیسے ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں ۔بلا شبہ قرآن کا حق ہے کہ اسے دستورِ حیات بنایا جائے ۔ قرآن تو مسلمانوں کی روح ہے ۔قرآن اُن کی جان ہے،سرمایہ ٔحیات ہے،ضابطۂ اخلاق ہے،فلاح ونجات کا وسیلہ ہے،یہ سب کو راہِ راست پر چلاتا ہے، فقیروں کو شاہ بناتا ہے،گرتوں کو اُٹھاتا ہے،بھٹکوں کو راہ دکھاتا ہے،نادانوں کو سمجھاتا ہے،انسان کو اس کا بھولا ہوا مقصد ِ زندگی یاد دلاتا ہے لیکن جب اس کی روشنی سے منہ موڑ اجائے، تو قوم وملت کا حال کا یہ ہوا کہ ہماری ہوا اکھڑ گئی،بہ حیثیت اُمت ہم ختم ہوگئے۔حالانکہ دنیا میں بسنے والے اربوں مسلمان اگر ایک پھونک ماریں تو پہاڑوں پر لرزہ طاری ہو جائے گا ،لیکن ہم تو اس قابل بھی نہیں رہے کہ غاصبوں سے اپناسلب شدہ حق مانگ سکیں ، آج اقوامِ متحدہ ہمیں کسی گنتی میں شمار نہیں کرتااور ستم یہ کہ ستاون مسلم ممالک اُ ف تک نہیں کہہ سکتے ۔ِہمارا یہ حال ہے    ؎
گنوادی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے ماراــ
مسلمانوں کو زوال پزیر ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس مقدس ترین کتاب کی تلاوت صرف ’’برائے ثواب ‘‘ برائے رہنمائی نہیںاور نہ اس پر غور و فکر کرتے ۔شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کا معمول تھا کہ وہ بعد نماز فجر قرآن ِ پاک کی تلاوت کرتے تھے ۔ان کے ابا ا پنے  لائق فرزند سے کہاتھا :’نور چشم! میں چاہتا ہوں کہ تم قرآن اس طرح پڑھو گویا یہ ابھی تم پر نازل ہورہا ہے‘۔تبھی تو علامہ اقبالؒ نے فرمایا  ؎
تیرے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزولِ قرآن
گرہ کشا ہے رازی ،نہ صاحبِ کشاف
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قرآن الکریم کوہمارے دلوں کے لئے بہار بنائے اور ہمارے اعمال کو درست فرمائے۔آمین ثم آمین