مذہبی عدم رواداری پاکستانی معاشرے کے لیے خطرہ : ایلس ویلز

واشنگٹن 10نومبر (آئی این ایس انڈیا) سال 2018ءکے لیے، پاکستان اور افغانستان کے امریکی وزارت خارجہ کے مجوزہ بجٹ پر بحث کے لیے سینیٹ کی دو قائمہ کمیٹیوں کی مشترکہ سماعت بدھ کو واشنگٹن میں ہوئی جس میں کمیٹی کے ارکان نے امریکہ کی افغان پالیسی کے تناظر میں سوالات حکام کے سامنے رکھے۔ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے لیے مجوزہ بجٹ کی مد میں ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر مختص کیے گیے ہیں، جس میں افغانستا ن کے لیے تقریباً 800 ملین ڈالر رکھے گیے ہیں ، جبکہ پاکستان کے لیے تقریبا 345 ملین ڈالر رکھے گیے ہیں۔امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان پاکستان، ایلس ویلز اور یو ایس ایڈ کے سینئر نمائندے، گریگری ہیوگر نے کمیٹی کے سامنے پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے انتظامیہ کا مو¿قف پیش کیا۔سماعت کے آغاز ہی میں کمیٹی کی چئیرپرسن نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ اس کے باوجود کہ صدر ٹرمپ نے اسلا م آباد سے دہشتگردوں کی مبینہ پناہ گاہوں کے خا تمے کے لیے واضع اقدامات اٹھانے کو کہا ہے۔ لیکن، نئی افغان حکمت عملی سے یہ واضع نہیں ہوتا کہ ہم پاکستان کو اس کی قومی سلامتی سے متعلق تر جیحات تبدیل کرنے پر کیسے مجبور کریں گے۔ ایک موقع پر ارکان کو کمیٹی کی کارروائی اس وقت روکنی پڑی جب کمرے میں موجود ایک شخص نے افغانستان میں جاری 16 سالہ جنگ ختم نا ہو سکنے پر با آواز بلند احتجاج کرنا شروع کر دیا۔کمیٹی کے رکن، ٹیڈ یوہو، جو امریکی ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی کے نائب چئیرمین بھی ہیں، پا کستان کی انسداد دہشتگردی کے حوالے سے کو ششوں سے متاثر نظر نہیں آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد سے پاکستان نے انسداد دہشت گردی کی مد میں امریکہ سے دسیوں ارب ڈالر وصول کیے۔ لیکن، اس کے باوجود پاکستان میں دہشت گرد گروہ کھلے عام اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب ایسا کیا ہوگا کہ پاکستان اپنی سمت تبدیل کرے گا۔سماعت کے دوران، امریکی حکام سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا پاکستان ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کر رہا ہے جس پر نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر امریکہ پاکستان سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن، فی الحال اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔کمیٹی کے ارکان نے قائم مقام نائب سیکرٹری سے پوچھا کہ کیا وہ بتا سکتی ہیں کہ افغانستان میں جاری جنگ کب ختم ہوگی، جس پر ایلس ویلز نے معذرت ظاہر کی ۔ اس کے علاوہ، مجوزہ بجٹ میں رواں سال کے مقابلے میں 40 فیصد سے زیادہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس میں یوہو نے پوچھا کہ کیا اس کٹوتی سے امریکی خارجہ پالیسی کے اہد اف متاثر ہوں گے، جس کے جواب میں نما ئند ہ خصوصی کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔اس سماعت کے بعد، وی او اے اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نمائندہ خصوصی ایلس ویلز نے کہا کہ ”پا کستان کو معلوم ہے کہ امریکہ افغانستان سے نہیں جا رہا اور ہم طالبان کو شکست دینے کے لیے پ±ر عزم ہیں۔ نتیجتاً بہت سے اندازے بدل جائیں گے۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے افغانستان میں اپنی قومی سلامتی کے حوالے سے جائز اہداف ہیں اور ہمارا موقف ہے کہ ان اہداف کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ مذاکرات ہیں۔
اور طالبان پر دباو¿ ڈالنا کہ مذاکرات کی میز پر آنے کا وقت آگیا ہے۔“نمائندہ خصوصی، ایلس ویلز نے مزید کہا کہ دہشت گرد گروہوں کے ذریعے آج کی دنیا میں دفاعی اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ ا±ن کے بقول، ”درحقیقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے گروہوں کے باعث پاکستان کا اعتدال پسند معاشرہ اور مذہبی رواداری متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان میں بطور معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے ان میں سے کچھ منفی تبدیلیوں پر کچھ حلقوں میں تحفظات ہیں۔“امریکی نمائندہ خصوصی نے ایک بار پھر امریکی مو¿قف دہرایا کہ دہشت گرد گروہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، چاہے وہ حقانی نیٹ ورک ہو یا جیش محمد یا لشکر طیبہ۔