مسجد۔مندر: شری شری روی شنکر اپنی دکان چلائیں :نریندر گری

الہ آباد، 19 نومبر ( یو این آئی) اجودھیا تنازعہ کے مسئلے پر آل انڈیا اکھاڑہ پریشد کے صدر نریندر گری نے شری شری روی شنکر کو نصیحت کرتے ہوئے کہا، ” وہ صرف آرٹ آف لیونگ چلائیں، مندر معاملہ میں خود کو شامل نہ کریں تو بہتر ہو گا“۔مسٹر گری نے آج ’یو این آئی‘سے کہا کہ جب رام مندر کے لئے تحریک شروع ہوئی تھی، تب شری شری روی شنکر یا ان کے عہدیداران کہاں تھے. متنازعہ مسئلے پر حل کے لئے ان کوکسی سے نہیں بلایا تھا، انہوں نے اپنے آپ کو خود شامل کرلیا ہے. وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور سنت مہاتما کے بغیر مندر کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔اکھاڑہ پریشد کے صدر نے کہا کہ شری شری روی شنکر جی رام مندر مسئلے سے اپنے آپ کو جوڑ کر صرف عوام کے درمیان سرخیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ادویات فروخت کرتے ہیں، لہذا گھوم گھوم کر اس کا پرچار کر رہے ہیں۔وہ صرف اپنی دکان چلائیں. رام مندر کے معاملے میں پڑنا ان کے لئے مناسب نہیں ہے۔مسٹر گری نے کہا کہ رام مندر مسئلے کو عدالت کے باہر حل کرنے کی کوششوں کے تحت شری شری روی شنکر حال ہی میں لکھنو¿ میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور شری رام جنم بھومی ٹرسٹ کے چیئرمین نرتیہ گوپال داس اور اس سے جڑے کچھ دوسرے لوگوں سے ملاقات کر چکے ہیں۔ مسٹر داس سے ملنے کے بعد انہوں نے خود کہا،ان کے پاس کوئی فارمولہ نہیں ہے لیکن وہ ایک پلیٹ فارم دے کر اس تنازعہ سے منسلک تمام فریقوں کو بات چیت کا موقع دینا چاہتے ہیں۔اکھاڑہ پریشد کے صدر نے کہا کہ جب ان کے پاس شری رام جنم بھومی-بابری مسجد مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوئی فارمولہ نہیں ہے تو درمیان میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ اس مسئلے پر گزشتہ 13 نومبر کو آل انڈیا اکھاڑہ پریشد اور شیعہ وقف بورڈ کے درمیان ہونے والی میٹنگ میں جنم بھومی احاطے میں رام مندر کی تعمیر اور اجودھیاکی سر حدسے باہر کسی مسلم آبادی میں مسجد تعمیر کیے جانے کو لے کر باہمی اتفاق ہوچکا ہے۔انہوں نے بتایا کہ شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے صحافیوں کو اسی دن کہا تھا کہ مندر مسجد کا معاہدہ سے متعلق مسودہ کو آئندہ 5 دسمبر سے پہلے سپریم کورٹ میں داخل کر دیا جائے گا۔معاہدہ کے دستاویزسپریم کورٹ میں داخل ہونے اور عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد مندر کی تعمیر میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں آئے گی۔غور طلب ہے کہ مسٹر رضوی نے تیسری پارٹی کو لے کر بھی تصویر واضح کر دی ہے۔مسٹر رضوی کا دعوی ہے کہ بابری مسجد شیعوں کی ہے۔ اس صورت میں سنیوں کو مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ سنی نمائندے مندر کی تعمیر کو لے کر مثبت خیال کے ساتھ ان کے ساتھ کسی بھی میٹنگ میں حصہ لے سکتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ سنی وقف بورڈ کا رجسٹریشن 1944 میں ہوا تھا۔ یہ رجسٹریشن سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور سول کورٹ غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔یہ میر باقی کی بنوائی ہوئی مسجد ہے اور وہ شیعہ تھے۔ سال 1528 سے لے کر 1944 تک صرف شیعہ ایڈمنسٹریشن رہا ہے اور آخری متولی بھی شیعہ ہی رہا۔