واشنگٹن 25نومبر (آئی این ایس انڈیا) ووڈرو ولسن سینٹر میں، جنوبی ایشیا سے متعلق شعبے کے سینیر فیلو، مائیکل کوگل مین اورافغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کی سابق خصوصی ایلچی، لورل ملر کی حال ہی میں پاکستان میں منعقد ہو نے والے ٹریک ٹو ڈپلومیسی اجلاس سے واپسی ہو ئی ہے۔ ا±ن سے جب امریکی وزیر دفاع جیمس میٹِس کے دسمبر میں ہونے والے دورہ پاکستان کے بارے میں پوچھا گیا، تو کوگل مین کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر دفاع دسمبر کے پہلے ہفتے میں پا کستان جائیں گے، جبکہ اس سے پہلے امریکی فو ج کے چیئرمین آف دی جائنٹ چیفس آف سٹا ف، جنرل جوزف ڈینفورڈ بھی اسی ماہ پاکستا ن جائیں گے، اور یہ بہت اہم لمحہ ہے، کیونکہ متعدد چوٹی کے امریکی عہدیداروں نے پہلے ہی پاکستا ن کو سخت الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کو لگام ڈالے۔کوگل میں کا کہنا تھا کہ میر ے خیال میں آئندہ چند ہفتوں میں یا شاید آئندہ سال کے شروع میں، شاید یہ وقت آئے گا کہ امریکہ یہ دیکھے گا کہ پاکستان نے اب تک کیا کیا ہے، کیونکہ واشنگٹن نے معلومات اور اطلاعات شیئر کرنا شروع کیں، اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ حقانی نیٹ ورک کی خصوصی سہولتوں اور لیڈ روں کے خلاف وہ کرے جو واقعی امر یکہ چاہتا ہے۔ اور اگر امریکہ اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستا ن نے وہ سب کچھ واقعی اس طرح سے نہیں کیا جو وہ کہتا رہا ہے، تو اس سے تعلقات میں بڑی رکا و ٹ آ سکتی ہے، اور اس کا قدرتی نتیجہ امریکہ کی جا نب سے مزید سخت پالیسیاں اپنانے اور شاید سزا کی صورت میں نکلے، جیسے کہ ڈرون حملوں کو و سعت دینا۔ بنیادی طور پر امریکہ معا ملات کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے وہ سب خود کر ے گا ، جس کا وہ پاکستان سے مطالبہ کرتا رہا ہے۔ تو میرے خیال میں اس تناظر میں تعلقات میں مزید کشیدگیاں آ سکتی ہیں۔افغانستان اور پاکستا ن کے لیے سابق خصو صی ایلچی، لورل مِلر کا کہنا ہے کہ سینئر امریکی عہدیدار پاکستان جا کر پاکستا نی عہدیداروں کے ساتھ بہت واضح گفتگو کریں گے کہ اگر امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آنی ہے تو اس کےلیے امریکہ کی پاکستان سے کیا توقعات ہیں، اور میرے خیال میں وہ ممکنہ طور پر ا±ن اقدامات پر تفصیل سے بات کریں گے، جو امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اٹھائے تا کہ افغانستان کا مسئلہ حل ہو سکے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ موجود انتظامیہ پاکستان کے بارے میں سخت موقف اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، لیکن میرے نزدیک، خطے میں موجود معاملات باہم جڑے ہوئے ہیں، اس لیے امریکہ کے اس سمت میں جانے کی بھی حدود ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اعتراضات سے بالاتر ہو کر یا پاکستان کو ساتھ ملائے بغیر، افغانستان میں قیام امن کا حقیقی امکان نہیں ہے۔ افغانستان میں قیام امن کا امکان صرف اس طرح ہو سکتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ اس کے لئے قریبی طور پر مل کر کام کریں۔ سو یہ منطق ظاہر کرتی ہے کہ امر یکہ کیلئے سزا دینے کے مقاصد سے پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپنانے کی بھی حدود ہیں کہ وہ کہا ں تک جا سکتا ہے، اور میرے نزدیک پاکستا ن کے عہدیداروں میں ایک مثبت تحریک پیدا کر نے کے لیے سخت ایکشن لینے کی بھی ایک حد ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکی عہدیداروں نے حقانیو ں کے حوالے سے ایسا کوئی اقدام نہیں دیکھا جس سے یہ بنیاد کھڑی کی جا سکے کہ حقانیوں کے خلاف اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ بقول ان کے حقانیوں کو پاکستان میں جس سطح کی نقل و حرکت کی آزادی ہے، اور وہ فنڈ اکٹھا کر سکتے ہیں اور انہیں مبینہ طور پر ملک میں محفوظ پناہ حاصل ہے تو اس بارے میں واشنگٹن میں مسلسل تشویش پائی جاتی ہے۔