اسلام آباد 26نومبر (آئی این ایس انڈیا) پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کے سنگم فیض آباد میں صورتحال بدستور کشیدہ ہے اور اتوار کو علی الصبح ایک بار پھر مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والوں کے درمیان جھڑپیں ہو چکی ہیں۔تحریک لبیک یارسول اللہ اور سنی تحریک کے دھرنے پر بیٹھے مظاہرین کو یہاں سے منتقل کرنے کے عدالتی حکم کی پیروی کرتے ہوئے ہفتہ کی صبح پولیس نے کارروائی شروع کی تھی لیکن دن بھر جاری رہنے والی مڈبھیڑ اور اس میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کے بعد شام گئے انتظامیہ نے آپریشن معطل کر دیا تھا۔اطلاعات کے مطابق اتوار کو مظاہرین نے مبینہ طور پر ایک کار اور پانچ موٹرسائیکلوں کو نذر آتش کر دیا اور پولیس کی طرف سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ایک بار پھر اشک آور گیس کا استعمال کیا گیا۔مظاہرین کی قیادت بدستور فیض آباد کے پل پر براجمان ہے۔ہفتہ کو وفاقی وزارت داخلہ نے امن و امان کو قائم رکھنے میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کیا تھا جو اسلام آباد میں حساس مقامات کی حفاظت پر مامور ہو گی۔تاہم ایسے میں ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ فوج اس معا ملے پر کچھ ابہام پاتی ہے اور اس نے وزارت سے بعض امور کو واضح کرنے کا کہا ہے۔یہ خبریں اس ایک خط کی بنیاد پر سامنے آئی ہیں جو کہ فوج کی طرف سے وزارت کو لکھا گیا اور جس میں رینجرز کی تعیناتی کے لیے تحریری حکم نا مے کے نہ ہونے کے علاوہ اسلام آباد ہائی کور ٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالت نے ‘آتشیں اسلحہ’ استعمال کرنے کی ممانعت کی ہے جب کہ فوج کو بلانے کا مقصد طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔اس خط کے بارے میں تاحال حکومت کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی آزاد ذرائع سے تصدیق ہوسکی ہے۔مظاہرین کو متبادل جگہ پر منتقل کرنے یا منتشر کرنے کے لیے کیے جانے والے آپریشن کے بعد نہ صرف راولپنڈی، اسلام آباد بلکہ ملک کے تقریباً سب ہی بڑے شہروں اور بعض دیگر مقامات پر ان مذہبی جما عتوں کے حامیوں کی طرف سے احتجاجی مظا ہرے شروع ہوگئے اور اکثر مقامات پر ان کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں متعدد لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔تمام نجی نیوز ٹی وی چینلز کی نشریات اتوار کو دوسرے روز بھی بند ہیں جب کہ انٹرنیٹ صارفین کی سماجی رابطوں تک رسائی بھی تقریباً مسدود ہے۔