کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

مفتی نذیراحمد قاسمی
 سوال:۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ تین طلاق اور اُس کے ساتھ جڑے ہوئے چند مسائل کے متعلق ایک مہم چلا رہا ہے۔ اس سلسلے میں چند اہم سوالات ہیں۔
(۱) مسلم پرنسل لاء کیا ہے اس کے دائرے میں کیا مسائل ہیں؟
(۲) اسلام میں اُ س کی حیثیت اور اہمیت کیا ہے؟
(۳) اس کا تحفظ اور بقاء کیسے ممکن ہے؟
(۴)  خود مسلمانوں کا طرز عمل کیا ہے اور خود اپنی اصلاح کےلئے کن امور کی ضرورت ہے؟
(۵) مسلم پرسنل لاء بورڈ نام کا فورم کن افراد اور طبقات پر مشتمل ہے اور اس کی اعتباریت کیا ہے؟
محمد ادریس الرحمٰن متعلم علوم عالیہ
دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ کشمیر
مسلم پرسنل لاء……ہلال و حرام میں امتیاز کا نظام

 

جواب:۔  انسان کی عائلی زندگی(Family Life) کی بنیاد نکاح پر ہے پھر جب ایک مرد اور عورت کا نکاح ہوتا ہے تو دونوںپر ایک دوسرےکے حقوق اور فرائض لازم ہوتے ہیں۔ اس رشتہ نکاح کے نتیجے میں اولاد کی نعمت ملتی ہے تو اولاد کے حقوق اور فرائض کا بھی ایک دوسرا باب کھل جاتا ہے۔ پھر اگر رشتہ کامیاب نہ ہوپائے تو اُس کو ختم کرنے کے طریقہ کا ر کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ختم کرنے کا اقدام کبھی مرد کی طرف سےہوتا ہے تو اس کو طلاق، کبھی عورت کی طرف سے ہوتا ہے تو اُسے خلع، اور کبھی مسلم عدلیہ کے ذریعہ مخصوص احوال و عوارض میں نکاح ختم کر دیا جاتا ہے تو اُسے فسخِ نکاح کہا جاتا ہے۔ اگر رشتہ کامیاب رہے تو کبھی ایک دوسرے کو طرح طرح تحائف اور ہبہ کرنے کے معاملات ہوتے اور کبھی وصیت کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور پھر جب کسی ایک کی وفات ہو جائے تو اُس کی وراثت تقسیم کرنے کے مفصل ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس طرح یہ عائلی زندگی ان مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔ جو اپنی ذیلی جزئیات کی بنا پر ہزاروں احکام کا مجموعہ بنتے ہیں وہ یہ ہیں نکاح،مہر، جہیز، طلاق، خلع، نفقات، حضانت، ثبوت ِنسب، فسخ، تفریق، ہبہ، وصیت، تقسیمِ وراثت وغیرہ ۔یقیناً ان میں ہر عنوان اپنے ذیل میں بہت جزئیات و تفصیلات پر مشتمل ہے۔اس پورے مجموعہ کو پرسنل لاء بھی کہا جاتا ہے۔ عرب دنیا میں اس کو احوال شخصیہ کا عنوان دیا گیا ہے۔ جب اس شعبۂ زندگی کہ جس سے ایک خاندان کی تشکیل ہوتی ہے کےلئے قانون بنایا جائے تواگر عام انسانوں یاحکومتوں یا قانون سازی کرنے والے کسی ادارے نے وہ قانون بنا یا ہو اور کسی ملک کے تمام باشندوں پر یکساں طور پر نافذ ہو تو اُسے کامن سول کوڈ(Common Civil Code) کہتے ہیںاور اگر کسی مذہبی یا لسانی اکائی نے خو د اپنا مخصوص قانون اس کےلئے مقرر کر رکھا ہو تو اُسے پرسنل لاء (Personal Law)کہا جاتا ہے۔ چاہئے یہ کسی بھی مذہب یا سماج کے لوگوں کا ہو وہ یقیناً اُن کا پرسنل لاء کہلائے گا۔ اب مسلم پرسنل لاء عائلی زندگی کے اُن تمام اہم ابواب، جو اوپر درج ہوئے ،کے متعلق شریعت اسلامیہ کے اُس مجموعہ قوانین کا نام ہے ،جو قرآن حدیث، اجماع امت اور مجتہدین کے اجتہاد سے مدون کیا گیا ہے ،گویا مسلم پرسنل لاء مسلمانوں کے لئے اسلام کا مقرر کر دہ قانون ہے ۔نکاح، طلاق، نفقہ، حضانت، ثبوت نسب، فسخ نکاح، مہر وجہیز، خلع، ہبہ، وصیت ،وقف اور وراثت کے متعلق پیش آنے والے معاملات کے متعلق جو احکام قرآن و حدیث سے صراحتہً ثابت ہیں وہ بھی مسلم پرسنل لاءکا حصہ ہیں۔ اور جن نئے پیش آمدہ مسائل کے متعلق قرآن و حدیث میں صراحتہً اور وضاحتہً حکم موجود نہیں ہے اُن کے متعلق فقہا اور مجتہدین نے اپنے اجتہادات کے ذریعہ جو احکام بیان کئے ہیں وہ بھی مسلم پرسنل لاء کا حصہ ہیں ۔ اس طرح یہ ایک مکمل اور فطرت انسانی سے ہم آہنگ قانون ہے ۔اسلام اور دیگر مذاہب میں جو طرح طرح کے فرق ہیں اُن میں سے ایک فرق یہ بھی ہے کہ اسلام نے انسان کی عائلی زندگی کے لئے اخلاقی تعلیمات کے ساتھ مفصل قانون بھی عطا کیا ہے۔ اس لئے کسی مسلمان کےلئے اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہ اس قانون سے باہر نکلےجبکہ دیگر مذاہب میں اس سلسلے میں صرف اخلاقی تعلیمات پر اکتفا کیا گیا ہے اور قانون سازی کا اختیار اُن کےمذہبی اداروں کو دیا گیاہے۔ جیسے عیسائیوں کے لئے کلیسا یا مذہبی پارلیمنٹ۔ اصولی طور پر ہر مسلمان جیسے اپنے عقائد و عبادات میں اپنے دین و شریعت پر عمل کرنے کا پابند ہے اسی طرح وہ عائلی معاملات، معاشرتی مسائل، معاشی امور اور سماجی و سیاسی نظام میں بھی اپنےدین پر عمل پیرا ہونے کا مکلف ہے۔ چنانچہ جہاں بھی مسلمانوں کے اپنے ہاتھ میں اقتدار اعلیٰ ہے وہاں کے مسلمان سیاسی نظام میں خلافت قائم ہے۔ معاشی نظام میں بھی اسلام کے نظام معیشت نافذ کرنے اور معاشرتی و سماجی زندگی میں اسلام کی معاشرتی و عائلی تعلیمات و قوانین کو عملاً جاری کرنے اور پورے معاشرے کو اُسی پر استوار کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ بر صغیر میں جب برطانوی اقتدار قائم ہوا تو اُن کا اصل ہدف اس پورے خطے کومذہبی طور پر بھی اور تہذیبی و تمدنی طور پر بھی مکمل تبدیل کرنا تھا۔ مگر یہاں کی قوام نے اور اُن میں سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مزاحمت جس قوم نے کی وہ مسلمان تھے اور یہ اس لئے کہ انگریزوں نے یہاںکا اقتدار مسلمانوں سے ہی چھینا تھا ۔ دوسرا یہ کہ  سب سے زیادہ قتل عام انہوں نے مسلمانوں کا ہی کیا تھا اور تیسرے مسلمان اپنے مستحکم اور مضبوط مذہبی نظام حیات کے علمبردار ہونے اور قرآن و صاحب قرآن( حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان کے سبب اُن کےلئے سب سے بڑا سد راہ بلکہ کامیاب مقابل بن کر سامنے آئے۔ اس لئے آخر میں انگریزوں نے اپنے اقتدار کےلئے عافیت اسی میں سمجھی کہ یہاں کی ہر چیز کو مٹانے کے نشے میں کہیں ہمارا اقتدار ہی جلد غروب کا شکار نہ ہو جائے۔ اس کو نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے یہاں مسلمانوں کے شدید مطالبہ پر مجبو رہو کر شریعت ایکٹ پاس کیا جس پر عائلی زندگی کے تمام مسائل کےلئے یہ بات طے کی گئی کہ ان معاملات میں مسلمانوں کی شریعت میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی اور اگر ان معاملات میں سے کوئی مقدمہ انگریزوں کی عدالت میں آئے تو اس عدالت سے بھی اسلام کی شریعت کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا اور اس کے مسلمان علماء بطور جج و قاضی رہیں گے ۔ چنانچہ مفتی صد الدین آزردہؔ، جو اصلاً کشمیری تھے اور انتہائی معتبر عالم تھے، جن کے مداخ خواں سر سید احمد خان بھی رہے ہیں( آثارلصنادید  جو سرسید مرحوم کی تصنیف ہے، میں اُن کی عظمتوں کا اعتراف ہے۔ انگریز گورنمنٹ کی عدالت میں جج تھے اور مسلمانوں کے عائلی مسائل کے فیصلے کرتے تھے۔ بس اس طرح انگریز دور سے پرسنل لاء کی اصطلاح رائج ہوگئی اور اس طرح انگریزوں میں مسلم پرسنل کو شریعت ایکٹ کے عنوان سے تحفظ دیا گیا۔
انگریزوں کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب ہندوستان کوایک جمہوری اور سیکولر ملک قرار دیا گیا تو تمام مذہبی اکائیوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن اس دستوری حق کے باوجود ہندوستان کے بہت سارے سیاسی لوگ، پارٹیاں، دانشور حتی ٰ کہ بعض مسلمان اپنی جہالت یا غلط اور سطحی معلومات کی بنا پر مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کےلئے بار بار کوشش کرتے رہتے ہیں اور آج بھی یہی قدم اُٹھانے کی سعی ہورہی ہے۔ اگر خدانخواستہ مسلم پرسنل لاء ختم کرکے کامن سول کوڈ نافذ کر دیا گیا تو پھر مسلمانوں ان تمام عائلی قوانین میں اسلام پر عمل کرنے سے محروم ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں نہ اُن کےنکاح شرعاً درست رہیں گے ، نہ اُن کے تعلقات زوجیت حلال رہیں گے، نہ اُن کی اولادیں حرامی ہونے سے بچ سکیں گی۔اور نہ ہی اُن کی وراثت شرعی اصول کے مطابق تقسیم ہوگی اور جب شرعی اصول کے مطابق تقسیم نہ ہوگی تو وہ حلال بھی نہ ہوگی۔ نکاح، طلاق، خلع، ہبہ نفقہ، وصیت اور وراثت کے تمام اسلامی احکام ختم ہو جائیں گے اور اس طرح مسلمان طرح طرح کے حرام کاموں کا ارتکاب کرنے پر مجبور ہونگے اور قانون اُن کو تحفظ دیتا رہے گا۔ گویا مسلمان حرام اولاد اور حرام مالِ وراثت لینے کا ارتکاب کرنے لگیں گے اس لئے1972میں ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک ادارہ بنام مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم کیا، جس میں پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی ہے۔ چنانچہ اس بورڈ میں جماعت اسلامی، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی، بوہرہ، شیعہ وغیرہ تمام طبقات شامل ہیں۔ نیز علماء ، وکلاء حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے ریٹائر ڈ مسلم جج، مسلمان اہل سیاست، دانشور ، ارباب صحافت، اہل قلم غرض کہ مسلمانوں کے تمام طبقات پر مشتمل یہ ایک متحدہ پلیٹ فارم ہے اورپنے مقصد تاسیس میں ابھی تک کامیاب بھی ہے ۔آج جو تین طلاق کا مسئلہ اُٹھایا گیا وہ دراصل مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کےلئے صرف ایک عنوان ہے۔ اس سے پہلے متبنیٰ بل، نفقۂ مطلقہ کا بل، شاہ بانو کیس بھی اسی طرح کی کوششیں تھیں، جو کامیاب نہیں ہوئی۔ اب آج پھر اس کی کوشش ہو رہی ہے اور عنوان تعدّد ازواج اور تین طلاق اختیار کیا گیا جبکہ تین طلاق کو قانوناً بند کرنا اسلام کے اصول طلاق کےخلاف ہے۔ بخاری شریف کتاب الطلاق( باب طلاق الثلاث) میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔ بخاری میں ہی دوسری حدیث ہے کہ حضرت طویمرعجلانی نے اپنی بیوی کو لعان کے بعد تین طلاق دی۔ اس کے علاوہ بیہقی،مجمع الزاوائد، طبرانی، نسائی، موطاء مالک، مصنف عبدالرزاق میں تین طلاق دینے کی احادیث موجود ہیں ،جو نافذ کی گئیں ۔کبھی بھی تین طلاق کو غیر نافذ نہیں مانا گیا۔ اس پر پوری امت مسلم متفق ہے۔