کیا افغانستان میں داعش کے پیدا ہونے میں پاکستان کا کردار ہے؟

کابل 25نومبر (آئی این ایس انڈیا) افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع جنرل طارق بہرامی نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ افغانستا ن میں داعش پاکستان کی پیداوار ہے تاکہ افغان طالبان کا کمزور پڑنے کی صورت میں وہ اسے متبا دل پریشر گروپ کے طور پر استعمال کر سکے ۔ جنرل بہرامی کے اس الزام کی پاکستان نے ابھی تک رسمی طور پر تردید نہیں کی ہے۔ تاہم جمعرات کے روز وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ داعش، تحریک طا لبا ن پاکستان اور جماعت الاحرار افغا نستان کی سرز مین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان سے حکمران جماعت، مسلم لیگ ۔ ن کے ایک سینیر راہنما سینٹرریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم نے افغان دفاعی وزیر کے اس بیان کو بے بنیاد قرار دیتے ہو ئے کہا کہ یہ الزام تراشی اور بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں عدم استحکام سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور اب پاکستان ایک پرامن افغانستان چاہتا ہے۔ افغانستان کا پچاس فیصد علاقہ افغان فورسز کے زیر کنٹرول نہیں ہے۔ اس لیے افغانستا ن کو اگر مسائل کا سامنا ہے تو اس کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹہرا نا چاہیے۔امریکی تجزیہ نگار، ڈاکٹر طاہر روہیل کہتے ہیں کہ کوئی بھی اعلیٰ عہد یدار اس قسم کے حساس بیانات اکثر اوقات انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر دیتے ہیں۔ اور اگر افغا نستان کے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت ہیں تو انہیں آگے آنا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستا ن افغانستان میں داعش کی مدد کرنے میں ملوث پایا گیا تو یہ اس کی اپنی تباہی کی جا نب ایک قدم ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی اپنی نظر میں افغان طا لبان کی مدد کرنے سے اتنا نقصان اٹھانے کے بعد، پاکستان کسی اور انتہا پسند گروپ کی حمایت نہیں کر ےگا۔پاکستان میں افغان میڈیا کے ایک نمائندے، عقیل یوسفزئی کہتے ہیں کہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کوئی ایسے شواہد نظر نہیں آتے جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہو کہ پاکستا ن کا کوئی ادارہ افغانستان میں داعش کی حمایت کر رہا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ حکیم اللہ محسود کی ہلا کت کے بعد، پاکستان تحریک طالبان کئی گروہو ں میں بٹ گیا۔ ان میں سے ایک گروپ نے جو کرم ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں پر مشتمل تھا، افغانستان میں جا کر داعش میں شمولیت اختیار کی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس گروپ کے سرکردہ کمانڈروں کا تعلق پاکستان سے تھا ۔جن میں سے زیادہ تر امریکی ڈرون میں مارے گئے۔پاک افغان سرحد کے دونوں جانب داعش خراساں گزشتہ کئی برسوں سے فعال ہے جسے بیشتر کمانڈروں کا تعلق اطلاعات کے مطابق پاکستان سے ہیں۔داعش خراساں دونوں ملکوں میں کئی بار خودکش حملوں اور پرتشدد کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔