اچھی تعلیم سے عمدہ کردار بنے

مصباحی شبیر
اکثر لوگ جب اپنے بچوں کی تعلیم اور کیر ئرکے بارے میں یہ خواب دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کر کامیاب شخص ثابت ہوں اور یہ کہ وہ اخلاقی لحاظ سے بھی اعلیٰ کردار کے مالک شہری ہوں ۔اس ضمن میں جب ہم عصری درسگاہوں کی جانب ہماری نظریں دوڑاتے ہیں تو ہمارا مشاہدہ کہتا ہے کہ یہاں بارہ سے پندرہ سال کے ایک طویل تعلیمی سلسلے کے بعد بھی اکثربچے اخلاقی وتربیتی لحاظ سے کا فی پسماندہ ہوتے ہیں۔ اس کے مدمقابل مدارس کے طلباء اخلاقی تربیت کے میدان میں کافی سرگرم نظر آتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ سماج کا ایک بڑا طبقہ مدارس کے طلباء کو عصری علوم سے نابلد قرار دیتا ہے جو کہ قطعی حقیقت نہیں ہے بلکہ اس کی منفی سوچ کا غمازہے۔ اس غلط سوچ کا خاتمہ کرنے میں سب سے بڑی ذمہ داری ان حضرات پر بھی آتی ہے جو ان اداروں کو چلاتے ہیں ۔اس منفی سوچ کے پیچھے مذہبی علوم سے بہت دوری ہونابھی ایک اہم وجہ ہے ۔ شایداقبال نے اسی لئے کہا تھا  ع  اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ ۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے طلباء وطالبات بڑی بڑی ڈگریاں ضرور لیتے ہیں لیکن اپنے والدین اور بڑوں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے، اپنے ٹیچرس کی عزت کیسے کی جاتی ہے ، سماج کے تئیں ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں ،یہ سب ان کو کالج یا یونیورسٹی میں نہیں سکھا یا جاتا ۔ مطلب یہ نہیں کہ طلباء میں ہر کوئی ایسا ہوتا ہے لیکن اکثریت کا حال احوال ضرور ی یہی ہے کیونکہ عصری درسگاہوںکا نصاب ہی طلباء کو مذہب سے دور رکھتا ہے ۔ اس ضمن میں سماج کی لاپروائی بھی کسی حد تک ذمہ دار ہے کیونکہ اس کے پاس اخلاق ناپنے کاپیمانہ ایک جیسا نہیں ۔ مثلاًاگر مدرسے میں ایک بارہ چودہ سالہ زیرتعلیم بچے اور ایک میٹرک پاس لڑکے سے ایک جیسی غلط حرکت سرزد ہوجا ئے تو اسکولی بچے کو بچہ کہہ کر کلین چیٹ دی جاتی ہے ، جب کہ مدرسے کے لڑکے کو’’ عالم دین‘‘ کہہ کر مجرم گردانا جاتا ہے ۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہونا چائیے جب کہ یہ دونوں بچے عمر کے لحاظ سے ایک جیسے ناپختہ ذہن کے ہوتے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ دونوں کے محسوسات بھی یکساں ہوں گے ۔اب کوئی یہ کہے کہ مدارس میں ہروقت اللہ ورسولؐ کی بات ہوتی ہے، اس لئے سماج دینی طالب علم سے ہمیشہ اچھی روش کی توقع رکھتا ہے ، ٹھیک ہے مگر کچی عمر میں دونوں کا ذہن تقریباً یکساں ہوتا ہے۔ بہر حال ہمارے یہاںاخلاقیات کا شعبہ اسکول ، کالج اور یونیورسٹی مفقود ہوتا ہے اور مروجہ تعلیم کے ماہرین کے پاس اس ضمن میں کوئی  لائحہ عمل موجود ہی نہیں ۔ اس صورت حال میں سماج میں اخلاق بے راہ روی سے پانی سر سے اونچا ہونا کوئی حیرانگی کی بات نہیں ۔ اس کے مقابلے میں مدارس میں اخلاقیا ت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، یہاں بچوں کی اخلاقی نشوونما پر چھوٹی عمر سے ہی توجہ دی جاتی ہے، بچوں کو ہمیشہ انسانیت کے تئیں ذمہ دار بننے کا درس دیا جاتا ہے ۔تبھی تو یہ ممکن ہوتاہے کہ جب مدرسے کا ایک لڑکامحض نو سال کی تعلیم کے بعدفاضل ہونے کی ڈگری لے کر سماج میں آتا ہے تو اس کو ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ لوگوں کی مجھ سے کیا خاص توقعات ہیں ۔ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اس پر کوئی مذہبی جادو ہو تا ہے، نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ اللہ کا خوف اور احساس ِ ذمہ داری اس کے شانے پر ہمیشہ چابک ( یعنی بیداری  ٔ ضمیر)کا کام دیتا ہے ۔ ا  س کے اندر روشن ضمیری کی یہ پسندیدہ حالت اس کے اساتذہ کرام کی تربیت کی رہین ِ منت ہوتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم مدرسہ ماڈل پر عمل پیرا ہوکر مروجہ تعلیمی اداروں میں بھی نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی بیداری کا اسلوبِ کاراپنا ئیں ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ عصری ادارے کہ طلبہ وطالبات کواخلاق کا پیکر بنانے کی غرض سے انہیں مذہب کے بندھن میں باندھنے سے پہلوتہی نہ ہو ۔ اس ی ایک تدبیرسے اخلاقی بے راہ روی کا علاج بھی ہوگا اورآنے والی نسلیں اخلاقی لحاظ سے مضبوط کر یکٹر کی حامل ہوں گی۔