جاپانی بخار:بچاؤپرسوال

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی مچھروں سے پیدا بیماریوں میں سے انسیفیلاٹس (جاپانی بخار) ایک ہے۔ اس مرض کو سب سے پہلے جاپان کے لوگوں نے 1871 میں جانا، جو جے ای (جیپنیز انسیفیلاٹس) کے نام سے دنیا بھر میں بدنام ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق جنوب مشرقی ایشیا، مغربی علاقہ کے 24 ممالک کے تین ارب لوگ اس کی زد میں آئے اور زیادہ تر افراد وقت پر علاج اور احتیاط کی وجہ سے بچ بھی گئے۔ بھارت میں جاپانی بخار کی علامت تمل ناڈو کے ایک گاؤں کے کئی بچوں میں پہلی مرتبہ 1955 میں دیکھی گئی تھی۔ یہ وائرل بخار 1973 میں مغربی بنگال، اڑیسہ، آسام سمیت دھان کی کھیتی کرنے والی ملک کی 22 ریاستوں میں دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گیا تھا۔ جاپانی بخارکی بابت عالمی ادارہ صحت کے سروے میں پایا گیا کہ جن علاقوں میں 1970 کے بعد کسان گنّے کی کھیتی چھوڑکر دھان کی فصل اگانے لگے، ان علاقوں میں جاپانی بخار تیزی سے پھیلا۔ جاپانی انسیفیلاٹس(جے ای)’ کیو لیکس اسپیشیز‘ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس سے متاثر خنزیراور پانی میں گھومنے والے پرندوں کو مچھر کاٹتے ہیں، پھر وہی مچھر انسان کو کاٹتے ہیں، اس سے انسیفیلاٹس کا خطرناک وائرس جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پوری دنیا میں جے ای کے 68 ہزار معاملے سامنے آتے ہیں، ان میں سے تیرہ ہزار چھ سو سے بیس ہزار چار سو کے آس پاس بچے، بڑوں کی موت ہو جاتی ہے۔ ستمبر 2016 میں مرنے والے بچوں کی تعداد بھارت میں 694 تھی۔ باقی عمر کے لوگوں کو ملا کر کتنے لوگ دیش میں مرتے ہیں، نیتی آیوگ نے سن 2000 کے بعد اس کے کوئی اعداد وشمار جاری نہیں کئے ہیں۔ جبکہ ملک کے 11 اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ اتر پردیش میں جاپانی بخار پہلی مرتبہ 1978 سامنے آیا۔ جو علاقے اس سے مستقل متاثر ہوئے، گورکھپور ان میں سے ایک ہے لیکن اسے کبھی میڈیا میں اتنی توجہ نہیں ملی جتنی کہ پانچ دنوں کے دوران 70 بچوں کی موت کے بعد۔ ملک بھر میں جاپانی بخار بحث کا موضوع بنا۔ اس کی دو بڑی وجہ ہیں۔ ایک اس علاقے سے ممبر پارلیمنٹ رہے اتر پردیش کے موجودہ وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ جو بی آر ڈی میڈیکل کالج اور گورکھپور میں ہیلتھ کیئر کی خستہ حالی کا اکثر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے بحیثیت ممبر پارلیمنٹ 2003 سے 2014 تک 20 مرتبہ خراب طبی سہولیات اور جے ای سے بچوں کی اموات کا معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھا۔ ان کی موجودگی میں طبی عملہ کی لاپروائی ہوگی تو سوال اٹھیں گے ہی۔دوسرے انہوں نے2014 سے ہی مرکزی وزارت صحت کو یوپی میں انسیفیلاٹس کی روک تھام کے لئے متوجہ کیا ہے۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق این ڈی اے کی پہلی سرکار نے 12 ریاستوں میں 367 اموات کے بعد، جن میں سے صرف یوپی میں 228 موتیں ہوئی تھیں، گورکھپور کو ٹیکہ کاری کے لئے چنا تھا۔ یوگی نے 13 جولائی 2009 کو مرکزی وزیر صحت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں انسیفیلاٹس سے 2005 میں 1682 جانیں گئی تھیں، ان میں سے 1500 لوگ یوپی میں مرے تھے،جن میں سے صرف بی آر ڈی کالج میں مرنے والوں کی تعداد 937 تھی۔ 2006 میں 431، 2007 میں 516، 2008 میں 410 اور 2009 میں اب تک 98 موتیں ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت جو وسائل ریاستی سرکار کو دے رہی ہے، وہ اسے اچھی طرح استعمال نہیں کر رہی جس کی وجہ سے بی آر ڈی کالج کی ہیلتھ کیئر کی کمزوری کا وزن مشرقی یوپی کے لوگوں پر پڑ رہا ہے۔ ایکسپریس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2009میں 784، 2010 میں 514 اور 2011 میں 618 اموات ہوئی تھیں۔ اس وقت مرکز اور ریاست دونوں جگہ بھاجپا کی سرکار ہے پھر ریاست کا ذمہ دار وہ شخص ہے جو اس معاملے کی واقفیت رکھتا ہے۔ ایسے میں عوام کے درمیان حالات میں تبدیلی کی امید غلط بھی نہیں تھی، لیکن زمینی سطح پر فی الحال کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مرنے والے یا تو بچے ہوتے ہیں یا پھر غریب طبقہ کے لوگ، جو شاید سرکار کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ بچے ووٹر نہیں ہوتے اور غریبوں کی فکر کون کرتا ہے۔ وائرس اور بیکٹیریا سے حفاظت کے لئے ٹیکہ کاری کم لاگت والا کارگر اور محفوظ طریقہ ہے۔جے ای سے بچاؤ کے ٹیکے کی بات کریں تو اسے بنانے میں بھارت کو 82 سال لگے۔ انسیفیلاٹس کی روک تھام کیلئے 1930 میں ’ جے ای ویکس‘ کے نام سے ویکسین تیار ہوا، جسے عالمی ادارہ صحت نے محفوظ مانا تھا۔ اس کی مارکیٹنگ فرانس کے لیو شہر کی سانوفی پاسٹر کمپنی نے شروع کی تھی۔ وہیں چین اپنے شہریوں کے لئے 1968 میں ’ پیئچنگ تھری‘ ویکسین مہیا کرا چکا تھا۔ چین دوسری نسل کی ویکسین ’ایس اے. 14‘ اور’چی میری ویکس۔جیای‘ چین اپنے عوام کو فراہم کر رہا ہے۔ ہر سال چین میں دو کروڑ بچوں کو لازمی طور پر انسیفیلاٹس سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ 2012 میں بھارت کی بایولوجیکل ای لمیٹڈ کمپنی نے’جیو‘ برانڈ سے ویکسین نکالی، جس کی قیمت 985 روپے تھی۔ اسے صرف ایک بار لگانا تھا، جو بھارت آنے والے سیاحوں کیلئے تیار کی گئی تھی۔ 2013 میں کرناٹک کے کولار ضلع میں ’بھارت بایوٹیک انٹر نیشنل‘ نے ویکسین تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ تمام تجربات کے بعد پایا گیا کہ یہ ویکسین بچے سے لے کر50 سال تک کے لوگوں کیلئے محفوظ ہے۔ اس ویکسین کو دو بار دیا جانا تھا۔ پہلی خوراک 9 سے 12 مہینے کے بیچ اور دوسری 16 سے 24 ماہ کے درمیان۔ ڈی پی ٹی – او پی وی کے ساتھ۔ سوال یہ ہے کہ متاثرہ اضلاع کے لوگوں کو یہ ویکسین مل پائی۔ 2015 میں آئی رپورٹ کے مطابق ایک سے پندرہ سال تک کے 75 فیصد بچوں کو دوسری خوراک ملی ہی نہیں۔ مرکز ریاستوں کے اور ریاستیں مرکز کے سر ٹھیکرا پھوڑتے نظر آتے ہیں۔ ٹیکہ کاری کے معاملے میں بھارت اپنے پڑوسی ملک نیپال سے بھی پیچھے ہے۔ نیپالی معاملوں کے ماہر سینئر صحافی پشپ رنجن کے بقول نیپال میں انسیفیلاٹس ویکسین لگانے کا ہدف 75 فیصد پورا ہو چکا ہے۔ نیپال جیسے غریب ملک نے نیشنل ایمو نائزیشن پروگرام (این آئی پی)کا 2011 سے 2016 تک کے اعدادوشمار مہیا کرا رکھے ہیں۔ این آئی پی کے مطابق دیش کے 75 میں سے 31 ضلعوں کے 75 فیصد بچوں کو جے ای ویکسین دی جا چکی ہے۔ نیپال نے اس معاملے میں چین سے مدد لی تھی۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ عوامی صحت پر 2.5 سے 5.0 فیصد کے بیچ خرچ ہونا چاہئے لیکن بھارت میں 1.2 فیصد ہی خرچ ہو پا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے میڈیکل اور پیرا میڈیکل کی بڑی تعداد میں آسامیاں خالی ہیں۔ جس تیزی سے ہیلتھ سروسز کی مانگ بڑھ رہی ہے، اس تیزی سے اس مد کا بجٹ نہیں بڑھ پا رہا۔ جبکہ بھارت میں ہیلتھ سروس کا کاروبار 22 فیصد کی انتہائی تیز رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ سارے بڑے اسپتال شہروں میں ہیں اس لئے دیہی علاقوں کی حالت اور خراب ہے۔ طبی سہولیات تک پہنچ کے معاملے میں 195 دیشوں میں بھارت 154 مقام پر ہے۔ ڈاکٹروں کی بات کریں تو 1700 لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے جبکہ ایک ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے۔ ڈاکٹروں کی کمی میں میڈیکل کونسل کا وہ فرمان بھی آڑے آ رہا ہے جس کے تحت ایم بی بی ایس ڈاکٹر اس وقت تک علاج کرنے کا اہل نہیں ہے جب تک کہ وہ پوسٹ گریجویشن نہ کر لے۔ جبکہ ملک میں پوسٹ گریجویشن کی سہولت آسانی سے دستیاب نہیں ہے۔ مہا راشٹر نے سی پی ایس ڈپلومہ کو منظوری دے کر ڈاکٹروں سے خدمت لینے کا تجربہ کیا جو بہت کارآمد ثابت ہوا ہے۔ ملک میں سرکاری اسپتالوں کی خراب حالت کی وجہ سے ہی پرائیویٹ اسپتالوں کی چاندی ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے احاطہ میں پرائیویٹ اسپتال بنانے کی اجازت دینے سے اس کاروبار میں اور اضافہ ہوگا۔ سرکار کو بھارت میں طبی سہولیات کی بہتری کیلئے ازسرِ نو غور کرنا ہوگا تاکہ خراب علاج کی وجہ سے ہر سال جانے والی52 لاکھ لوگوں کی جان بچائی جا سکے۔ ایمونائزیشن کا سو فیصد ہدف حاصل کیا جائے۔ چاہے اس کیلئے باہر کی مدد کیوں نہ لینی پڑے تاکہ وائرس اور بیکٹیریا سے ہونے والی بیماریوں سے ملک محفوظ ہو جائے۔