شراب و منشیات :سماجی ناسور!

محمد آصف ا قبال فی الوقت جس بڑے پیمانہ پر شراب و منشیات کے خاتمہ کی کوششوں ہورہی ہیں اس کے باوجود مطلوبہ نتائج کا اخذ نہ ہوپانا واضح کرتا ہے کہ مسائل سے نمٹنے میں جو فکر و عمل کارفرما ہے دراصل اسی میں بڑی کمی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناقص فکر ونظر اور اس کی بنا پر رائج الوقت نظریہ تعلیم اورطریقہ تعلیم نے معصوم بچپن اور نوجوان نسل کو سینچنے اورپروان چڑھانے کی بجائے گمراہی و خسارہ میں مبتلا کر دیا ہے۔ ساتھ ہی بد نیتی جو عمل سے واضح ہے، مسئلہ کے حل میں رکاوٹ ہے۔ اور جب اِسی نقص کے ساتھ ملک کا مستبقلتعلیم گاہوں سے فارغ ہو کر لا ء اینڈ آرڈر اور نظم و نسق کے اداروں سے وابستہ ہوتا ہے یا اسمبلی اور پارلیمنٹ پہنچتے ہیتو گرچہ وہ “روشن خیال”ہو یا رائج الوقت “مخصوص تہذیب و ثقافت کے علمبرادر”ہوں ،دونوں ہی کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہوتا۔ لہذا شراب و منشیات کیسنگین مسئلہ سے نمٹنا ان کے بس میں نہیں رہتا۔ برخلاف اس کے جب ہم اسلامی معاشرہ اور ثقافت کی بات کرتے ہیں اور اس میں اُس واقعہ کو یاد کرتے ہیں جب اللہ کے رسوال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک ہدایت پرمدینہ کی گلیاں شراب نوشوں کو مجبور کردیتی کہ ان کے منہ سے لگے شراب کے جام الٹ جائیں اور وہ قیمتی شرابیں جو انہیں جان سے زیادہ عزیز تھیں ، مدینہ کی گلیوں میں بہتی نظر آتی ہیں ۔ جب شراب کے مٹکے توڑ دیئے جاتے ہیں اور سڑکوں پر شراب بہادی جاتی ہے توحضرت عمر بن خطاب یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ :اے پروردگار،ہم باز آگئے،اب ہم کبھی شراب کے قریب بھی نہیں جائیں گے۔ ان دومناظر میں ، ایک جو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور دوسرا وہ جو اسلامی نظام ِحکومت میں واقع ہواتھا، اِن دونوں میں بنیادی فرق جو واضح ہوتا ہے وہ مستحکم عقیدہ، فکر و نظریہ اور طرز حکومت کا ہے۔ اس کے باوجود موجودہ دور میں مسلمانوں کا ایک طبقہ شراب و منشیات میں مبتلا ہو چکا ہے اور یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس موقع پر اگر یہ سوال کیا جائے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ تو جواب یہی ہوگا کہ شہنشاہ عالم،اللہ رب العزت کی بڑائی و کبرائی کا اظہار کرنے والے، لاشعوری سے دوچار ہونے کی بنا پر،نہیں جانتے کہ جس مذہب کے وہ پیرو کار ہیں، وہ نہ صرف ہر مسئلہ کا حل رکھتا ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات بھی پیش کرتا ہے۔ آج بے مقصد زندگی اور لاشعوری مسلمانوں کو چہار جانب ذلیل و رسوا کیے ہوئے ہے اس کے باوجود وہ اُس گدھے کی مانند زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس کی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ تو لدا ہے لیکن وہ واقف ہی نہیں کہ وہ کس بوجھ کو ڈھورہے ہیں ۔ اِس میں وہ کون سا نسخہ کیمیا موجود ہے جس کو اگر وہ سمجھ لیں اور اس پر ایمان لے آئیں تو نہ صرف ان کی زندگی کی کایا پلٹ ہو سکتی ہے بلکہ انسانیت بھی جو امن و امان کی خواہاں ہے اسے بھی سکون و اطمینان میسر آئے گا۔ مسائل حل ہوں گے، فرد کا ارتقاء ہوگا،معاشرہ کی صالح بنیادوں پر تعمیرہوگی اور ایک ہمہ جہت ترقی یافتہ ریاست کی تشکیل عمل میں آئے گی۔