وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے ایسی بولی وہی بولے جِسے اُردو آئے

شہزادہ بسمل
زبان کوئی بھی ہو اپنی ذات سے اچھی یا بُری نہیں ہوتی ہے۔یہ صرف اُس زبان کے بولنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ زبان کے ہتھیار سے دلوں کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں یا نفاق پیدا کرتے ہیں۔اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اُردو زبان کی صدیوں پر مشتمل روایت میل جول،بھائی چارہ ،اتحاد اورسیکولرمزاج کی رہی ہے ۔ تعصب ،عناد ،نفرت اور تنگ نظر ی کی نہیں ۔اس زبان کا پیغام ہمیشہ سے ہی محبت ،امن و آشتی اور انسانیت سے عبارت رہا ہے ،یہ وہی پیغام ہے جو بزرگانِ دین،اولیا ء اللہ اورصوفی سنتوں کا رہا ہے۔اسی پیغام نے ہندوستان کی بکھری ہوئی چھوٹی چھوٹی پانچ سو تریسٹھ ریاستوں کو جوڑ کر ایک اکھا ہندوستان بنایا ،جس کی مثال تاریخ میں نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کہیں نظر آتی ہے ۔اسی ہندوستان میں تقسیم سے پہلے پیدا ہونے والا علامہ اقبال جیسا ہندوستانی سپوت پکاراُٹھا تھا   ؎
یونانؔ و مصرؔ و روماؔ سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک  مگر ہے باقی  نام و نشان  ہمارا
پھر وہ خوشبو باقی رہی یا نہیں، وہ ایک الگ موضوع ہے ۔ایسی زبان جس کے ضمیر سے ہندو ،مسلم ،سکھ ،عیسائی ،جین ،بودھ بھائی چارے کی خوشبو آتی ہو،وہ کسی ایک طبقہ یا ایک علاقہ کی زبان کیسے ہوسکتی ہے ؟اس کا تاریخی عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک ثقافت ،ایک تہذیب اور ایک طرز زندگی کا نام ہے جو ہندوستان میں آباد مختلف طبقوں ، قومیتوںاور گروہوں کے میل ملاپ اور اشتراک سے وجود میں آئی ہے ۔اُردو زبان کا یہ بھی ایک قابل تعریف اور قابل غور پہلو ہے کہ یہ کشمیر سے کنیا کماری اور بنگال سے پنجاب تک رابط کی زبان کے طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے اور پچھتر فیصدسے زیادہ ہندوستانیوں کے دلوں کی دھڑکن بنی ہوئی ہے ۔حالانکہ بجز کشمیر کے یہ کسی ریاست کی سرکاری زبان نہیں ہے مگر پھر بھی سخت مخالف اور مخاصمت کے باوجود ہندوستان کی ہر ریاست میں بولی،سمجھی بلکہ پڑھی جاتی ہے ۔ہندوستان کی کچھ ریاستوں نے اسے دوسری سرکاری زبان کے طور پر بھی قبول کرلیا ہے ۔
دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے ولی زبانوں میں اس کا شمار تیسرے نمبر پر آتا ہے ۔یہ دنیا کے ستھر ملین لوگوں کی مادری زبان یعنی دنیا کی آبادی میں 4.9فی صد انسان اس زبان کو بولتے ہیں ۔جنوبی ایشیا کے متعدد ممالک ایسے ہیں جہاں اُردو بولنے والوں کی خاصی تعداد ہے جن میں بنگلہ دیش ،نیپال اور افغانستان شامل ہے۔پاکستان کی تو یہ سرکاری زبان ہے ہی،مشرقی وسطیٰ میں اس زبان کا سکہ چلتا ہے اور یورپ کے کئی ممالک میں اردو بولنے ،پڑھنے اور لکھنے والوں کی ایک خاصی تعداد ہے ۔وہاں سے اُردو زبان میں کئی اخبار اور مجلے بلکہ کتابیں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔
غیر منقسم ہندوستان میں آزادی سے پہلے اُردو ہی وہ واحد زبان تھی جس نے ہندوستانیوں میں سیاسی شعور پیدا کیا اور جدوجہد آزادی میں پیش رو کی حیثیت سے حصہ لیا ۔اسی زبان نے ہندوستانی قوم کو ترانہ ہندی دیا جو آج بھی سلوگن کے طور پر گلی کوچوں میں،جلسے جلوسوں میں،کالجوں اور سکولوں میں گایا جاتا ہے اور ہر چھوٹی بڑ ی تقریب کا حصہ بنتا ہے ۔یہ ترانہ اُنہی لوگوں میں سے ایک بزرگ کا کہا ہوا ہے جن کے بارے میں موجودہ وقتوں میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا جب کہ حق بات یہ ہے کہ سن1857ء کی ناکام تحریک آزادی میں اور بعد میں 1947کی جنگ آزادی میں عام لوگوں کا شمار ہی نہیں صرف علمائے دین ،ائمہ اور مسلم درسگاہوں کے اساتذہ و طلباء ہی ہزاروں کی تعداد میں شہید ہوئے۔اُس وقت کے برطانیہ کے فیلڈ مارشل رابرٹؔ کی کتاب ’’ہندوستان میں 41سال ‘‘کے مطابق 1857ء کی ناکام جنگ آزادی میں 27ہزار مسلمانوں کو انگریزوں نے پھانسی دے دی اور قتل عام میں مرنے والوں کی تعداد شمار سے باہر ہے ۔
اردو ادب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ نثر ہو یا نظم اُردو کا سیکولر مزاج ہر جگہ جھلکتا ہے ۔اردو نے عرب و عجم سے تعلق رکھنے والے اصناف اور موضوعات کو بھی ہندوستانی رنگ میں پیش کیا ہے ۔مثال کے طور پر صنف ِمرثیہ کے تمام تر موضوعات واقعہ کربلا سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اُن واقعات کو ہندوستانی رنگ و آہنگ دے کر نظم کیا گیا ہے اور اس صنف کے ارتقاء میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم شعراء کا بھی ناقابل فراموش حصہ ہے ۔اُردو میں ہر مذہب کی کتابیں اور کثیر تعداد میں تراجم موجود ہیں۔خاص طور پر اسلام اور ہندو مذہب کا لٹریچر کثرت سے جمع ہوگیا ہے ۔ ہندوؤں کی مشہور مذہبی کتاب رامائن کے ہی کم و بیش سو ترجمے اُردو میں ہوئے اور اسی طرح گیتا ؔکے بھی لگ بھگ بائیس ترجمے ہوئے ہیں ۔یہ کام ہندو مصنفین کے ساتھ ساتھ مسلمان علماء نے بھی انجام دیا۔دل کی ؔگیتا یعنی خواجہ دل محمد کا منظوم ترجمۂ گیتا توبہت زیادہ مقبول و مشہور ہوا۔گیتاؔ میں بُت پرستی اور دیگر اشیاء و مظاہر قدرت پرستی پر بھی وعید آئی ہے ۔اُس سے متعلق شلوک کا ترجمہ دیکھئے کس خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے    ؎
منائیںجو پِتروں کو پِتروں تک آئیں
جو بھوتوں کو پوجیں وہ بھوتوں کو پائیں
صنم کے پجاری صنم سے ملیں
ہمارے پرستار ہم سے ملیں
اُردو کے سیکولر مزاج و کردار کو واضح کرنے کے لئے معروف اُردو شاعر میر تقی میرؔکا حوالہ دینا یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے ۔وہ کہتے ہیں   ؎
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے ہو کیا اُن نے تو
قشقہ کھینچا ،دیر میں بیٹھا ،کب کا ترک اسلام کیا
حالانکہ حق بات یہی ہے کہ میرؔ نے کبھی نہ تلک لگایا ،نہ مندر میں جاکر بیٹھ گیا ۔یہ علامات اُس نے محض روا داری کے طور پر استعمال کرکے اُردو کے سیکولر مزاج کا اظہار کیا ہے ۔مجموعی طور پر اُردو زبان و ادب میں بہتے سمندروں کی لہروں اور گہرائی جیسی وسعت اور وسیع دامانی ہے ۔حیات بخش اور روح پرور غزل کا تہذیبی مزاج ، نازک خیالی،واردات ِقلبی اور غنائیت تو شاید ہی کسی دوسری زبان کے ادب میں مل سکتی ہے۔اسی لئے توشاعر نے کیاخوب کہا ہے     ؎
 وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
 ایسی بولی وہی بولے جِسے اُردو آئے