زندہ جلا دیئے گئے مسلم شخص کے مقدمہ کی سماعت دوسری ریاست میں منتقل کی جائے: گلزار اعظمی

ممبئی12دسمبر(پریس ریلیز)راجستھان کے راج سمند نامی علاقے میں مبینہ لو جہاد کے نام پر مسلم مزدور کو زندہ جلا دیئے جا نے والے معاملے میں آج جمعیة علماءمہاراشٹر (ارشد مدنی) قانو نی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزارا عظمی نے چیف جسٹس آف انڈیا کے نام ایک خط ارسال کرکے چیف جسٹس دیپک مشراءسے گذارش کی ہیکہ وہ اس معاملے میں سو موٹو (از خود ) کارروائی کرتے ہوئے اس مقدمہ کو کسی دیگر ریاست میں منتقل کریں تاکہ عدالت کی کا رروائی بغیر کسی رخنہ اندازی کے ہوسکے اور گواہوں پر ملزمین اور ان کے اہل خانہ دبا ﺅ نہ بنا سکےں کیوں اس سے قبل پہلو خان کے قتل کے معاملے میں عدا لت میں گواہان منحرف ہوگئے تھے جس کے بعد خا طیوںں کو سزا نہیں مل سکی۔گلزار اعظمی نے اپنے دو صفحاتی خط میں چیف جسٹس سے درخوا ست کی ہیکہ ہجوم کے ذریعہ قتل اور محمد افراز و ل کو زندہ جلائے جا نے والے واقعات پر قابو پانے کے لیئے خاطیو ںں کو سخت سزائیں ملنی چا ہئے لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہیکہ ملزمین کے دباﺅ میں سرکاری گواہان عدا لت میںدوران گواہی منحرف ہو جا تے ہیں جس کی وجہ سے عدالت بھی ملزمین کو سزائیں دینے میں نا کا م ثابت ہورہی ہے اور یکے بعد دیگرے ایسے معاملات مسلمانوں کے ساتھ رونما ہورہے ہیں جس میں امن پسند طبقہ اور خصوصاً مسلما نوں میں ڈر کا ماحول ہے ۔گلزار اعظمی نے اپنے خط میں تحریر کیا ہیکہ وہ پولس اور انتظامیہ کی بروقت کارروائی کی ستائش کرتے ہیں کہ انہوں نے محمد افرازول کو زندہ جلا نے والے شمبھو لال ریگر کو گرفتار کرلیا اور اور معاملے کی تحقیقات شروع کردی لیکن ملزم کو اسی وقت سزاءمل پائے گی جب بغیر کسی باہری دباﺅ کے عدالت اپنا کام انجام دے پائے گی جس کے لیئے سرکاری گو اہوں کی گواہیاں بہت معنی رکھتی ہیں ۔گلزار اعظمی نے اپنے خط میں تحریر کیا کہ بھیڑ کے ذریعہ قتل کیئے گئے پہلو خان کے مقدمہ میں سر کا ری گواہان عدالت میں منحرف ہوگئے تھے جس کی وجہ ان پر غیر ضر و ر ی باہری دباﺅ تھا لہذا افرازول کے مقد مہ کو کسی دوسری ریاست میں منتقل کردیا جائے اور عدالت کو یہ حکم دیا جا ئے کہ وہ اس معاملے کو د یگر معاملات پر سبقت دیتے ہوئے جلد از جلد اس کی سماعت مکمل کر ے نیز معاملے کی تفتیش سپریم کورٹ کی زیر نگرانی کیئے جانے کی بھی گذارش کی ہے ۔واضح رہے کہ گذشتہ دنوں راجستھان کے راج سمند نامی علاقے میں مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم شخص افرازول کو بھگو اءجماعتوں سے تعلق رکھنے والے شمبھو لال نے اس لیئے زندہ جلا دیا تھا کہ اس کو شک تھا کہ وہ لو جہاد کررہا تھا اور اس کے کسی غیر مسلم خاتو ن سے تعلقات تھے جبکہ حقیقت یہ ہیکہ افراوزل ایک مزدور تھا اور اس کا لو جہاد سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ افرزاول کو زندہ جلانے کی ویڈویو ریکارڈنگ بھی تیار کی تھی جسے بعد میں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیا گیا جس کے بعد چہار جانب ہنگامہ برپا ہوا اور ملزم کی گرفتاری عمل میںا ٓئی ۔