مالیگاﺅں بم دھماکہ معاملہ:ملزمین پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ ۷۲ دسمبر کو متوقع

ممبئی 21دسمبر (پریس ریلیز)مالیگا ﺅ ں ۸۰۰۲ ءبم دھماکہ معاملے کی سماعت آج اس وقت ایک بار پھر ٹل گئی جب ملزمین کی جانب سے ان کے دفاع میں دفاعی وکلاءنے خصوصی عدالت میںمزید دستاویزات دا خل کیئے اور عدا لت سے گذارش کی کہ وہ چا رج فریم (فرد جرم ) عائد کرنے سے قبل ان کے دلائل کی بھی سما عت کرے، عدالت نے ملزمین کی جانب سے داخل کردہ تازہ دستا و یزات جس میں عدالت عظمی کے فیصلوں کی نقول و دیگر شامل ہیں کو اپنے ریکارڈ پر لیتے ہوئے معاملے کی سماعت ۷۲ جنوری تک ملتوی کردی۔ممبئی کی سیشن عدالت میں قائم خصوصی NIA/MCOCA عدالت میںآج صبح سے ہی گہماگہمی تھی اور احاطہ عدالت میں میڈیا کے نمائندوں کی بھیڑ تھی کیونکہ آج ملز مین کو امید تھی کہ انہیں یہ پتہ چلے گا کہ ن کے خلا ف کن دفعات کے تحت مقدمہ چلے گا اور قومی تفتیشی ایجنسی NIA کی تازہ تحقیقات کی روشنی میں کن کن ملز مین کو مقدمہ سے راحت ملے گی لیکن خصوصی جج ایس ڈی ٹیکولے نے فیصلہ صا در کرنے کے لیئے مزید وقت طلب کر تے ہوئے معا ملت کی سماعت ۷۲ دسمبر تک ملتو ی کر دی ۔متاثرین کو قانونی امداد فراہم کرنے وا لی تنظیم جمعیة علماءمہارشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ آج عدالت میں جمعیة علما ءکی جانب سے ایڈوکیٹ شریف شیخ، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ محمد ارشد شیخ ودیگر موجود تھے نیز اس سے قبل جمعیة کے وکلاءنے این آئی اے کی تازہ تحقیق کی روشنی میں ملزمین کو کسی بھی طر ح کی راحت نہ ملے اس کے لیئے عدا لت میں اپنے دلائل بھی پیش کیئے تھے او ر عدالت کو بتایا تھا کہ عدالت کو حتمی فیصلہ کر نے سے قبل اے ٹی ایس کی تفتیش کا بھی جائز ہ لینا چا ہئے۔گلزار اعظمی نے کہا کہ خصوصی عدالت کے لیئے یہ آسان نہیں ہوگا کہ وہ اے ٹی ایس کی تفتیش کا جائزہ لیئے بغیر این آئی اے کی تفتیش کی روشنی میں ان بم دھما کو ں کے ملزمین کے تعلق سے کوئی فیصلہ صادر کرے۔ گلزار اعظمی نے موجودہ مرکزی اور ریاستی حکومت پر بھی تنقید کی اور کہا کہ وہ عدا لت کے سامنے بم دھماکوں کے متاثرین کا موقف رکھنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے جس کی وجہ سے ملزمین ضمانت پر رہا ہوئے اور اب انہیں خدشہ ہیکہ ان میں سے چند ملز مین مقدمہ سے ڈسچارج ہوجائیں گے لیکن اب بھی وقت ہیکہ حکومت اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور عدالت میں متاثرین کے موقف کو صحح ڈھنگ سے پیش کرے اور حسب ضرور ت عدالت عظمی سے بھی رجو ع ہو۔