مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا

عبدالعزیز
فلسفہ¿ دعا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں جو کمالات جمع تھے ان کو دو شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (1 عبدیت کاملہ اور (2 نبوتِ جامعہ۔
عبدیت کا ظہور اور نتیجہ دعا ہے اور نبوت کا مظہر دعوت ہے۔ دعا کیلئے اس ہستی کے یقین کی ضرورت ہے۔ جس سے دعا کی جائے۔ پھر اس یقین کی کہ اس کو ہر طرح کی قدرت ہے اور دینے کیلئے اس کے پاس سب کچھ ہے۔ پھر اس یقین کی کہ اس کے سوا کوئی اور در نہیں۔ پھر اس یقین کی کہ وہ خود بھی دینا چاہتا ہے اور کوئی لے کر اتنا خوش نہیں ہوتا۔ جتنا وہ دے کر خوش ہوتا ہے۔ پھر اس یقین کی کہ مخلوق محتاج محض اور سرتاپا کشکول گدائی ہے۔ پھر اس یقین کی کہ وہ معبود اپنی ہر مخلوق سے دنیا کی ہر چیز سے یہاں تک کہ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ وہ ہر ایک کی سنتا ہے اور ہر ایک کی ہر حال میں مدد کرسکتا ہے۔ جاہلیت کی تاریخ میں ہر یقین نایاب اور مضمحل ہوچکا تھا۔ یونانی فلسفہ کو ”واجب الوجود“ یا مبداءاول“ کی صفات سے جتنا گریز و انکار اور صفات کی نفی اور مجرد و بلا صفت ذات کے اثبات پر جتنا اصرار تھا۔ اس کے بعد اس کے حلقہ¿ اثر میں دعا و التجا کا کیا امکان باقی رہ جاتا تھا۔ اس کے مقابلہ میں مشرکانہ جاہلیت نے صفاتِ الٰہیہ میں سے تقریباً ہر صفت کو کسی نہ کسی مخلوق کی طرف منسوب کر رکھا تھا۔ کوئی احیاءپر قادر تھا۔ کسی کے ہاتھ میں رزق تھا، کسی کا علم محیط و ہمہ گیر تھا اور ہر ”غیب“ اس کیلئے شہود تھا۔ ایسی حالت میں ”الٰہ واحد“ کی طرف رجوع کرنے اور اس کے سامنے دست سوال دراز کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ بہر حال یونانی فلسفہ نے (اس مسلک کی بنا پر جو اس نے صفات کے بارے میں اختیار کیا تھا) دعا و التجا کا دروازہ ہی بند کر دیا تھا۔ اور مشرکانہ جاہلیت نے (صفاتِ الٰہیہ کو مخلوقات کی طرف منسوب کرکے) دعا و التجا کا رخ موڑ کر بندوں کی طرف تبدیل کردیا تھا۔ دونوں کا مجموعی نتیجہ یہ تھا کہ براہ راست خدا سے طلب و سوال اور دعا و التجا کا رواج تقریباً ختم ہوچکا تھا، زمانہ¿ بعثت میں پورے پورے ملک اور وسیع علاقوں میں ایسے چند آدمی بھی ملنے مشکل تھے جن کو خدا سے دعا کرنے کی عادت اور اس کا سلیقہ ہو اور جو اس سے تسکین حاصل کرتے ہوں اور اسی کی دعوت دیتے ہوں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محروم و محجوب انسانیت کو دوبارہ دعا کی دولت عطا فرمائی اور بندوں کو خدا سے ہم کلام کر دیا۔ دعا سے محرومی کا ایک بڑا سبب جاہلیت کا یہ غلط تصور تھا کہ خدا ہم سے بہت دور ہے۔ ہماری آواز وہاں کہاں پہنچ سکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان فرمایا اور یہ مژدہ سنایا:
”اور جب آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو میں نزدیک ہوں دعا کرنے والوں کی دعا سنتا ہوں“ (سورہ بقرہ،آیت: 186)۔
آپ نے صرف اسی کو واضح نہیں کیا کہ بندہ اپنے مالک سے دعا کرسکتا ہے اور وہ اس کی مدد کرسکتا ہے؛ بلکہ آپ نے ثابت کیا کہ خدا کو دعا مطلوب ہے اور وہ اس سے خوش اور راضی ہوتا ہے بلکہ دعا نہ کرنے سے ناراض ہوتا ہے۔ دعا بندگی سے گریز اور استکبار و سرکشی کی علامت ہے۔ آپ کے اس اعلان نے دعا کا یہ پایہ کہیں سے کہیں پہنچا دیا اور اس کو بندگی کے فعل اضطراری کے درجہ سے اعلیٰ عبادت اور قرب کے مقام تک پہنچا دیا۔
”اور تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بیشک جو لوگ میرے عبادت سے سرکشی کرتے ہیں عنقریب ہی وہ ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے“ (سورہ المومنون، آیت:60)۔
پھر آپ نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ دعا کو مغفت قرار دیا۔ دعا کو رحمت و برکت کے دروازے کی کلید قرار دیا۔ اس طرح دعا کا شعبہ جس کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں رہی تھی، عبادات اور معابد بھی اس کے نور سے خالی ہوچکے تھے۔ دوبارہ تازہ ہوئے۔ نبوتِ محمدی کی تحدید اور اس کا عمل تکمیل اسی پر ختم نہیں ہوتا۔ آپ نے ہمیں دعا کرنا بھی سکھایا۔ آپ نے انسانیت کے خزانے کو اور دنیا کے ادب کو دعاو¿ں کے جواہرات سے مالا مال کردیا۔ آپ نے اپنے مالک سے ان الفاظ میں دعا مانگی جن سے زیادہ موثر اور بلیغ الفاظ انسان لا ہی نہیں سکتا۔ یہ دعائیں مستقل معجزات اور دلائل نبوت ہیں۔ ان کے الفاظ شہادت دیتے ہیں کہ یہ ایک پیغمبر کی زبان سے نکلے ہیں۔ ان میں نبوت کا نور ہے، پیغمبر کا یقین اور عبدکامل کا نیاز ہے۔ حدیث و سیرت کے دفتر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو دعائیں منقول ہیں ان پر نظر ڈالئے کیا کوئی بڑے سے بڑا ادیب اپنی بے بسی اور کمزوری کا نقشہ کھینچنے کیلئے اور دریائے رحمت کو جوش میں لانے کیلئے اس سے زیادہ جامع الفاظ لا سکتا ہے۔ میدانِ عرفات میں ایک لاکھ چوبیس ہزار کفن بردوش انسانوں کا مجمع ہے۔ لبیک کی دعاو¿ں اور صداو¿ں سے فضا گونج رہی ہے۔ خدا کی شان بے نیازی اور عظمت و جبروت کا نقشہ سامنے ہے، انسانوں کے اس جنگل میں ایک برہنہ سر احرام پوش ایسا بھی ہے جس کے کاندھوں پر ساری انسانیت کا بار ہے۔ جو ہر دیکھنے والے سے زیادہ خدا کی عظمت و جلال کا مشاہدہ کر رہا ہے اور ہر جاننے والے سے زیادہ انسان کی درماندگی، بے وقعتی اور بے بسی سے واقف ہے۔ اس پُر تاثیر اور پُر ہیبت فضا میں اس کی آواز بلند ہوتی اور سننے والے سنتے ہیں۔
”اے اللہ! تو میری بات کو سنتا ہے اور میری جگہ کو دیکھتا ہے اور میرے پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے۔ تجھ سے میری کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔ میں مصیبت زدہ ہوں، محتاج ہوں، فریادی ہوں، پناہ جو ہوں، پریشان ہوں، ہراساں ہوں اور اپنے گناہوں کا اقرار کرنے والا ہوں۔ اعتراف کرنے والا ہوں۔ تیرے آگے سوال کرتا ہوں۔ جیسے بیکس سوال کرتے ہیں۔ تیرے آگے گڑگڑاتا ہوں۔ جیسے گناہ گار ذیل و خوار گڑگڑاتا ہے۔ اور تجھ سے طلب کرتا ہوں، جیسے خوف زدہ آفت رسیدہ طلب کرتا ہے اور جیسے وہ شخص طلب کرتا ہے، جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہو اور اس کے آنسو بہہ رہے ہوں اور تن بدن سے وہ تیرے آگے فروتنی کئے ہوئے ہو اور اپنی ناک تیرے سامنے رگڑ رہا ہو۔ اے اللہ تو مجھے اپنے سے دعا مانگنے میں ناکام نہ رکھ اورمیرے حق میں بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہوجا۔ اے سب مانگے جانے والوں سے بہتر، اے سب دینے والوں سے اچھے“۔ (کنز العمال عن ابن عباس) سب جانتے ہیں کہ ایک قوی اور غنی ذات، قادر مطلق، سلطانِ برحق، مالک الملک کو اپنی اور موثر سے موثر طریقے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس اعتراف کی کہ ہم خاندانی و نسلی غلام، مملوک ابن مملوک اور درِ دولت اور آستانہ شاہی کے قدیمی نمک خوار و پروردہ نعمت ہیں۔ جان و مال ہر چیز کے آپ مالک ہیں۔ کوئی چیز آپ کے قبضہ¿ قدرت سے باہر نہیں۔ ایسی حالت میں آپ ہی رحم نہ فرمائیں گے اور آپ ہی خبر نہ لیں گے تو کون لے گا۔ دیکھئے؛ کسی دعا کیلئے اس سے بہتر تمہید اور مقصد کی کشائش کیلئے اس سے بہتر کلید کیا ہوسکتی ہے؟”اے اللہ! میں بندہ ہوں تیرا اور بیٹا ہوں تیرے بندے کا اور بیٹا ہوں تیری بندی کا، ہمہ تن تیرے قبضہ میں ہوں، نافذ ہے میرے بارے میں تیرا حکم اور عین عدل ہے میرے باب میں تیرا فیصلہ، میں تجھے ہر اسم کے واسطے سے جس سے تونے اپنی ذات کو موصوف کیا ہے، اس کو اپنی کتاب میں اتارا ہے یا اسے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بتایا ہے یا اپنے پاس اسے غیب ہی میں رہنے دیا ہے۔ درخواست کرتا ہوں کہ قرآن عظیم کو میرے دل کی بہار بنا دے اور میری آنکھ کا نور اور غم کی کشائش اور میری تشویش کا دفعیہ“۔ (طبری عن ابن مسعودؓ)
دعائیں: (1 اللہم ما اصبح لی من نعمة او با حد من خلقک فمنک وحدک لا شریک لک فلک الحمد ولک الشکر۔ ”اے اللہ! جو چیز مجھ کو صبح کے وقت حاصل ہوئی ہے تیری نعمتوں میں سے یا کسی (دوسرے) کو تیری مخلوقات میں سے پس وہ صرف تیری طرف سے ہے تو ایک ہے، کوئی تیرا شریک نہیں۔ ہر قسم کی تعریف تیرے ہی لئے ہے اور تیرے ہی لئے شکر ہے“۔ (ابو داو¿د عن عبداللہ بن غنائمؓ)
(2 لا الٰہ الا اللہ العظیم الحکیم لا الٰہ الا اللہ رب العرش العظیم لا الٰہ الا اللہ رب السمٰوات و رب الارض و رب العرش الکریم۔ ”کوئی معبود نہیں مگر اللہ جو بزرگ اور برد بار ہے، کوئی معبود اس کے سوانہیں پروردگار ہے۔ عرش عظیم کا کوئی معبود اس کے سوا نہیں پروردگار ہے آسمانوں کا اور پروردگار ہے زمین کا اور پروردگار ہے عرش کریم کا“۔ (بخاری و مسلم عن ابن عباسؓ)