شام میں داعش کی شکست: روس کا کردار کلیدی تھا: پوتن

ماسکو/دمشق،۹۲دسمبر(پی ایس آئی) روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ شام میں شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو حتمی شکست دینے میں روس نے کلیدی کردار ادا کیا اور اس کامیاب عسکر ی مہم سے روسی مسلح افواج کے پیشہ ورانہ حوصلے بلند ہو ئے ہیں۔روسی دارا لحکومت ماسکو سے ملنے والی خبروں کے مطابق روسی صدر نے یہ بات آج ایک ایسی تقر یب سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جو شام میں روس کی عسکری مہم میں حصہ لینے والے فوجی افسروں کو تمغے دینے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔اس تقریب سے خطا ب کرتے ہوئے صدر پوٹن نے کہا، ” روس نے خونر یز ی کے شکار ملک شام میں اس مجرمانہ قوت کو شکست د ینے میں اپنا اصولی لیکن بہت فیصلہ کن کردار ادا کیا، جو ہماری پوری تہذیب کے لیے خطرہ بن گئی تھی۔“ ولادیمیر پو ٹن کے مطابق، ”اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جہادی بربریت سے بھرپور ایسی آمریت کا نام تھا ، جس نے موت اور تباہی کے بیج بوئے تھے اور جو ایسی عالمگیر جارحیت کی مرتکب ہوئی تھی، جس کا نشانہ ہمارا ملک بھی تھا اور اب تک ہے ۔“ یہ تقریب ماسکو میں روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن میں منعقد ہوئی، جس میں ملکی فو ج کے سینکڑوں ارکان شامل ہو ئے۔ اس مو قع پر ولادیمیر پوٹن نے یہ بھی کہا کہ شام میں روسی فوجی مداخلت کا ملکی مسلح افواج کو یہ فائدہ ہوا کہ آج ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو چکا ہے اور دنیا پر روس کی فوجی طاقت بھی عیاں ہو گئی ہے۔صدر پوٹن کے مطابق شام میں صدر بشار الاسد کی حما یت میں ستمبر 2015ءمیں شروع کی جانے والی عسکری مہم میں ماسکو کے قریب 48 ہزار فوجیو ں نے حصہ لیا اور اس دوران بیک وقت کئی مختلف محاذوں پر لڑی جانے والی جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا گیا۔روسی سربراہ مملکت نے مزید کہا کہ یہ بات ماسکو کے ان فوجیوں سے زیادہ بہتر اور کوئی نہ جانتا ہے اور نہ ہی محسوس کر سکتا ہے کہ وہ شام میں قریب سوا دو سال کے عرصے میں کن حا لات اور عسکری تبدیلی کے کس عمل سے گزر ے ۔ولادیمیر پوٹن نے اسی مہینے شام میں حمیمیم کے روسی فضائی اڈے کا ایک اچانک دورہ بھی کیا تھا، جہاں انہوں نے ماسکو کے فوجی دستوں کے جزوی انخلاءکا حکم دیتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ شام میں روسی عسکری مقاصد زیادہ تر حاصل کر لیے گئے ہیں۔روس کا ارادہ ہے کہ وہ شام میں اپنی مستقل عسکری موجودگی قائم رکھے گا۔، جس کے لیے لاذقیہ میں اس کا حمیمیم کا فضائی اڈہ آئندہ بھی کام کرتا رہے گا اور ساتھ ہی طرطوس کی شامی بندرگاہ پر روسی بحری تنصیبات میں توسیع بھی کی جائے گی۔