مدارس اسلامیہ تاریخ و کردار کے آئینے میں

ازقلم :کمیل رضا قادری ،ریسرچ اسکالر القلم فاﺅنڈیشن پٹنہ:رابطہ نمبر:7256876229
زندہ مذہب ہے اور زندہ ہی رہیگا ،اسلام پر عمل کرنے والے حضرات مسلمان یا مسلم نام سے جانے جاتے ہیں ،جب سے دنیا قائم ہے اس وقت سے اسلام کرئہ اسلام ار ض پر موجود ہے ،بعثت نبوی سے قبل بھی اسلام دہر میں موجود تھا اور آقاﷺکی ولاد ت سے قبل اسلام مختلف نام سے جانا جاتاتھا ہر نبی کی امت اپنے اپنے نبی کے قول و فعل پر عمل کرتے تھے ،آقا ﷺکی ولادت کے بعد دوسرے تمام انبیاءکے احکاما ت منسوخ کر دیئے گئے اور آقا ﷺنے ایک نئے اسلام کی بنیاد رکھی اور اسلام کی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کرایا اور آقا ﷺکی پیغامات کو سنکر ہزاروں ہزارو ںکی تعداد میں لوگ دامن اسلام سے وابستہ ہوئے ۔
آقا ءکائنات ﷺکی ظاہر ی حیات میں اصحاب رسول کو مسائل کی ضرورت پیش آتی تو آقا ﷺکی بارگاہ میں آکر مسائل دریافت کرتے ،آقا ﷺکی ظاہری وفات کے بعد صحابئے کرام حضرت ابوبکر ،حضرت عمر ،حضرت عثمان حضرات علی اور دیگر عالم اصحاب رسول سے مسائل پوچھتے ،اور ان تمام اصحاب رسول کی وفات کے بعد صحابئے کرام ایک دوسرے سے پوچھ کر مسائل کی تخریج کرتے ۔
مدرسہ کا آغازابتداءاسلام میں مسلمان مساجد میں ہی درس و تدریس کیا کرتے تھے ،جب عبادت میں خلل پڑنے لگا تو اہل ایران نے درس و تدریس کو مسجد سے منتقل کرکے باضابطہ ایک جگہ درس و تدریس کے لئے متعین کیا جسے لوگوں نے مدرسہ کا نام دیا (یعنی درس و تدریس کی جگہ )ایران میں نشا پور کے علماءکرام نے مدرسہ بہیقیہ کو قائم کیا اوراس جگہ سے باضابطہ تعلیم و تربیت کی شروعات ہوئی اور طلبا جوق در جوق دور دراز کاسفر طئے کرکے آنے لگے تو دوسرے مدرسے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اہل نیشا پور نے تین اور مدارس کی بنیاد رکھیں ،جیسے سلطان محمود غزنو ی نے ایک مدرسہ قائم کی اور ایک مدرسہ نصر بن سبکتگین نے اورتیسرے مدرسہ کی بنیاد امام فورک نے رکھی اس کے بعد دوسرے شہر کے لوگوں نے بھی مدارس قائم کئے اس زمانے کے مشہور مدارس جو تاریخ کے مطالعے سے ملے ہیں ان میں سے چند مدارس یہ ہیں مدرسہ سلطان محمود غزنوی ،جامعہ قرطبہ ،مدرسہ امام ابوحنیفہ ،جامع ازہر اور مدرسہ نظامیہ بغداد ،آخرا لذکر مدرسہ نظامیہ بغداد کا مشہور مدرسہ جو اپنے زمانے میں علم و فن کا مرکز تھا اس مدرسہ کے بانی نظام الملک طوسی ہیںجنہوں نے 289ھ میں قائم کئے طوسی ایک بادشاہ کے وزیر اعظم تھے ،اس مدرسہ کا نظام اور طلباءکے قیام و ططام کا انتظام شاہی خزانے سے ہوتا تھا اور اس زمانے کے اعتبار سے ہر قسم کی سہولیات موجود تھی،مدرسہ سلطان محمود غزنوی جب سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان کو فتح کیا تو متھرا شہر کی مسجد کی خوبصوتی سے متاثر ہو کراپنے آبائی شہر غزنی میں ایک مسجد کی تعمیر کی اور مسجد کا نام عروس الملک رکھا اور اسی مسجد کے بغل میں ایک مدرسہ قائم کی یہ مدرسہ رفتہ رفتہ بام عروج پر پہنچا،یوروپ ایشاءسے طلباءحصول علم کے لئے آنے لگے اور اس زمانے میں اس مدرسہ کی نظیر اپنی مثا ل آپ تھی ،مدرسہ امام ابو حنیفہ یہ مدرسہ بغداد میں علماءکرام نے عوام کی تعاون سے تعمیر کئے اور اسی مدرسہ کو بغداد کا اول مدرسہ ہونے کا شرف حاصل ہے مذکورہ بالا مدارس اپنے پس و منظر اور خدمات کے لحاظ سے اسلامی تاریخ کا ایسا حصة ہیں جسے فراموش کرنا ممکن ہی نہیں ، ان مدارس سے فارغ علمائ، فضلاء،فققاءاپنی مثال آپ تھے ان مدارس سے تحصیل شدہ طلبا اپنے وقت کے قطب اور ابدال ہوئے۔
ہندوستا ن کی آزادی میں مدارس اسلامیہ کا کردار شہنشاہ جہانگیر کے دور میں تجارت کے بہانے ہندوستان آئے انگریزاورانگریزوں نے ایک کمپنی اسٹیٹ انڈیاکی بنیاد رکھی اوراس کمپنی کے تجارت کے بہانے پورے ہندوستان پر قابض ہوگئے اور وہ دن بھی آیا جب اقتدار پوری طرح مغل بادشاہ کے ہاتھ سے نکل گیا اور حکومت پر مکمل اختیار انگریزوں کاہوگیا ،انگریزوں نے عام ہندوستانی پر جو ظلم ڈھایا اس کی مثال نہیں ملتی جب انگریزوں کا کا ظلم ناقابل برداشت ہوگیا تو مدارس سے ہی فارغ التحصیل علماءنے ہی جہاد کا فتویٰ دیاجیسے علامہ فضل حق خیرا ٓبادی ،علامہ عنایت احمد کاکوروی ،مولانا لیاقت الہ بادی اور احمد اللہ مدراسی نے جہاد کا فتویٰ دیا اور انکے علاوہ اس دور کے دیگر علمائے کرام نے نے بھی انگریزوں کے خلاف جہاد کے لئے عام ہندوستانیون کو اکسایا جس کی وجہ سے برٹش حکومت نے ہزاروں علمائے کرام کا قتل کیا ہزاروں کو جیل کی تاریک کوٹھری میں ڈالا اور ا ن پرغدار وطن کا مقدمہ کیا ،جب آپ بھار ت کی آزادی کی تاریخ پڑھینگے تو آپ کو سنہرے لفظوں میں یہ لکھا ہوا ملے گا دہلی سے پشاور تک کے راستے میں کوئی ایسا پیڑ نہیں خالی نہیں، جس پر ٹوپی اور ڈارھی والوں کی لاش لٹکی ہوئی نہ ہومگر افسوس آج انہیںمدارس کے تعلیم یافتہ محب وطن بزرگوں کے پیرو کار پر دہشت گردی کاالزام عائد کیا جارہا ہے اور ہندوستان کے شر پسند عناصر افراد مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا اڈہ اور مدرسے کے اساتذہ اور طلباکو دہشت گرد اور آتنکواد بتا رہے ہیں گزشتہ چند دن قبل شیعہ سینٹرل وقف بورڈیوپی کے چیئر مین نے مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کااڈہ اور مدارس اسلامیہ کو بند کر نے لئے مکتوب وزیر اعظم اوروزیر اعلیٰ کو بیجھا ،جس کی مذمت پورے ہندوستان نے کی(صرف مذمت کی مگر کوئی ایکشن نہیں لیا )وسیم رضوی گاہے بگاہے آر ایس ایس کی ترجمانی کر تے رہتے ہیں مگر ہمیشہ بیان بازی کے بعد اس کی مذمت ہوتی ہے مگر کوئی انکو عہدے سے برطرف نہیں کرتاہے میں وزیراقلیت فلاح جناب مختار عباس نقوی کی بیان کی تائید کر تا ہوں انہوں نے کہا میں مدرسہ کا پروردہ ہوں کیا میں بھی دہشت گرد ہوں موصوف وزیر نے اپنے بیان سے خوب واہ واہی بٹوری مگر وسیم رضوی کا نام لئے بغیر انکے خلاف بیان بازی کئے مگر وسیم رضوی کو انکے عہدے سے برطرف نہیں کئے سماج وادی کے دور اقتدار میں پروان چڑھے وسیم رضوی اتنا طاقت ور ہے کہ مرکزی وزیر انکا نام لئے بغیر انکے خلاف بیان بازی کرتے ہیں ؟اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کیا مگر کوئی اس کو ئی اسکا کچھ نہیں بگاڑ کیا بدستور اپنے عہدے پر براجمان ہیں۔

جبکہ آج پوری دنیا مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی کلچر میں ڈھل رہی ہے ،خاص کر برصغیر ہندوستان پاکستان او ر بنگلہ دیش کے نوجوان اپنی تہذیب اور شناخت کو چھوڑ کر انگریزوں کے کردار و عمل پر عمل کررہے ہیں ان مغربی تہذیب کو روکنے کے لئے مدارس اسلامیہ وہ کام کررہی ہے جو بڑے بڑے ادارے کالج ،یونیورسٹی اور اسکول نہیں کر پارہے ہیں ۔
مدارس کے طلبا اوراسکول کالج کے طلباکے درمیان فرق سبھی جانتے ہیں تعلیم انسان کے لئے ضروری ہے حکماءکے بقول بغیر تعلیم کے انسان انسان ہی نہیں(without Education a Man is Nothing) پوری دنیا میں دو قسم کی تعلیم رائج ہے ایک دینی تعلیم اور دوسرا عصری تعلیم دینی تعلیم مدرسوں میں دیا جاتا ہے اور عصری تعلیم اسکول کالج اور یونیورسٹی میں دیا جاتا ہے، آج جب ہم اپنے بچوں کا داخلہ اسکول میں کراتے ہیں تو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے خاص کر ماہنامہ فیس سنکر ایسا لگتاہے بچوں کو تعلیم نہیں بلکہ اسے کام میں لگا دیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان میں ناخواندہ افراد کی تعداد زیادہ ہے ،ان تمام چیزوں کو درکنار کرکے ہم بچوں کا داخلہ اسکول میں کراتے ہیں مگر فراغت کے بعد وہ دربدر کا ٹھوکریں کھاتا ہوا پھرتا ہے کیونکہ اسکول اور کالج میں صرف پڑھائی کے نام پر رقم اکٹھا کیا جاتا ہے اور بچوں کو مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھالا جاتاہے اور اسے حقوق والدین حقوق اولاد اور حقوق بیوی سے انہیں ناشنا کیا جاتاہے ہے اور اسی لئے اسکول سے فارغ شدہ طلبا کے اکثر والدین اپنے ضعیفی میں کافی پریشان رہتے ہیں مگر اس کے بر عکس مدارس اسلامیہ میں ہوتا ہے بچوں کو دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی دی جاتی ہے (آج سینکڑوں کی تعداد میں مدارس سے فارغ شدہ طلباءحکومت ہند کے ماتحت اعلیٰ عہدے پر ملازم ہیں )آداب زندگی سے انہیں واقفیت کرایا ئی جاتی ہے بچوں کومحبت،اخوت ،بھائی چارگی کا پیغام دیاجاتاہے، مدارس اسلامیہ دہشت گردی کا اڈہ نہیں ،آتنکوادی کو ٹرینگ نہیں دیتا بلکہ زندگی جینے کا اصول بتا تا ہے ،وطن سے محبت کا پیغام دیتا ہے ،ملک اور آئین کی تحفظ کے لئے مدارس کے طلبہ اپنی جان کی قربانی دے سکتے ہیں مگر ملک سے غداری نہیں کر سکے کیونکہ ہر طلبا ئے مدارس کو یہ حدیث اچھی طرح یاد ہے وطن سے محبت نصف ایمان ہے ۔