طلاق ثلاثہ بل کو منسوخ کروانا مسلمانوں کادینی وایمانی فریضہ

گلبرگہ5جنوری (ےو اےن اےن) فضیلت مآب ڈاکٹر شاہ محمد افضل الدین جنیدی سراج بابا جانشین سجادہ نشین بارگاہ حضرت شیخ دکن ؒ نے اپنے ایک صحافتی بیان میںکہا ہے کہ دین اسلام نے خواتین کوجس قدر حقوق واختیارات دیئے ہیں ،دنیا کاکوئی قانون وملک اس قدر حقوق واختیارات ہرگز نہیں دے سکتا،اورنہ ہی وہ مقام ومرتبہ دے سکتاہے جواسلام نے انہیں دیاہے ۔شریعت اسلامی نے خواتین کے حقوق و اختیارات کوجس طرح کاتحفظ فراہم کیا ہے دنیاکہ کسی قانون میںاس کی نظیر نہیںملتی۔شریعت اسلامی نے حقوق نسواں کی مکمل پاسداری کی ہے اورخواتین کی زندگی کے تمام مراحل میںان کا مکمل ساتھ دیاہے۔ انہیں کہیں بھی بے یارومددگار نہیں چھوڑا۔حضرت سراج بابا نے مزید کہا ہے کہ شریعت اسلامی کسی انسان کاوضع کردہ قانون نہیں ہے بلکہ وہ خدائی قانون ہے۔اس کی بنیاد وحی الہٰی اورکتاب وسنت ہے جس میں کسی قسم کی کوئی کمی یاخامی ہرگز موجودنہیں ہے۔اورنہ ہی اس میںکسی قسم کی کوئی تبدیلی کی گنجائش وضرورت ہے ۔مسلمان گذشتہ چودہ صدیوں سے شریعت اسلامی پرکاربند ہیں اورقیامت کی صبح تک احکام شریعت کے پابند رہیںگے۔اس میںکسی قسم کی کوئی ترمیم یاتبدیلی کوہرگز برداشت نہیں کریںگے ۔شریعت اسلامی مسلمانوںکے تشخص کاواحد نشان ہے گذشتہ کچھ عرصہ سے ہمارے ملک میںشریعت اسلامی میںمداخلت کی ناکام وناپاک کوشش کی جارہی ہے ،موجودہ حکومت طلاق ثلاثہ مخالف بل کی منظوری کے ذریعہ راست طورپر شریعت اسلامی میںمداخلت کرنے اور مسلمانوںکے خاندانوں کوتباہ وبرباد کرنے کی کوشش کررہی ہے۔اس بل کامقصد مسلم خواتین کی فلاح وبہبود نہیں ہے بلکہ مسلم معاشرے میںاختلاف وانتشار پھیلاناہے۔حضرت سراج بابا نے کہا ہے کہ یہ بل پیچیدگیوں اورخامیوں سے بھراہواہے اور آئین ہند کے خلاف ہے۔سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایک مجلس میں تین طلاق دینا بے معنی ہے لیکن جرم نہیں جبکہ مودی حکومت کے بل میں 3سال کی سزا متعین ہے۔اس بل کی رو سے طلاق ثلاثہ کے مرتکب کوضمانت نہیںملے گی۔اس بل کے پاس ہونے سے مسلمان مردوخواتین دونوں کاخسارہ ہے نابالغ بچو ں کے حقوق کی حفاظت وکفالت مطلقہ عورت کاحق ہوگا۔حکومت بل کی منظوری کے ذریعہ مسلم خواتین کے حقوق کی حفاظت کادعویٰ کررہی ہے لیکن اس بل کے پاس ہونے سے مسلم خواتین کوکس قدر مسائل وپریشانیوں کاسامنا کرناپڑے گا اس کااندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتاہے۔جس عورت کی وجہ سے مرد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگھر والوں کارویہ اس عورت کے ساتھ کیساہوگا۔ عورت نے تنگ آکر جان لیوا قدم اٹھایاتواس کاذمہ دار کون ہوگا جس عورت کی شکایت پرمردکوجیل بھیج دیاگےا،سماج میںوہ عورت کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہوگی۔اس سے نجات کیسی ہوگی کیامرد جیل میںرہ کر کفالت کی ذمہ داری پوری کرسکتاہے۔پھر ایسی صورت میں عورت اپنی اور اپنے بچوں کی پرورش کے اخراجات کیسے پوراکرے گی۔3سال کی سزاکاٹ کر مرد جب واپس آئے گا تب کیا وہ اس عورت کے ساتھ خوشگوار زندسگی گذارسکے گا ،اگر سزاکے خوف سے مرد طلاق نہ دے اس کے اخراجات بھی پورانہ کرے تو ایسی صورت میںکیا عورت کی حق تلفی نہ ہوگی کسی مرد کی عادت وطبیعت اچھی نہیںہوتوعورت چھٹکارا حاصل کرناچاہتی ہے اب مردتین طلاق دے تو قانونی طورسے مجرم ہوگا اوراگرنہ دے توعورت کی زندگی عذاب جان بنی ہوگی۔ اب ایسی صورت میں عورت جس ذہنی عذاب سے گذرے گی کیااس عذاب سے حکومت چھٹکارا دلاسکتی ہے ۔الغرض اس بل کی منظوری ہرطرح سے مسلم خواتین ومرد کے لئے پریشانیوں کاپیش خیمہ ہے۔اس لئے اس بل کومنسوخ کروانا مسلمانوں کادینی وایمانی فریضہ ہے۔ مسلمان اس بل کی منسوخی کے لئے ملکی سطح پر متحد ہوکر پرامن احتجا جی مظاہروں اورجلسوں کاانعقاد کریں اس بل کی منسوخی تک قانونی دائرے میں رہ کر ہرطرح کی کوشش جاری رکھیں ،اپنے آپسی اختلا ف کوبالائے طاق رکھیں ۔حضرت سراج بابا نے کہا کہ میںانجمن سجادگان ومتولیان کی جانب سے تمام برادران اسلام سے پرخلوص گذارش کرتاہوں کہ 6جنوری 10بجے صبح ہفت گنبد کے میدان سے روانہ ہونے والے احتجاجی مظاہرے میںکثیر تعداد میںشرکت کرتے ہوئے اپنے دینی وایمانی فریضہ کواداکریں اوراحتجاجی مظاہرہ کوبھرپور کامیاب بنائیں۔ خصوصاً علماءکرام ،مشائخین عظام،عمائدین شہر کے علاوہ ملی ومذہبی تنظیموں کے ذمہ داران اوراسکولوں ،کالجوں کے اسٹاف ،مدارس دینیہ کے ذمہ داران اسٹاف وطلبا سے دانشوران ملت ،ایڈوکیٹس ،ڈاکٹرس ،سے گذاش ہے کہ اپنا قیمتی وقت نکال کر احتجاجی مظاہرہ میںشریک ہوں۔