شام میں ایران کے بھیجے 2 ہزار سے زیادہ افغان ’رضاکار‘دہشت گرد ہلاک

تہران7جنوری ( آئی این ایس انڈیا ) شام میں اب تک ایران کی جانب سے بھیجے گئے دو ہزار سے زیادہ افغان ”رضاکار“ صدر بشارالاسد کی حکومت کے دفاع میں باغیوں کے خلاف لڑتے ہوئے ہلاک ہوگئے ہیں۔افغان ”رضاکاروں“ پر مشتمل فاطمیون بریگیڈ کے ایک عہدہ دار زہیر مجاہد نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ شام میں گذشتہ پانچ سال سے ان کے جنگجو لڑرہے ہیں۔انھوں نے اصلاح پسندوں کے اخبار شہ رغ میں ہفتے کے روز شائع شدہ انٹرویو میں کہا کہ ” اس بریگیڈ نے اسلام کے لیے دو ہزار سے زیادہ شہداءاور آٹھ ہزار سے زیادہ زخمی دیے ہیں “۔واضح رہے کہ ایران سرکاری طور پر عراق اور شام میں جاری جنگوں میں مرنے والے اپنے فوجیوں یا گماشتہ ( پراکسی) ”رضاکاروں“ کی تعداد جاری نہیں کرتا ہے۔ گذشتہ سال مارچ میں ایک تنظیم نے شام اور عراق میں باغیوں یا داعش کے خلاف لڑائی میں ہلاک ہونے رضاکاروں کی تعداد دو ہزار ایک سو بتائی تھی لیکن یہ وضاحت نہیں کی تھی کہ ان میں کتنے غیرملکی تھے۔ایران سرکاری طور پر پیشہ ور فوجیوں کو بھی ان دونوں ملکوں میں بھیجنے کی تردید کرتا ہے اور اس کا یہ مو¿قف رہا ہے کہ اس نے فوجی مشیر اور ایران، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں پر مشتمل بریگیڈز کو وہاں مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے بھیجا ہے لیکن یہ جنگجو شام میں ایسے علاقوں میں بھی باغیوں کے خلاف لڑرہے ہیں جہاں کوئی مقدس مقام نہیں ہے۔فاطمیون ان جنگجوو¿ں کا سب سے بڑا یونٹ ہے۔یہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے شیعوں پر مشتمل ہے اور ایران نے انھیں عسکری تربیت دے کر شام اور عراق میں بھیجا ہے۔ایران ماضی میں افغانستان میں شیعہ ملیشیاو¿ں کی طالبان کے خلاف لڑائی میں مدد دے چکا ہے اور اس نے عراق اور ایران کے درمیان جنگ کے دوران میں بھی ہزاروں افغان شیعہ جنگجوو¿ں کو میدان میں جھونکا تھا۔ زہیر مجاہد کے بہ قول 1980ءکے عشرے میں عراق کے خلاف جنگ میں قریباً تین ہزار افغان جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔اب ایران شام اور عراق میں لڑائی میں مارے جانے والے غیر ملکی جنگجوو¿ں کے خاندانوں کو ملکی شہریت بھی دے رہا ہے۔ ایرانی میڈیا ان دہشت گرد ” شہداء“ کے جنازوں کی تفصیل شائع اور نشر کر تا رہتا ہے