حضرت مولانا قاری طےب ؒ کے کارنامے

ےو سف رامپوری
بےسوےں صدی مےں ہندوستان کے افق پر جو مسلم شخصےتےں نمودار ہوئیں ،ان مےں حکےم الاسلام حضرت مولانا قاری طےب ؒ کا نام سرفہرست ہے ۔ بےسوےں صدی کے پہلے نصف حصہ مےں تو عظےم شخصےات کی تعداد خاصی تھی ، لےکن آخری نصف صدی مےں عظےم مسلم شخصےتوں کو انگلےوں پر ہی گنا جاسکتا ہے ۔ قاری طےب صاحب ؒ کی خاص بات ےہ تھی کہ آپ بےک وقت کئی صلاحےتوں کے مالک تھے ، مثلا آ پ اےک طرف زبردست عالم دےن تھے ، تو دوسری طرف محقق بھی تھے ، ساتھ ہی اےک اہم خطےب بھی اور اےک بلند پاےہ مصنف بھی ، ےہی نہےں بلکہ آپ کے اندر انتظام و انصرام کی بھی بڑی صلاحےت تھی ۔ کون نہےں جانتا کہ قاری طےب ؒ نے پچاس سال تک اےشےا کے سب سے عظےم دےنی ادارے دارالعلوم دےوبند کے نظم و نسق کو سنبھا لا اور جس خوش اسلوبی کے ساتھ دارالعلوم دےوبند کے مےنجمنٹ ( نظام) کو سنبھالا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے ۔ حکےم الاسلام کے دور اہتمام مےں دارالعلوم دےوبند کو اور زےادہ ترقی کر نے کا موقع ملا ۔
جن لوگوں نے حضرت مولانا قاری طےب ؒ کی تقرےرےں سنی ہےں ،وہ بتاتے ہےں کہ ان کے علاوہ ہم نے کبھی اتنی پرمغز اور معنوےت کی حامل تقرےرےں نہےں سنےں ، وہ ےہ بھی کہتے ہےں کہ حضرت قاری طےب کا جو انداز بےان تھا ، وہ اتنا سادہ ، سہل اور دلکش تھا کہ مشکل سے مشکل بات بھی سمجھ مےں آجاتی تھی۔ مولانا محمد تقی عثمانی نے حضرت قاری طےب کے خطبات کا نقشہ ان الفاظ کھےنچا ہے ۔
”جہاں تک وعظ و خطابت کاتعلق ہے ، اس مےں تو اللہ تعالی نے حضرت کو اےسا عجےب و غرےب ملکہ عطا فرماےا تھا کہ اس کی نظےر مشکل سے ملے گی ، بظاہر تقرےر کی عوامی مقبولےت کے جو اسباب آج کل ہوا کرتے ہےں ، حضرت قاری صاحب کے وعظ مےں وہ سب قرےباً مفقود تھے ، نہ جوش و خروش ، نہ فقرے چست کرنے کا انداز ، نہ پرتکلف لسان ، نہ لہجہ اور ترنم ، نہ خطےبانہ ادائےں ، لےکن اس کے باوجود وعظ اس قدر موئثر ، دلچسپ اور مسحور کن ہوتا تھا کہ اس سے عوام اور اہل علم دونوں ےکساں طورپر محظوظ ہوتے تھے ، مضامےن اونچے درجے کے عالمانہ اور عارفانہ ، لےکن انداز بےان اتنا سہل کہ سنگلاخ مباحث بھی پانی ہوکر رہ جاتے ، جوش و خروش نام کو نہ تھا ، لےکن الفاظ و معانی کی اےک نہر سبےل تھی جو ےکساں روانی کے ساتھ بہتی اور قلب و دماغ کو نہال کردےتی تھی ،اےسا معلوم ہوتا کہ منہ سے اےک سانچے مےںڈھلے ہوئے موتی جھڑ رہے ہےں ،ان کی تقرےر مےں سمندر کی طغےانی کے بجائے اےک باوقار درےا کا ٹھہراﺅ تھا جو انسان کو زےر و زبر کرنے کی بجائے دھےر ے دھےر ے اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا تھا “(نقوش رفتگاں)
قاری طےب ؒ کی تقرےروں سے ان کے علم کا بھی اندازہ بھی ہوتا تھا ، وہ لفاظی نہ کرتے تھے ، نہ کسی بات کو طول دےتے تھے ، نہ گھماتے تھے ، بلکہ وہ تو بات کو بےان کرتے چلے جاتے ۔ در اصل ان کے پاس موضوع پر بولنے کے لےے اتنا مواد ہوتا کہ انہےں الفاظ کو بار بار دوہرانے ےا بات کو گھمانے کا موقع نہےں ہوتا تھا بلکہ موضوع پر بے تہاشا مواد ہونے کی وجہ سے قاری صاحب اپنی تقرےر کو جامعےت کا جامہ پہنانے کی کوشش کرتے تھے مگر اس کا ےہ مطلب نہےں کہ ان کی بات سمجھ مےں نہ آتی ہو، بلکہ پورے طور سے ان کی بات سمجھ مےں آتی تھی اور سامعےن اےک لمحہ کے لےے ان کی تقرےر سے غافل نہ ہوتے تھے ۔ ےا تو ےہ کہئے کہ حضرت قاری صاحب کو ےہ ملکہ حاصل تھا کہ و ہ اپنے سامعےن کو اپنی بات سے باندھے رکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ان کی زبان سے نکلی ہوئی کسی بات سے وہ محروم نہ رہ جائےں ۔
قاری صاحب کا مطالعہ بہت سے موضوعات پر مشتمل تھا، دےنی موضوعات پر تو ان کی نہ صرف زبردست پکڑ تھی ہی بلکہ ان پر گہری نظر تھی ، اس کے علاوہ دنےوی علوم پر بھی وہ گہری نظر رکھتے تھے ۔ سائنس ، جغرافےہ ، تارےخ ، علم کلام ، منطق ، طب ، فلسفہ اور دےگر بہت سے علوم کے سمندروں مےں بھی انہوں نے غوطہ زنی کی تھی ۔ سائنس اگرچہ قاری صاحب کا موضوع نہ تھا، وہ نہ سائنس کے پروفےسر تھے ، نہ سائنسی تجربات کرنے کا انہےں موقع ملاتھا مگر اےک بار جب سائنس دانوں کے سامنے انہوں نے سائنس کے موضوع پر تقےر کی تو وہ انگشت بدنداں رہ گئے اور حےرت مےں پڑگئے کہ ان کے پاس سائنس کااتنا گہرا علم کہاں سے آےا ہے ۔
حکےم الاسلام قاری طےب ؒ صرف اےک خطےب ہی نہےں تھے ، بلکہ اللہ رب العزت نے انہےں تحرےر کی بھی صلاحےت دی تھی ۔ وہ مشکل مضامےن کو بہت آسانی سے لکھنے کاملکہ رکھتے تھے ۔ قاری طےب صاحب کی مضمون نوےسی کا آغاز زمانہ طالب علمی مےں ہی ہوگےا تھا ،انہوں نے ” القاسم “ کے صفحات مےں جگہ بنائی ، شاندار مضامےن لکھے اور بحےثےت قلم کار مقبولےت حاصل کی ۔ قاری طےب کی تحرےر کی خوبےوں پر مولانا ےوسف لدھےانوی نے بجا طور پر روشنی ڈالی ہے ، لکھتے ہےں ” حضرت موصوف کو حسےن و شےرےں الفاظ مےں مافی الضمےر ادا کرنے کا خاص ملکہ تھا ،دقےق ترےن مسائل کو بہت ہی آسان عبارت مےں ادا فرماتے تھے اور اےسے زولےدہ و پےچےدہ مباحث جن مےں برسوں بھٹکتے ہےں اور انہےں ان کا کوئی سرا نہےں ملتا ، حضرت کا قلم حقائق رقم کر کے اےسے مباحث کو بڑی سہولت و سلاست سے حل کردےتا تھا اور ان کی تحرےر پڑھ کر قاری محسوس کرتے کہ اس موضوع پر ان کے ذہن مےںکوئی الجھن باقی نہےں رہی ۔انہوں نے سےرت طےبہ سے لے کر مسئلہ تقدےر جےسے نازک مسئلہ پر قلم اٹھا ےا مگر ان کا خاص معےاری اسلوب ہر جگہ قائم رہا ۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ ےہ سب کچھ محض ذہن کی صناعی اور الفاظ کی مےنا کاری نہےں بلکہ ےہ وہبی علوم ہےں اور ان مےں قاسمی روح جھلکتی ہے “
بےان کےا جاتا ہے کہ حضرت قاری طےب ؒ نے سو سے زائد کتابےں لکھےں ، جن کو عوام و خواص مےں ےکساں مقبولےت حاصل ہوئی ۔ ےہ کتابےں مختلف موضوعات پر ہےں ۔ قاری صاحب کی جن کتابوں کو خاص طور سے مقبولےت حاصل ہوئی ، ان مےں ” اسلام اور عالمی امن و اخوت ، اسلام اور فرقہ وارےت ،اسلام کااخلاقی نظام ، اسرائےل کتاب و سنت کی روشنی مےں ، التشبہ فی الاسلام ، انسانےت کاامتےاز ، مذہب و سائنس ، حدےث رسول کا قرآنی معےار ، جنو ن شباب ، عالم برزخ ، آفتاب نبوت ، شرعی پردہ عجائبات برزخ ، شہےد کربلا و ےزےد ، سائنس اور اسلام ، فلسفہ نعمت و مصےبت ، عرفان عارف ، مشاہےر امت ، معجزہ کےا ہے ؟ ، مقامات مقدسہ ، مسلک علماءدےوبند ، علمائے دےوبند کادےنی رخ اور ان کا مسلکی مزاج ، کلمات طےبہ ، مسئلہ قربانی پر اےک نظر ، مسئلہ تقدےر وغےرہ ۔قاری طےب ؒکی تمام کتابےں جامعےت و معنوےت سے عبارت ہےں ، جس موضوع پر انہوں نے کتاب لکھی ، ےقےنا بڑی حد تک اس کا حق ادا کےا۔
(ےو اےن اےن)